گزشتہ دنوں پنجاب پولیس کے ایک کانسٹیبل کی ایک وِڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے ایک یوٹیوبر اور کیمرہ مین کو غلیظ گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہا۔ موصوف نے سینئر پولیس افسران کو بھی نہیں بخشا اور انہیں بھی گالیاں دے کر سوشل میڈیا پر ''دھوم‘‘ مچا دی۔ اس طرح کی لغویات کو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنتے دیر نہیں لگتی اور چند لمحات میں یہ گھٹیا مواد سوشل میڈیا کے پروں پر اڑنے لگتا ہے۔ خیر و شر، سچ و جھوٹ اور حقیقت و فسانے میں یہی بنیادی فرق ہے۔ ہم بطور انسان سنسنی خیز خبروں، سازشی تھیوریوں اور من گھڑت افسانوں پر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ ان کی فتنہ انگیزی کے چسکے لیتے ہیں، دوسروں کی تضحیک اور تمسخر سے مزہ اٹھاتے ہیں اور محض سطحی اور عامیانہ رویوں کی فیس ویلیو پر اپنا حتمی فیصلہ صادر کرنے میں ذراسی بھی دیر نہیں لگاتے۔ دوسری طرف سچ کو اپنا آپ منوانے کے لیے ہزار جتن کرنا پڑتے ہیں۔ حقائق کو افواہوں سے الگ کرنے میں اور کسی بھی غیر معمولی واقعہ کی دھول بٹھانے میں زمانے لگ جاتے ہیں۔ کسی نے بالکل سچ کہا کہ سچائی کے جوتے پہننے سے پہلے جھوٹ اپنی منزل پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم صرف تصویر کے ایک رُخ کو ہی سچ ماننے پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ کسی بھی عجیب و غریب رویے کے اسباب و محرکات پر نہ تو غور کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی وجوہات، حالات اور کیفیات کو جاننے میں ہمیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے جو دراصل ایسی غیر معمولی صورتِ حال کاموجب بنتی ہیں۔ مذکورہ کانسٹیبل کے اس رویے اور غیر معمولی ذہنی کیفیت کے کئی محرکات ہیں جن کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
یہ آج سے دو دہائی قبل کی بات ہے۔ 2000ء کے اوائل میں پنجاب پولیس اور فرانس پولیس کے اشتراک سے لاہور کے ایک ہوٹل میں سہ روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع پنجاب پولیس کے طریقۂ تفتیش میں ٹارچر اور انسانی حقوق تھا۔ میں ان دنوں فیصل آباد پولیس میں بطور انسپکٹر تربیت کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ اس سیمینار میں شرکت کے لیے سرکلر میری نظروں سے گزرا تو میں نے بھی بطور سپیکر شرکت کے لیے آمادگی ظاہر کر دی۔ میرے سینئر افسران نے میری قوتِ گویائی اور خود اعتمادی کو سراہتے ہوئے میرا نام آئی جی آفس کو بھجوا دیا۔ سیمینار سے چند دن قبل جب اس میں شریک سپیکرز کی لسٹ جاری ہوئی تو اس میں غیر ملکی مندوبین، وفاقی اور صوبائی وزرائے قانون کے علاوہ پنجاب پولیس کے کئی اعلیٰ افسران بھی شامل تھے جبکہ انسپکٹر رینک میں واحد میرا نام مقررین میں شامل تھا۔ یہ امر میرے لیے ایک طرف باعثِ صد افتخار تھا کہ بین الاقوامی سطح کے اس سیمینار میں مجھے اتنے جونیئر لیول پر منتخب کیا گیا تو دوسری طرف یہ پریشانی کا سبب بھی تھا کیونکہ آئی جی صاحب اور دیگر سینئرز کی موجودگی میں 40منٹ کی تقریر میں کوالٹی اور معیار کے ساتھ ساتھ ایک ایک حرف کو ناپ تول کر بولنا تھا، اعداد و شمار کی صحت اور درستی کا یقینی بنانا انتہائی ضروری تھا۔ لہٰذا شروع میں مَیں خاصا نروس ہوا مگر پھر اسے اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔
سیمینار میں دیے گئے موضوعات اور شرکا کی تفصیلات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ تین روزہ سیمینار میں پنجاب پولیس کو جسمانی تشدد، تھرڈ ڈگری میتھڈ اور ٹارچر پر ہدفِ تنقید و تضحیک بنایا جائے گا اور انسانی حقوق کی مبینہ پامالی پر اُسے آڑے ہاتھوں لیا جائے گا۔ غیر ملکی مندوبین کو بہت سے زمینی حقائق، مقامی سماجی و ثقافتی اقدار اور پنجاب پولیس کے کلچر سے مکمل آگاہی نہیں تھی لہٰذا یقینی طور پر انہوں نے تصویر کا صرف وہی رخ دیکھنا اور دکھانا تھا جو پاکستان سے باہر بیٹھا کوئی بھی شخص دیکھ سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنی تقریر میں پنجاب پولیس کا مقدمہ لڑنے کے لیے پولیس کانسٹیبل کے انسانی حقوق کو اپنا موضوع بنایا اور اس کے لیے ٹھوس تحقیق پر مبنی شواہد اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا کام شروع کر دیا۔ آئی جی آفس پنجاب سے قیامِ پاکستان سے لے کر اس وقت تک ہونے والے تمام پولیس مقابلوں اور شہید افسران اور اہلکاروں کا ریکارڈ حاصل کیا، پولیس کالج سہالہ کی ٹریننگ اور سہولتوں کے فقدان، ناگفتہ بہ حالت کی وڈیو بنائی، گارڈن ٹائون میں ٹینٹ پر مشتمل پولیس سٹیشن کی وہ وڈیو حاصل کی جس میں بارش کے دوران ملازم پانی نکالتے نظر آرہے تھے۔ یتیم خانہ چوک میں بارش کے دوران گھٹنوں تک پانی میں ڈوبے ٹریفک ملازمین ڈیوٹی سرانجام دیتے نظر آئے تو ان کی بھی وڈیو حاصل کر کے اپنی تحقیق میں شامل کر لی۔ لگ بھگ دو ہفتوں کی شبانہ روز کاوشوں سے میں نے ناقابلِ تردید شواہد پر مبنی اپنی پریزنٹیشن تیار کر لی۔ اسے ڈیزائن اور ایڈیٹنگ کے مراحل سے گزارا، درجنوں مرتبہ اپنی تقریر کی ریہرسیل کی، اپنی باڈی لینگویج، روانی، تلفظ اور ادائیگی کو باریک بینی سے پرکھا اور مقررہ دن پر مذکورہ ہوٹل پہنچ گیا جہاں سہ روزہ سیمینار شروع ہو چکا تھا۔
توقعات کے عین مطابق غیر ملکی مقررین نے اپنی تقاریر میں پنجاب پولیس کے ٹارچر، سائنسی اور تکنیکی طریقہ کار کے عدم استعمال اور تفتیش میں جسمانی تشدد کے بے دریغ استعمال کو خوب اچھالا۔ رہی سہی کسر انسانی حقوق کے نامور علمبردار آئی اے رحمن مرحوم نے اپنی تقریر میں نکال دی۔ میڈیا نے بھی یہ سب خوب اچھالا۔ پنجاب پولیس کے سینئر افسران اپنی گفتگو میں زیادہ تر دفاعی پوزیشن پر نظر آئے۔ تین روز تک میں سب شرکا کی تقاریر سنتا رہا اور اس دوران اپنے دلائل کو مزید مضبوط بناتا رہا۔ بالآخر تیسرے روز کے آخری مقرر کے طور پر میری باری آ ئی۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ سٹیج پر غیر ملکی مندوبین، وفاقی اور صوبائی وزائے قانون اور اس وقت کے آئی جی پنجاب ملک آصف حیات بیٹھے تھے۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور پنجاب بھر سے ایس ایس پی صاحبان، اعلیٰ پولیس افسران اور میڈیا نمائندگان کی کثیر تعداد موجود تھی۔ میں نے اپنی تقریر کے آغاز میں گزشتہ تین روز سے پنجاب پولیس کو ہدفِ تنقید بنانے والے مقررین کو تصویر کا محض ایک رخ پیش کرنے پر اپنی طرف متوجہ کیا اور انہیں دوسرا رخ دکھانے کے لیے اپنی پریزنٹیشن کا آغاز پانچ منٹ کی ایک مختصر سی وڈیو سے کیا جس میں پولیس انتہائی کم وسائل کے ساتھ بے پناہ آبادی میں مسلسل بڑھتے جرائم کی بیخ کنی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مجرمان کے سامنے شب و روزسینہ سپر نظر آئی۔ ساتھ ہی گزشتہ پانچ دہائیوں میں ہزاروں شہدا کی قربانیوں کے اعداد و شمار پیش کیے۔ پولیس کانسٹیبل کی انتہائی محدود تنخواہ، چوبیس گھنٹے ایک ہی وردی میں نوکری اور قانون دشمن عناصر کی گولیوں کے سامنے بے سرو سامان لڑتے اور شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے دکھایا گیا تو وفاقی وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل سٹیج پر زار و قطار رونا شروع ہو گئیں۔ یہی حال کچھ غیر ملکی مندوبین کا بھی تھا۔ پریس گیلری میں بیٹھے صحافی حضرات نے تالیاں بجائیں تو آئی اے رحمن مرحوم نے اپنی سیٹ پر کھڑے ہو کر میرے مؤقف کی بھرپور تائید کی اور اعتراف کیا کہ کسی نے پہلی مرتبہ ایک پولیس کانسٹیبل کے انسانی حقو ق کا مقدمہ صحیح معنوں میں پیش کیا ہے اور کئی ایسے امور کی نشاندہی کی جو پہلے آنکھوں سے اوجھل تھے۔ میری تقریر ختم ہوئی تو آئی جی صاحب سمیت تمام اعلیٰ افسران نے مجھے گلے لگا لیا، ماتھا چوما، کندھے پر تھپکیاں دیں اور پنجاب پولیس بالخصوص ایک کانسٹیبل کی بے پناہ قربانیوں کا مقدمہ جاندار انداز میں لڑنے پر دل کھول کر داد و تحسین دی۔
قارئینِ کرام!مذکورہ کانسٹیبل تو محض ایک علامت ہے، ایک استعارہ ہے۔ اس کے استحصال، اُس کے ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی خلفشار کے اسباب و محرکات میں سینئر افسران کی ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اور سماجی رویوں کا بھی کردار ہے۔ ایک کانسٹیبل دن رات اپنی جان ہتھیلی پر دھرے ہوئے اپنے اہل و عیال سے میلوں دور‘ اس نوکری میں عزت کمانے کے بجائے ہمہ وقت تنقید و تضحیک کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔ میرا بنیادی سوال یہاں پر بھی وہی ہے جو اُس سیمینار میں تھا کہ کیا پولیس کانسٹیبل کو معاشرے میں ایک انسان سمجھا جاتا ہے؟ اور اگر وہ ایک انسان ہے تو کیا اُس کے کچھ بنیادی انسانی حقوق نہیں ہیں؟