جعلی کرنسی

یہ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانۂ طالب علمی کی بہت سی حسین یادوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے زیرو میٹر 70 سی سی موٹر سائیکل کیا خریدی‘ ہمارے پائوں زمین پر لگنے سے انکاری ہو گئے اور باقاعدہ طور پر ہم لاہور کی اس وقت کی کافی حد تک کم آلودہ فضائوں میں اڑنے لگے۔ اس فلائٹ کے پائلٹ سیف انور بھائی تھے اور میں اکلوتی سواری‘ جو بائیک پہ پیچھے بیٹھ کر کتابیں اور کاپیاں سنبھالنے کی ذمہ داری نبھاتا۔ ہم جیسے سادہ لوح دیہاتی گائوں سے لاہور جیسے بڑے شہر میں آ کر موٹر سائیکل چلانا شروع ہوئے تو کافی عرصہ تک تمام شاہراہیں، چوک چوراہے اور ٹریفک سگنل ایک ہی جیسے دکھائی دیتے۔ اس وقت سیف بھائی کو لاہور رہتے ہوئے دو سال ہو چکے تھے جب میں بھی تعلیم کے سلسلے میں لاہور آ گیا مگر اس کے باوجود ہم اکثر ایک ہی ٹریفک سگنل پر دو چار مرتبہ آن پہنچتے۔ لاہور کی سڑکیں گھوم گھما کر ہمیں پھر وہیں پر لے آتیں جہاں سے ہم ذرا دیر پہلے گزرے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت مجھے یہ مصرع معلوم نہیں تھا ''یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔ اس وقت یہ معلوم ہوتا تو سیف بھائی کی ڈانٹ ڈپٹ کے جواب میں سنایا جا سکتا تھا جو واپس اسی جگہ پر آنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دینے کے باعث میرا مقدر بنتی تھی کیونکہ پیچھے چپ چاپ بیٹھنے کے بجائے میں انہیں دائیں‘ بائیں مڑنے کے مشورے دے رہا ہوتا تھا۔ میرا قصور صرف چھوٹا بھائی ہونا تھا کیونکہ موٹر سائیکل کی ڈرائیونگ سیٹ کا تمام تر ''نشہ‘‘ وہ اکیلے ہی انجوائے کرتے تھے۔
دراصل گھوم پھر کر بار بار ایک ہی جگہ پر واپس آنے کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ ہمارا لاہور کے راستوں سے ناآشنا ہونا تھا اور ٹریفک کے چال چلن سے آگاہی بھی ذرا کم تھی یا سرے سے نہیں تھی۔ مگر زیادہ اہم وجہ ٹریفک سگنل پر کھڑے اس کانسٹیبل کا بے پناہ خوف تھا جس کے باعث ہم سنگل پر سے مطلوبہ سڑک کی طرف مڑنے کے بجائے جس طرف کی سبز بتی پہلے روشن ہو جاتی اسی طرف رواں دواں ہو جاتے۔ اس وقت سفید لباس میں ملبوس ان ٹریفک کانسٹیبلز کے پاس عقابی نگاہوں کے ساتھ علمِ نجوم کی بھی فراوانی تھی۔ ایک آدھ مرتبہ ہم نے ٹریفک سگنل پر رکنے کی غلطی کر لی اور سیف بھائی نے بڑی مہارت سے موٹر سائیکل کو کسی بس یا ٹرک کی اوٹ میں چھپا کر کھڑا کیا کہ اُس ٹریفک کانسٹیبل کی ''دور اندیشی‘‘ کا شکار نہ ہوں مگر ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ وہ اپنی دیگر تمام ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر ہماری طرف ایسے لپکا جیسے کوئی انتہائی کہنہ مشق کھوجی چوروں کے کُھرے تلاش کرتا ان تک پہنچ جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ اس نے آتے ہی ہماری ''نویں نکور‘‘ موٹر سائیکل کی چابی گھما کر اسے بند کیا اور سیف بھائی سے موٹر سائیکل کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس کا مطالبہ کیا۔ ہمیں ''سیانوں‘‘ نے مشورہ دیا تھا کہ نئے موٹر سائیکل کی ڈکیتی کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں لہٰذا اس کے کاغذات بالکل ساتھ نہیں رکھنے لہٰذا ہم نے اس مفید اور مفت مشورے کو پلے سے باندھ رکھا تھا۔
سیف بھائی نے جب اس کے سوالات کا جواب نفی میں دیا تو اس نے فوراً پچاس روپے جرمانے کا اعلان کر دیا جو سٹوڈنٹ لائف میں بہت بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔ جب ہم نے بیک زبان اتنی بھاری رقم کے بارے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ یہ کم بھی ہو سکتی ہے‘ آپ جلدی فیصلہ کریں۔ میں نے فوراً اس کا ارادہ بھانپ لیا اور مینٹل میتھ کے ذریعے چالیس فیصد رعایت کے حساب سے جیب سے 20 روپے نکالے اور سیف بھائی کے کان کے ساتھ منہ رکھ کر اپنے ارادوں کی منظوری لی، پھر میں نے اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور ساتھ ہی اس کی مٹھی بھی گرم کر دی۔ وہ ہنسی خوشی واپس مڑا اور اس کے بعد سیف بھائی نے موٹر سائیکل کو کک ماری اور برق رفتاری سے اپنی منزلِ مقصود کی پروا کیے بغیر اسی سڑک کی طرف مڑ گئے جس طرف کا اشارہ ہرا ہو چکا تھا۔
دوسری مرتبہ پھر ایک ٹریفک کانسٹیبل نے ہمیں سگنل پر اسی طرح گھیرا مگر مجھے پہلے والے 20 روپے کا مالی خسارہ ابھی تک نہیں بھولا تھا اور بعد میں اپنی فیاضی پر پچھتاوا بھی ہوا کہ وہ کام 10 روپے میں بھی ہو جانا تھا لہٰذا اس مرتبہ میں نے محض دس روپے اس کی مٹھی میں دیے اور اس نے مٹھی کھول کر دیکھنے کے بجائے ہاتھ سیدھا اپنی پینٹ کی جیب میں ڈال دیا جیسے پہلے والے صاحب نے کیا تھا۔
کالج سے واپسی پر میں نے سیف بھائی کو آئے روز کے ان جرمانوں کے باعث مالی خسارے کے بارے میں اپنی گہری تشویش سے آگاہ کیا کہ اس طرح اگر ہم ہر دوسرے روز ٹریفک کانسٹیبلز یا حولدار صاحبان کے ''جرمانے‘‘ بھرتے رہے تو شدید مالی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں اور زیرو میٹر موٹر سائیکل کی خوشی ایک باقاعدہ روگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ میں نے سیف صاحب کو ان دونوں واقعات میں ''جرمانہ‘‘ وصول کرنے والے ٹریفک حوالداروں کی نفسیات سے باخبر کیا کہ انہوں نے رقم وصول کرنے کے فوراً بعد ہاتھ اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لیا تھا تاکہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو سکے۔ لہٰذا میں نے سیف بھائی کے سامنے ایک شاندار آئیڈیا رکھا۔ میں نے کہا کہ آئندہ میں نے اپنی کاپی سے ایک ورق پھاڑ کر اس کے ٹکڑے اپنی جیب میں رکھ لیں گے اور بوقتِ ضرورت ٹریفک حوالدار کی مٹھی گرم کرنے کے لیے اسی ''جعلی کرنسی‘‘ کا سہارا لیں گے کیونکہ اس سارے عمل میں ان کی توجہ اپنی مٹھی کو کھولنے کے بجائے اسے بحفاظت اپنی جیب تک پہنچانے پر مرکوز ہوتی ہے اور وہ اپنی مٹھی کو پتلون کی جیب ہی میں کھولتے ہیں جہاں دیگر نذرانہ جات بھی نقدی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔
اگرچہ اس آئوٹ آف باکس آئیڈیا پر سیف بھائی نے شروع میں اپنے خدشات کا اظہار کیا مگر میری طرف سے بھرپور دلائل اور اس آئیڈیا کے معاشی فضائل کے سامنے وہ بے بس دکھائی دیے۔ اس کے بعد ہمیشہ حسبِ ضرورت وہی ''جعلی کرنسی‘‘ سے نہ صرف خود کام لیا بلکہ اس کی مسلسل کامیابی کے بعد میں نے کالج میں اپنے قریبی دوستوں سے بھی یہ آزمودہ آئیڈیا شیئر کیا جو ہماری طرح موٹر سائیکل مالکان تھے اور آئے روز ٹریفک پولیس کے ''جرمانے‘‘ ادا کر کے مالی خسارے کا شکار تھے۔ اپنے کامیاب تجربے کے بعد پھر ہمارے دوست اپنے قریبی دوستوں سے وہی آئیڈیا شیئر کرتے اور اس طرح تقریباً گورنمنٹ کالج لاہور کے ہر دوسرے موٹر سائیکل سوار کی جیب میں اصلی کرنسی کے چند محدود نوٹوں کے ساتھ کاغذ کے چند ٹکڑے ضرور پائے جاتے جس سے ٹریفک پولیس کے ''نقد جرمانے‘‘ ادا ہوتے تھے۔
اب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ کیا بھلا زمانہ تھا اور ہم ایسے سادہ مزاج دیہاتی فی سبیل اللہ اتنا منفرد اور شاندار بزنس آئیڈیا دوسروں کی ''بھلائی‘‘ کی خاطر بالکل مفت شیئر کرتے رہے۔ حالانکہ جس تیزی سے وہ ''آئیڈیا‘‘ کالج کے موٹر سائیکل سوار طلبہ میں مقبول ہوا‘ اگر ہم اسے ایک باقاعدہ فرنچائز کی شکل دے دیتے اور مناسب معاوضہ کی شرط بھی عائد کر دیتے تو ''جعلی کرنسی‘‘ کے اس ''کاروبار‘‘ کو وسیع بنیادوں پر فروغ دیا جا سکتا تھا۔ مگر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ کاغذ کے ٹکڑے کو کرنسی کے طور پر چلانے والے اُن طلبہ میں سے اکثر آج کل مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بڑا نام کما چکے ہیں اور وہ یقینا میرے احسان مند ہوں گے۔ اب گاہے یہ بھی سوچتا ہوں کہ کسی روز فوجداری کے ایک مستند وکیل سے دریافت کروں کہ اگر ہم اس وقت اس ''جعلی کرنسی‘‘ کے اس کاروبار میں پکڑے جاتے تو کیا ہمارے خلاف تعزیراتِ پاکستان کے تحت ''مقدمہ‘‘ درج ہو سکتا تھا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں