کاپی رائٹس

آپ نے تقریباً ہر کتاب کے ابتدائی صفحہ پر ایک جملہ جلی حروف میں لکھا دیکھا ہو گا، ''جملہ حقوق بحقِ مصنف محفوظ ہیں‘‘۔ کہیں یہ حقوق بحق ِپبلشر محفوظ ہوتے ہیں اور کئی دفعہ صاحبِ کتاب اور ناشر‘ دونوں ان حقوق کے یکساں مالکان قرار پاتے ہیں۔ اس جملے کا مقصد دراصل کاپی رائٹس یا اس علمی اثاثے کا تحفظ ہوتا ہے جو اس کتاب کے لکھاری کی ذہنی تخلیق اور علمی عرق ریزی کے نتیجے میں لوحِ قرطاس پر آشکار ہوتا ہے۔ ان حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر متعدد قوانین بن چکے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک نے اس ضمن میں ضروری ضابطے اور قوانین وضع کر رکھے ہیں جن کے تحت کوئی بھی شخص کتاب کے مصنف یا پبلشر کی اجازت کے بغیر کتاب کا کوئی بھی حصہ کاپی یا جزوی یا کسی طور پر بھی شائع نہیں کر سکتا۔ اگر کسی تحقیقی یا علمی مقالہ میں اس کتاب کا مواد استعمال میں لانا مقصود ہو تو لازم ہے کہ صاحبِ کتاب کا نام دیگر دوسری ضروری معلومات کے ساتھ بطور ریفرنس درج کیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ کاپی رائٹس کی کھلم کھلا خلاف ورزی آئے روز دیکھنے کو ملتی رہتی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں درجنوں علمی شخصیات اور ان کے تحقیقی مقالوں میں استعمال ہونے والے چوری شدہ مواد کے حوالے سے خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ یہی حال دیگر علوم و فنون اور اصنافِ شعر و سخن میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت سے غیر معروف ادبی جریدوں میں شائع ہونے والی کہانیوں، غزلیات اور نظموں کو کئی خود ساختہ ادیب اور متشاعر خواتین و حضرات اپنے نام کے ساتھ شائع کرانے میں ذرا تامل یا شرم محسوس نہیں کرتے۔ بعض مستند آرا کے مطابق پاکستان کے نامور شاعر ساغر صدیقی کا بیشتر کلام ان کی وفات کے بعد کچھ ''ادبی سرقہ بازوں‘‘ نے اپنے نام کے ساتھ چھپوا کر خوب داد و تحسین سمیٹی۔ پچھلے دنوں فیس بک پر اسی حوالے سے ایک باقاعدہ دنگل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ایک صاحب نے کسی جانی پہچانی ادبی شخصیت کی وال سے مواد کاپی کر کے اپنی وال پر انتہائی پُراعتماد انداز سے پوسٹ کر کے بڑے جاندار الفاظ میں تعریفی کلمات وصول کیے حالانکہ موصوف کی علمی و ادبی حیثیت اس دیدہ زیب تحریر کے بالکل برعکس تھی۔ بات اتنی آگے بڑھ گئی کہ میرے ایک ہمدرد دوست نے اس معرکہ آرائی کی طرف مجھے متوجہ کیا اور مشورہ دیا کہ میں اپنی طرف سے ایک وضاحتی بیان جاری کر دوں کیونکہ چوری کرنے والے شخص کا نام میرے نام سے ملتا جلتا تھا۔ مگر اللہ بھلا کرے اس علمی شخصیت کا جسے میرے بارے میں کسی قسم کی کوئی بدگمانی نہیں تھی اور اس نے فوراً بڑے احترام سے میرے بارے میں اپنی رائے کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے مجھے ''دن دہاڑے رونما ہونے والی اس ڈکیتی‘‘ سے بری الذمہ قرار دے دیا جس پر میں نے نہایت ادب سے ان کا شکریہ ادا کیا۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ سوشل میڈیا پر کاپی رائٹس کی جس قدر تذلیل ہوتی ہے اور جس دیدہ دلیری اور سینہ زوری سے ہمارے کچھ احباب دوسروں کی وال سے تحقیقی و تخلیقی مواد کاپی کر کے اپنی وال پر پوسٹ کر دیتے ہیں اس پر اُن کی ''خود اعتمادی‘‘ قابلِ ستائش ہے۔
اب آپ ذرا اپنے زمانہ طالب علمی کے ابتدائی ایام کو چشمِ تصور میں تازہ کریں‘ آپ کو اچھی طرح یاد ہو گاکہ کون سا کلاس فیلو اپنے ایک ایک حرف پر کتنا پہرہ دیتا تھا اور اپنے کاپی رائٹس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔ مثلاً تختی لکھتے ہوئے اس کے اوپر پوری طرح جھک کر یہ بات خارج از امکان بنانا کہ کوئی چاہے بھی تو اس کی تحریر کی ہلکی سی جھلک بھی نہ دیکھ پائے ۔ بہت سے ہمارے دوست سکول میں کاپی پر کام اس لیے نہیں کرتے تھے کہ دوسرے دیکھ لیں گے۔ وہ ہمیشہ اپنے بستے کو مکمل طور پر باندھ کر رکھتے اور صرف حسبِ ضرورت کھول کر دوبارہ ایسے مضبوطی سے گانٹھیں لگاتے کہ پھر خود بھی دانتوں سے کھولتے نظر آتے۔ ان کی کتاب یا کاپی کو اگر کسی نے غلطی سے بھی ہاتھ لگا لیا ہوتا تو وہ فوراً استاد صاحب کے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتے۔ اسی طرح کالج میں پہنچ کر بھی کچھ احباب نہایت خاموشی اور خفیہ انداز میں پڑھائی کرتے۔ وہ سب سے اوجھل ہو کر نوٹس بناتے اور فائنل امتحان میں دوسروں کو ایک بڑا سرپرائز دینے کی جستجو میں مشغول نظر آتے۔ اکثر صاحبان اپنی کاپی کے ان اوراق کو سٹیپلر کی پن لگا کر رکھتے جن میں انہوں نے ''قیمتی نوٹس‘‘ بنائے ہوتے تھے۔ یہی حال ان کے ہاسٹل کے کمرے اور ان کی الماری کی تالا بندی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ایم اے انگلش کے دوران اور بعد میں سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کے لیے بلاناغہ قائداعظم لائبریری جانا شروع کیا تو کئی جانے پہچانے چہرے ایسے اجنبی نظروں سے دیکھتے کہ کہیں یہ کسی مضمون کے نوٹس ہی نہ مانگ لے۔ اگر کہیں آپ کا گزر ان کے کیبن یا کرسی کے پاس سے ہو جاتا تو وہ زیرِ مطالعہ کتاب یا نوٹس کے صفحات پر ایسے پھیل جاتے جیسے مرغی انڈوں کو اپنے پروں میں چھپا کر بیٹھتی ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایک کلاس فیلو میرے تمام نوٹس کو اپنی دیدہ زیب ہینڈ رائٹنگ میں ڈھال کر اپنی ذاتی جاگیر بنا لیتا تھا اور پھر بڑے فخر سے ایم اے انگلش کی کلاس فیلو لڑکیوں کی خدمت میں پیش کرتا رہتا جو اس کے علمی و ادبی شوق و ذوق کے ساتھ ساتھ اس کی فراخ دلی سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتیں۔ میں نے متعدد مرتبہ اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ خود محنت کیا کرے اور ان چوری شدہ نوٹس کی آڑ میں فلرٹ کرنا بند کرے کیونکہ وہی وقت ایک طالبعلم کے تعلیمی سفر میں کلیدی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، مگر اس نے میری ایک نہ سنی اور پھر وہ ماہ و سال کی گردش سے اٹھتی ہوئی دھول میں ایسے کھو گیا کہ آج تک کوشش کے باوجود میں اور میرے کئی کلاس فیلوز اسے تلاش نہیں کر پائے۔
علم کسی کی میراث ہے نہ اجارہ داری۔ یہ تو عطائے ربِ کریم ہے اور ایک فیضِ عام ہے، جسے پھیلانا ہے، فروغ دینا ہے، تقسیم کرنا ہے، ضرورت مند تک پہنچانا ہے اور چراغ سے چراغ جلانا ہے۔ بلاشبہ علم ایک لازوال دولت ہے مگر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ وہ واحد دولت ہے جو تقسیم ہونے سے کم نہیں ہوتی بلکہ کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جنہیں علم تقسیم کرنے کی توفیق نصیب ہو جائے وہ اس پاکیزہ عمل کی لذت سے بخوبی آگاہ ہو جاتے ہیں۔
قارئینِ کرام! کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال انگڑائیاں لینے لگتا ہے کہ ہم بطور انسان اپنے علمی، ادبی اور فنی فن پاروں کے متعلق اتنے حساس کیوں ہیں کہ ہم نے اس ضمن میں باقاعدہ قانون سازی کر رکھی ہے اور کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کو قابلِ تعزیر جرم بنا دیا ہے۔ کوئی ہماری بات، ایک جملہ یا مصرع ہماری اجازت کے بغیر کہیں لکھ ڈالے یا پڑھ دے تو وہ ہمیں انتہائی ناگوار کیوں گزرتا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں اپنی قابلیت، محنت اور ذہانت پر فخر ہوتا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری تخلیق کردہ شے صرف ہماری ہی شناخت رہے اور کوئی دوسرا اُسے اپنانے کی جسارت کرے تو وہ قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ مگر دوسری طرف ربِ دو جہاں کی شانِ کریمی دیکھیں کہ جس فنکارِ یکتا کا بے مثل شاہکار یہ عالمِ آب و گِل اور اس میں بسنے والی تمام مخلوقات ہیں‘ خود انسان اور جو کچھ اس کے فہم و ادراک کی دسترس میں ہے‘ سب اُس خالقِ کائنات کی قدرتِ کاملہ کی ملکیت ہے اور زمین و آسمان کی وسعتوں میں پھیلی تمام رعنائیوں کے کاپی رائٹس صرف اسی کے ہیں مگر ہم ہیں کہ بات بات پر ہر ایک کامیابی کو اپنی ذاتی محنت، فطری صلاحیت اور خاندانی ذہانت کا ثمر قرار دینے پر تلے رہتے ہیں اور اُس کامل مصنف کا حوالہ تک دینا پسند نہیں کرتے جس کے نام اس کائنات کے جملہ حقوق تا ابد کلی طور پر محفوظ ہیں۔ پھر بھی اس کی بے نیازی دیکھیں کہ اپنے کاپی رائٹس کی سر عام خلاف ورزیوں کے باوجود اس نے انسانوں پر اپنی عطا کے دروازے کبھی بند نہیں کیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں