سفرِ حجاز کی ’’خفیہ‘‘ منصوبہ بندی …(2)

ایک طرف مسلسل ڈائیلسز کے باعث والدہ محترمہ کی صحت بگڑتی جا رہی تھی تو دوسری طرف میں اپنے خفیہ منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہا تھا۔ جہاں ڈاکٹرز مجھے والدہ کو عمرہ پر ساتھ لے جانے سے روک رہے تھے‘ وہاں میرے دل میں ربِ کائنات کی بے پایاں رحمت پر یقین اتنا ہی پختہ ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے خالقِ دو جہاں اور اس کے محبوب نبیﷺ کی سر زمین پہ حاضری کا شدت سے انتظار تھا جس کے لیے میں نے گزشتہ دو دہائیوں میں سینکڑوں‘ ہزاروں بار تمنا کی تھی، دعائیں مانگی تھیں اور اپنی ذات سے کیے گئے وعدے کی تکمیل کے لمحے کا انتظار کیا تھا۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹروں کے مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براہِ راست امی جان کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ لیا۔
ایک دن علیحدگی میں ان سے میں نے بڑے جذباتی انداز میں عمرہ کے لیے روانگی کی تیاریوں کا ذکر کیا اور انہیں اپنے دل میں پوشیدہ اس سرپرائز سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں مگر پھر ساتھ ہی انہوں نے اپنی صحت کی خرابی اور اس سے جڑے خدشات کا اظہار بھی کیا۔ میں نے اپنے دلائل میں سب سے ٹھوس نکتہ اٹھایا کہ جن ڈاکٹروں نے ہمیں سفرِ حجاز سے منع کیا ہے انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ خالقِ دو جہاں کے دستِ قدرت میں بیماری، علاج، شفا، زندگی اور موت کا پورا نظام ہے اور اسے کُن سے فیکون تک ایک لمحہ بھی درکار نہیں‘ بھلا اس کے خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے؟ تو کیوں نا اسی ربِ کائنات کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز جھکائی جائے اور آپ کی صحت اور شفائے کاملہ کی التجا اسی خالق کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کی جائے۔ اسی طرح محبوبِ خدا نبی آخر الزماںﷺ کے روضۂ انوار پر حاضرہو کر صحت و سلامتی کی درخواست گزاری کی جائے۔ میری گفتگو میں موجود سنجیدگی، جذباتیت اور دلائل کے امتزاج نے میرا کام آسان کر دیا اور والدہ محترمہ نے میرے منصوبے سے مکمل اتفاق کر لیا۔ میں نے انہیں اس بات پر بھی قائل کر لیا کہ روانگی سے ایک آدھ دن قبل تک یہ سارا معاملہ صیغۂ راز میں ہی رکھا جائے گا کیونکہ دیگر بھائیوں کی طرف سے شدید تحفظات کی وجہ سے ہمارے اس ارادے کی تکمیل میں مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ اگلے دو ہفتوں میں ہمارے پاسپورٹ اور عمرے کے ویزے سمیت جملہ انتظامات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔ سب سے اہم مسئلہ عمرہ کے دوران والدہ محترمہ کے لیے ڈائیلسز کا بندوبست کرنا تھا کیونکہ ہر تین دن کے بعد یہ لازم تھا۔ میں نے صرف چھ دن کے لیے سفرِ حجاز کا پروگرام مرتب کیا تھا‘ جس کے مطابق لاہور ایئرپورٹ کے نزدیک واقع ایک نجی ہسپتال سے ڈائیلسز کے بعد مدینہ منورہ کے لیے روانگی تھی۔ شہرِ نبی میں دو دن کا قیام اور تیسرے دن مکہ مکرمہ کے لیے سفر کرنا تھا۔ ایک دوست ڈاکٹر نے اپنے تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے طائف روڈ مکہ معظمہ میں ڈائیلسزکا بندوبست کروایا تھا، جس نے وہاں پر تعینات مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سے بذریعہ ٹیلیفون میری گفتگو بھی کروادی تھی۔
بالآخر انتظار کی گھڑیاں سمٹ گئیں اور میں امی جان کے ہمراہ سعودی ایئر لائنز کی پرواز پر لاہور سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ ہم دونوں انتہائی خوش تھے اور اللہ تعالیٰ کے بے حد شکر گزار کہ سرزمینِ حجاز پر حاضری کا بلاوا نصیب والوں ہی کے حصے میں آتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دورانِ پرواز میں نے عمرہ کی ادائیگی اور راہنمائی پر مبنی تین چار کتابچے بار بار پڑھے، اُن میں درج دعائوں، زیارات کے مقامات اور حرمین شریفین کے تقدس پر گراں قدر معلومات نے روح پرور ماحول بنا دیا اور ہمارا سفر نہایت آسانی کے ساتھ طے ہو گیا۔ رات ایک بجے کے قریب ہم مدینہ منورہ کے ایئر پورٹ پر اترے اور امیگریشن کے مراحل طے کر کے ٹریول ایجنٹ کی طرف سے فراہم کردہ گاڑی میں سوار ہو کر اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ جیسے ہی ہماری گاڑی مدینۃ النبی میں داخل ہوئی تو ڈھلتی رات کے آخری پہر میں یوںمحسوس ہوا کہ چاروں طرف نور کی چادر تنی ہوئی ہے اور آسمان پر ملائکہ نے نورانی محافل کا انتظام کر رکھا ہے۔ اگلے چند لمحات میں مسجد نبوی کے میناروں کی ایک جھلک نے میرے باطن کی اندھیر نگری میں جانے کتنے چراغ روشن کر دیے اور میرے کانوں میں معروف نعت گو شاعر جناب محمد علی ظہوری قصوری کی مشہورِ زمانہ نعت کے ان اشعار نے رس گھولنا شروع کر دیا ''جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے؍ اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے منظر ہو بیاں کیسے‘ الفاظ نہیں ملتے؍ جس وقت محمدؐ کا دربار نظر آئے‘‘۔
امی جان جو پورے سفر میں درود و سلام میں مشغول رہیں‘ اب اپنے ہاتھ بلند کر کے بارگاہِ رسالت میں اپنی حاضری لگوا رہی تھیں۔ مجھے تو گویا سب کچھ بھول گیا تھا۔ صرف ایک ہی مدعا تھا جو میرے آنسوئوں میں ڈھل کر بیان ہو رہا تھا کہ اے انبیاء کے سردار اور ربِ کائنات کے محبوب نبیﷺ میں اپنی والدہ کی صحتِ کاملہ اور شفائے عاجلہ کا طلبگا رہوں۔ میری کئی سالوں پر مبنی ساری دعائوں، حاجات اور التجائوں کا محور میری والدہ کی صحت و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر میں نے امی جان کو مشورہ دیا کہ وہ چند گھڑیاں سو کر آرام کر لیں اور سفر کی تھکاوٹ دور کر کے تازہ دم بارگاہِ رسالت میں میرے ساتھ روانہ ہوں۔ انہوں نے میری اس تجویز کو یکسر مسترد کر کے فوراً وضو کرنے کے احکامات صادر فرمائے اور بلاتاخیر مسجد نبوی پہنچنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اگلے چند لمحات میں ہم رحمتوں کے حصار میں تھے۔ والدہ خواتین والے حصے میں جا پہنچیں تو میں محبوبِ خداﷺ کے روضۂ اطہر کے قدمین میں نوافل ادا کرنے لگا۔ اس طرح اگلے دو دن ایک خواب کی صورت گزر گئے۔ حیرت انگیز طور پر والدہ محترمہ کی بیماری، نقاہت اور کمزوری کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اور وہ چاق و چوبند میرے ساتھ عبادات، زیارات اور نوافل میں برابر شریک رہیں۔ تیسرے دن روضۂ رسولﷺ پر الوداعی حاضری دے کر ہم مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہو گئے۔
طائف روڈ پر واقع ایک ہسپتال میں امی جان کے ڈائیلسز کا انتظام موجود تھا۔ لگ بھگ چار گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے انتظار میں تھے۔ انہوں نے کمال محبت سے ہماری خدمت کی اور اپنی ذاتی نگرانی میں ڈائیلسزکروایا۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہم اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے جہاں وضو کر کے بلا توقف ہم ربِ ذوالجلال کے عظمتوں والے کعبہ کے سامنے حاضر تھے۔ شان و شوکت اور ہیبت و وجاہت سے بھرپور کعبہ شریف کو دیکھتے ہی جہاں مجھے خالقِ دو جہاں کی ناقابلِ بیاں بے نیازی کا احساس ہوا وہاں اپنے حقیر وجود کی اصل اوقات کا بھی بخوبی ادراک ہوا۔ پہلی نظر پڑتے ہی امی جان کی صحت و سلامتی کے علاوہ میں نے کچھ نہیں مانگا۔ اگلے دنوں دو مرتبہ عمرہ کے مراحل طے کیے، زیارات کیں اور جتنا ممکن ہو سکا اپنے گناہوں کی معافی اور التجائوں پر زور دیا۔ شہرِ نبی کی طرح یہاں بھی کئی حیران کن معاملات درپیش نظر آئے جہاں میری حیثیت سے زیادہ مجھے اپنی دعائوں کی بارآوری کے اشارے ملے۔ کعبہ شریف کے سامنے جب بھی میں اور امی جان بیٹھ کر دعائیں مانگتے تو وہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے پر اصرار کرتیں مگر وہاں ہمیشہ جمِ غفیر کو دیکھ کر میں اگلی نماز کا وعدہ کر لیتا۔ ربِ کریم نے جس طرح معجزانہ طور پر امی جان کے لیے حجرِ اسود کے بوسے کا انتظام فرمایا‘ وہ خاکسار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ امی جان کی دعائوں کی قبولیت کا واضح پیغام تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ واپسی پر کڈنی ٹرانسپلانٹ کی اگلی کوشش میں کامیابی یقینی ہے۔ ڈاکٹر ایک بار ناکامی کے بعد دوسرے ٹرانسپلانٹ پر محض بیس فیصد تک کامیابی کی بات کر رہے تھے مگر دسمبر 2006میں ہونے والے آپریشن نے میرے یقین پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ وہی پیوند شدہ گردہ آج بھی امی جان کی صحت و سلامتی کا ضامن بنا ہوا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں