گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بلاشبہ اپنی درخشندہ روایات اور شاندار اقدار کے سبب پاکستان بھر کی تعلیمی درسگاہوں میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ادارہ ہے جس کے مشاہیر میں شاعرِ مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، صوفی تبسم، پطرس بخاری، پروفیسر اشفاق علی خان اور دیگر بلند پایہ علمی و ادبی شخصیات شامل ہیں۔ اس عظیم درسگاہ نے 1864ء سے لے کر اب تک تعلیم و تدریس کے شعبے میں جہاں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں وہاں ہزاروں کی تعداد میں نامور سپوت بھی پیدا کیے ہیں جنہوں نے سول سروس، مسلح افواج، سیاست، تجارت، کھیل، کاروبار اور مختلف پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر مبنی شعبہ ہائے زندگی میں خوب نام کمایا اور وطنِ عزیز کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ۔ آج بھی دنیا بھر میں راوینز کا ایک وسیع و عریض نیٹ ورک موجود ہے جنہیں گورنمنٹ کالج کے درودیوار سے عشق کی حد تک لگائو ہے اور اپنے اس تعلق پر فخر بھی۔ انہی خوبصورت روایات میں ایک قابلِ تحسین روایت اولڈ راوینز یونین ہے جس کی داغ بیل 1934ء میں ڈالی گئی اور پھر 1995ء میں اس کے آئینی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کر کے ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ اسے فعال بنایا گیا۔
اولڈ راوینز یونین گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پر مبنی یہ ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جس کا ہر دو سال کے بعد باقاعدہ الیکشن منعقد کرایا جاتا ہے اور اس کے صدر، جنرل سیکرٹری اور دیگر عہدیداران کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں پھیلے راوینز کو متحرک کیا جاتا ہے۔ اولڈ راوینز کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر راغب کرنے کے لیے امیدواران کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ یقینا اولڈ راوینز یونین کے ساتھ منسلک ہونااور باقاعدہ منتخب ہو کر راوینز کی خدمت کرنا جہاں باعثِ صد افتخار ہے وہاں توقعات پر پورا اترنے کی کڑی آزمائش سے گزرنے کا کٹھن مرحلہ بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو‘ تین دہائیوں میں ہمیں پولیس سروس کے سعادت اللہ خان، سابق چیف سیکرٹری پنجاب پرویز مسعود اور کامران لاشاری جیسے بڑے نام نظر آتے ہیں جنہیں اولڈ راوینز یونین کی کرسیٔ صدارت کے لیے منتخب ہونے کا اعزاز نصیب ہوا۔
چند سال قبل ہمارے کچھ احباب نے 1990ء کی دہائی کے کئی دوستوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ڈھونڈ نکالا اور میل ملاپ کا باقاعدہ بندوبست کر کے مختلف شہروں میں پُر تکلف ضیافتوں کا اہتمام کیا۔ کئی ہم جماعت مدتوں بعد اکٹھے ہوئے تو بہت سے جونیئرز اور سینئرز سے دوبارہ ملنے کا موقع مل گیا۔ اس میل ملاپ سے اولڈ راوینز یونین کے انتخابات کے لیے بھی راہ ہموار ہو گئی اور ہمارے گروپ کے نامزد میاں اشفاق موہلن 2019ئکے الیکشن میں کامیاب ہو کر صدر منتخب ہو گئے جبکہ 2021ء کے الیکشن میں میرے بیچ میٹ اور پولیس سروس آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے جہانزیب نذیر صدر کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔یہ امر بلاشبہ اولڈ راوینز یونین کے انتخابات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مظہر ہے اور اس پلیٹ فارم کو پہلے سے کہیں زیادہ فعال اور متحرک بنانے کا ذریعہ بھی۔
اس سال مارچ میں ہونے والے انتخابات میں ایک مرتبہ پھر نوجوان قیادت سامنے آئی اور میرے چھوٹے بھائی کے کلاس فیلو طیب حسین رضوی صدارت کا سہرا اپنے سر سجانے میں کامیاب رہے جبکہ 1990ء کی دہائی سے تعلق دار ساجد عطا گورائیہ سینئر نائب صدر اور میاں سہیل جیوے ممبر ایگزیکٹو منتخب ہوئے۔ گزشتہ چند سالوں سے کئی احباب نے مجھے بھی اولڈ راوینز کے اس پلیٹ فارم پر انتخاب کے لیے متعدد بار قائل کرنے کی کوشش کی اور یہ سراسر ان کی مہربانی ہے کہ مجھے انہوں نے اس اعزاز کے قابل سمجھا مگر میں اپنی سرکاری مصروفیات کے سبب ان کے محبت بھرے اصرار کے باوجود اولڈ راوینز کی خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش نہیں کر سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ میں محض صدارت یا کسی عہدے کاکبھی متمنی نہیں رہا۔ ہاں‘ میرے ذہن میں کئی اہم امور ضرور تھے کہ اگر کبھی میں خود کو اس ذمہ داری کے لیے تیار کر پاتا تو پھر ان اہداف کا حصول ممکن بنانے کے لیے دن رات ایک کرتا اور اولڈ راوینز کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا۔ اب گزشتہ سال سے میں یہاں برطانیہ پی ایچ ڈی کے لیے موجود ہوں جس کا دورانیہ لگ بھگ چار برس پہ محیط ہے تو میں نے یہ ضروری سمجھا کہ جانے زندگی اور وقت مجھے مہلت دیں یا نہ دیں‘ کیوں نا میں اپنے ذہن میں موجود اُن اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے موجودہ منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر بطور رضا کار کام کروں۔ اصل چیز تو کام ہے، منزل ہے، نئے اہداف ہیں اور انہیں حقیقت کے روپ میں دیکھنا ہے۔ اس کے لیے عہدے اہم ہیں اور نہ ہی واہ واہ کی کوئی طلب ہے۔ لہٰذا میں نے اپنے بھائیوں جیسے ساجد عطا گورائیہ‘ جو اولڈ راوینز یونین کے سینئر نائب صدر ہیں‘ کے سامنے چند گزارشات رکھیں اور اس سلسلے میں میرا ان سے مسلسل رابطہ بھی رہتا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ انہوں نے میری آرا سے نہ صرف مکمل اتفاق کیا بلکہ ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔
سب سے پہلا اور ضروری کام اولڈ راوینز یونین کو ایک نان پرافٹ آرگنائزیشن(این پی او) کے طور پر رجسٹر کروانا ہے جس کے لیے اس کا آئینی ڈھانچہ بھی بدلنا ہوگا۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف اسے قانونی طور پر ایک مستند ادارہ بنانا ہے بلکہ ایک شفاف اور مربوط نظام وضع کر کے دنیا بھر میں موجود اولڈ راوینز کے وسیع نیٹ ورک کو اس کے ساتھ منسلک کرنا ہے جن کا اس پر مکمل اعتماد ہو۔ اگلے مرحلے میں امریکہ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں موجود راوینز کو متحرک کرنا اور وہاں اس پلیٹ فارم کی شاخوں کو فعال کر کے غریب، ذہین اور مستحق طلبہ اور طالبات کے لیے تعلیمی وظائف کا ایک شفاف پروگرام ترتیب دینا ہے جس کے تحت ہر سال کم ز کم 100بچوں کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں مفت تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ صاحبِ حیثیت راوینز سے اپنی مادرِ علمی کے لیے قائم کردہ انڈومنٹ فنڈ کے لیے ڈونیشن کی بھی درخواست کی جائے گی تا کہ ہماری اس عظیم درسگاہ کو اپنے طلبہ و طالبات کی فلاح و بہبود یقینی بنانے کے لیے مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا نیا کیمپس کالاشاہ کاکو کے قریب تقریباً چار سو ایکڑ پر تعمیر ہو چکا ہے‘ اس نئے کیمپس میں راوینز اور ان کی فیملیوں کے لیے راوینز کلب بنانے کی اشد ضرورت ہے جو صرف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے لیے مختص ہو گا جس سے یقینی طور پرراوینز کا نہ صرف آپس میں میل ملاپ بڑھے گا بلکہ خاندانی سطح پر بھی بچوں کے درمیان خوشگوار تعلقات استوار کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک اور اہم کام گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کے کوائف اکٹھے کر کے ایک فعال اور مربوط ایلومنائی سافٹ ویئر تیار کروانا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا میں پھیلے ہوئے اولڈ راوینز کے وسیع و عریض نیٹ ورک کو ایک خود کار، شفاف اور مربوط نظام سے منسلک کرنا ہے جس سے ایک طرف اولڈ راوینز یونین کی ممبر شپ کا حصول آسان ہو جائے گا‘ دوسری طرف راوینز کے لیے تعلیمی وظائف اور دیگر فلاحی منصوبوں کا اجرا ممکن ہو سکے گا۔ نئے اہداف اور توقعات کا یہ سفرنیک نیتی، اخلاص اور سچائی سے شروع ہوگیا ہے جس کی منزل اب زیادہ دور نہیں‘ان شاء اللہ!
شاعرِ مشرق کے یہ اشعار اس سفر میں ہمارے لیے مشعلِ راہ رہیں گے:
تو رہ نوردِ شوق ہے‘ منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول