"SBA" (space) message & send to 7575

دور دیس کا پاکستان…(2)

چیکو بھائی یورپ کے پاکستانیوں میںسب سے منفرد کردار ہے ۔ہمارے دوست سینیٹر انور بیگ کی طرح شاہانہ لباس۔غالباََ واحد پاکستانی جو یورپی اشرافیہ سے لے کر عام کا رکُن پاکستانیوں میں گُھل مِل جانے کی خُدا داد صلاحیت سے مالا مال ہے۔
لندن کی تیسری صبح چیکو بھائی کا فون آیا ''سلائو‘‘ کے دوست آپ سے مِلنا چاہتے ہیں۔لندن سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع سلائو باغوں اور پارکس کا قصبہ کہلاتا ہے۔ایسے ہی ایک پارک کی چوٹی پر 18ویں صدی کے کسی ڈیوک(نواب صاحب) کے گھر تک لے جایا گیا۔داخلے کی سیڑھیاں آنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔اس محل سرا میں داخلے کے لیے3 طرف سے ٹیرس بنا کر خوبصورت عجوبہ طرزِتعمیر سے نوازا گیا ہے۔ہر سیڑھی کا زینہ پتھر کی ڈیڑھ ،دوفٹ چوڑی اور تقریباََ گیارہ فُٹ لمبی ہاتھ سے تراشی سِل سے بنا ہے ۔ یہاں کشمیری کھانوں کا مرکز ہے۔سلائو میں خالص مردانہ نشست تھی۔تارکینِ وطن ہم وطنوں نے اپنے دل کی حکائت ایسے بیان کی جیسے اولڈھیم والے بولے تھے۔غیر ممالک میں واقع ہمارے سفارت خانے اپنے ہم وطنوں کو غیر ملکی جان کر دل اور دفتر کے دروازے اُن کے لیے نہیں کھولتے۔سلائو سے واپسی کا سفر ''پیڈنگٹن ‘‘کے راستے ہوا۔یہاں کوئین مری ہسپتال واقع ہے۔جس میں لا کھوں ،کروڑوں لوگوں کو شفا دینے والی پینسلین ایجاد ہوئی تھی۔دوستوں سے فراغت پا کر فیملی کے ہمراہ آکسفورڈ سٹریٹ کے لیے بلیک کیب پکڑی۔عبداللہ عبدالرحمن اور میرے درمیان عربی لغت پر گفتگو چل نکلی۔جس میں بحیرہ عرب کے اندر عربی کے مختلف لہجوں کا ذکر آیا۔ری لیکسڈ ماحول میں میری آواز کافی اونچی ہوگئی۔میں کہہ رہا تھا کہ امارات قطر،کویت میں لفظ اکبر کو اچبر بولا جاتا ہے۔عبدالرحمن کی'' حسِ مزاح‘‘ پھڑکی۔کہنے لگا آپ کو ڈکٹیٹر فلم یاد ہے۔لیبیا کے شہید رہنما کرنل قذافی کے طرزِ حکمرانی پر مبنی ہالی وُڈ کی یہ مزاحیہ فلم دیکھنے کے قابِل ہے ۔پھر عبدالرحمن نے کہا اب بہتر یہی ہے کہ ہم بحث عربی میں کرنا بند کر دیں ۔یہ نہ ہو'' گورا ڈرائیور‘‘ ٹیکسی کھڑی کر کے چھلانگ لگادے ۔ڈکٹیٹر فلم میں یہ سین نیو یارک کے اوپر اُڑتے ہوئے ہیلی کاپٹرمیں فلمایاگیا۔اس سین کو میں سینسر کرتا ہوں ۔البتہ اس بارے میں پچھلی عید کے دن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا لطیفہ سُن لیجئے۔جس کا عنوان ہے۔عیدالفطر کے موقع پر حفاظتی ہدایات۔''اگر عیدگاہ میں مولوی کے علاوہ کوئی اور شخص اونچی آواز سے نعرہ لگائے تو فوراََزمین پر لیٹ جائیں‘‘۔ 
حال ہی میں بر طانیہ کے دارالحکومت لندن میں ایک اور فیصلہ ہوا۔جس کا تقابل آپ اپنی اِسلامی جمہوری حکومت کے فیصلے کے ساتھ کر سکتے ہیں۔برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی پارلیمنٹ'' دارالعوام ‘‘والے سکوائر میں بر طانیہ کی آنجہانی وزیراعظم مار گریٹ تھیچر کا مُجسمہ لگائیں گے۔یہ بر طانیہ کی پہلی خاتون وزیر ِاعظم تھیں،جس نے آئی آر اے کی دہشت گردی کے خلاف سخت مزاحمتی جنگ لڑی ۔ایک دفعہ لندن کے ایک ہوٹل میں جہاں مار گریٹ تھیچر بطور وزیرِاعظم ایک بڑی تقریب میں شریک تھیں،ان سے چند گز کے فاصلے پر آئرِش ریپبلکن آرمی نے بم دھماکہ کیا، لیکن ہوٹل کی ایک دیوار نے برطانیہ کی آئرن لیڈی کو شعلوں کی نذر ہونے سے بچا لیا۔مار گریٹ تھیچر حوصلہ مند خاتون رہنما تھیں۔جن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُن کا مجسمہ نصب کرنے کا فیصلہ ہوا۔برطانیہ کی بیورو کریسی نے اس فیصلے کی مخالفت میں بڑی دور کی کوڑی ڈھونڈ نِکالی۔جس کی بنیاد ایک سروے کو بنایا گیا۔جس میں لکھا تھا پچھلے 30 سالوں میں برطانیہ کی پارلیمنٹ کے باہر اتنے مظاہرے اور دھرنے نہیں ہوئے جتنے گزشتہ 10سالوں میںمنعقد ہوئے۔جس کے جواب میں برطانوی قیادت نے کہا مظاہرے یا دھرنے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔متعلقہ ادارے ان سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کریں۔دوسری جانب ہماری پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک میں پریڈ گرائونڈ ہوتا تھا۔ جس میں دونوں طرف رنگ برنگے پھول عشروں تک نظر آئے۔گلو راج کے خلاف دھرنے کیا ہوئے ۔ پہلے ان پھولوں کی کیاریاں مسمار ہوئیں پھر روشوں سے اینٹیں اُکھاڑ لی گئیں۔آج اسلام آباد کے شہری جناح ایونیو سے جھانک کر دیکھیں تب بھی اُنھیں نہ پھول ملیں گے نہ ہی پارلیمنٹ ہائوس کاویونظر آئے گا۔جہاں مفت کے پکڑے ہوئے کنٹینر کرایہ ادا کیے بغیر ساڑھے چار سال سے کھڑے ہیں۔نہ ہو گا گرائونڈنہ ہو گا دھرنا یہ ہے برطانوی شہزادی اور لاہوری شہزادوںکی جمہوریت کا فرق۔
میری سالانہ چھٹیوں کے ساتھ بھی پاناما ہو گیا۔پہلے برادرم جہانگیر ترین پھر محترم عمران خان نے چھٹیاں فوراََ منسوخ کرنے پر اصرارکیا۔ یہ سطریں میں گاڑی میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ۔لندن سے برمنگھم جاتے ہوئے۔جہاں ایک بڑا اجتماع میرے انتظارمیں ہے۔اور میں صبح سویرے کی فلائٹ کنفرم کرنے کے انتظار میں، تاکہ ارضِ وطن کو واپس لوٹ سکوں۔اس انتظار کے دوران دُکھی کر دینے والا ایسا منظر مجھے نظر آیا جو میں آپ سے شئیر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ جرمنی کا شہر '' ہیمبرگ‘‘ ہے جہاںG-20 سمِٹ ہو رہی ہے ۔عالمی ٹریڈ اور گلوبل ماحولیات دنیا کے بڑے لیڈروں کے اجتما ع کا بنیادی ایجنڈا ہے ۔ میں نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر ڈھونڈا لیکن اپنے ملک کا عظیم اَ بّا المعروف وزیر اعظم کہیں دکھائی نہ دیا ۔لیکن اس گریٹ وزیر اعظم کا گریٹ یار نریندر مودی '' بتیسی‘‘ پھیلائے ہر طرف داد طلب نظروں سے ہاتھ مِلانے کے لیے بھاگتے، دوڑتے دِکھائی دیا۔دنیا کی 9ایٹمی طاقتوں میں سے ایک۔عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت۔دنیا کے بلیسٹک میزائل رکھنے والے 8 مُلکوں میں سے ایک۔سیٹو،سینٹو،نیٹو کا رُکن اتحادی مُلک ساڑھے چار سالوں میں سارے اتحادیوں نے بھلا دیا۔اس پر قوم سر پیٹے یا روئے حکمران ''اللہ کے فضل و کرم ‘‘کو سنبھالنے لگے ہوئے ہیں۔بیٹی ابّا کو بچا رہی ہے۔ابّا بیٹوں کو ۔ بیٹے چاچے کو اور چاچا بھاء جی کو۔
دنیا کے لیڈروں کی نظریں عالمی ٹریڈ پرہیں۔ہمارے حکمرانوں کی نظر صرف خاندانی کاروبار پر۔دنیا کے لیڈر گلوبل گرمی(وارمنگ)کو روکنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ہمارے لیڈر اپنی پاکٹ کومزید گرم کرنے کے طریقے دریافت کر رہے ہیں۔پاکستانی دیس میں ہویا پردیس میںغمگین ہے بلکہ موجودہ منظر نامے میں پریشان بھی۔دیس پردیس کے پاکستانی غم کی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔
غم کی فصلیں ہم نے کاٹیں،بونے والے اور تھے
نیند تو اپنی تھی لیکن، سونے والے اور تھے
(ختم) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں