آج کل پاکستان میں لندن کی سب سے بڑی وجہ شہرت کرپشن کے محلات ہیں۔ دوسری وجہ شہرت کو لندن پلان کہا جاتا ہے۔ یہ تو لندن پر پاکستانی تبصر ہ سمجھ لیں ۔ لیکن باقی دنیا ،لندن کو کیپیٹل آف نیشنز کہتی ہے۔
لندن میں وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو باقی دنیا میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ہائیڈ پارک کے شائوٹنگ کارنر میں کوئین آف انگلینڈ کے علاوہ ہر کسی کے خلاف تقریر ہوسکتی ہے۔ عرب بادشاہوں سے لیکر لاطینی امریکہ کے ڈکٹیٹروں تک ۔ برطانیہ کے حکمران ہوں یا امریکہ کا صدر کسی کو رعایت ہے نہ استثناء ۔
لندن کے حالیہ دورے کے دوران بہت سے دلچسپ تجربات ہوئے ۔ ان حیرت کدوں کا آغازگروسذر ہوٹل میں قیام سے شروع ہوا۔ 1925 ء میں یہ پنج ستارہ ہوٹل تعمیر ہوا تھا۔ جس کا سارا فرنیچر، کرسیاں، پینٹنگ وغیرہ اسی دور کی ہیں۔ ہوٹل کی لفٹ شروع میں رسے سے چلتی تھی آپریٹر رسہ کھینچ کر مہمانوں کو اوپر نیچے کرتا ۔ یہ رسہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن اب لفٹ آٹومیٹک ہوگئی ہے ۔ لفٹ کے باہر فلورز ظاہر کرنے کے لئے گھڑی کی بڑی بڑی سوئیاں لگی ہیں۔ یہاں آنے والے اکثر مہمان اپنے دادا یا نانا کی تصویریں ساتھ لاتے ہیں۔ پھر جہاں ان کے بزرگوں نے کھڑے ہوکر فوٹو بنوایا تھا اسی جگہ کھڑے ہوکر خاندانی تاریخ کو دہراتے ہیں۔ یہ تاریخی عمارت دنیا کی بہت ساری ممتاز شخصیات اور حکمرانوں کی میزبانی کرنے کا شرف رکھتی ہے ۔
پارک لین میں اس عمارت سے چند سو گز آگے مے فیئر پارک لین کے پاناما برانڈ فلیٹس واقع ہیں۔ اسی ہوٹل کی ایک سیڑھی انٹری گیٹ کے دائیں کونے سے اوپر کے فلورز کو جاتی ہے۔ جس کے باہر 10انچ کا بورڈ آویزاں ہے جس پر لکھا ہے۔ ــ''جمیرہ ہائٹس‘‘۔ یہی وہ لگژری ورلڈ ہے جس میں پاکستان کے 4سابق وزرائے اعظم ۔ 3سابق صدر ، درجنوں کاروباری، درباری، اور سرکاری پیشہ ور فنکاروں کے گھر ہیں۔ میں نے چونکہ کئی فلیٹس دیکھ رکھے ہیں۔ اسی لئے ان کو فلیٹ نہیں محل سراکہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ لندن کے موجودہ ٹوئورکی سب سے بڑی مصروفیت انیل چوہدری کی صاحبزادی کی شادی تھی۔ تین ہفتے پہلے ہمارے دوست انیل چوہدری کی ہمشیرہ انیلہ صاحبہ کی بیٹی کی شادی میں بھی شرکت کی ۔ لیکن موجودہ شادی کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ملین پائونڈ میرج بنا دیا۔اگلے روز کسی نے لندن سے فیشن کے دوبڑے رسالوں کے کلپ بھجوائے جن میں میری تصویر چھپی تھی۔ پاکستان، بھارت، امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں اس شادی کی خاص کوریج ہوئی۔ تبصرہ نگاروں نے شادی کو بارہ مصالحے لگا کر بڑی لذیز گفتگوئیں کیں۔ اکثر جگہ عمران خان اور مجھے فوکس اور ٹارگٹ بنایا گیا۔ اس شادی کا دعوت نامہ حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے نامور لوگوں نے بہت پاپڑ بیلے۔ اسی لیے کچھ تبصروں میں غصہ اور ناراضی صاف جھلکتی نظر آئی ۔ بہرحال یہ ایک بیٹی کی رخصتی تھی۔ بیٹی غریب کی ہو یا امیر کی ۔ اس کی رخصتی کا لمحہ ماں باپ کے لئے کیا ہوتا ہے۔ یہ صرف وہ ہی جان سکتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بیٹی کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اور جن خوش بخت والدین نے بیٹی کو پوری عزت کے ساتھ پالا پوسہ ،تعلیم کے زیور کے ساتھ آراستہ کیا اوراپنی زندگی میں اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ اس شادی کی چار روزہ تقریبات کے تیسرے دن سمندر پار پاکستانیوں نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے دوبڑے احتجاجی مظاہرے کئے۔ ایک صبح کے وقت لندن میں برما کی ایمبیسی کے باہر ۔ جبکہ دوسرا اُسی سہ پہر 10ڈائوننگ سٹریٹ میں انگلش پی ،ایم تھریسا مے کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر ۔ دکھی لہجے والے ہزاروں احتجاجی مسلمان مظاہروں میں شریک ہوئے۔ جو پورے یوکے سے کوچز ، گاڑیوں اور ٹرینوں کے ذریعے کیپیٹل آف نیشنز پہنچے ۔ ایک کونے میں احتجاجی کتبہ پکڑ کر میں نے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ مظلوم ، برما کے روہنگیا مسلمانوں کے لئے چھوٹا لفظ ہے۔ اگلے روز بی بی سی کے ایک چینل نے ان مسلمانوں کے ایک بحری بجرے کی ڈاکومنٹری چلائی ۔ اس بڑی کشتی میں کٹے پھٹے اعضاء کے ساتھ مریل جسموں والے سینکڑوں بچے اور جوان عورتیں سوار تھیں۔ ظلم کے طوفان میں گھری ہوئی یہ کشتی پہلے برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش گئی۔ اس اسلامی سلطنت میں نہ ہی کسی زخمی کو پانی پلایا گیا نہ ہی کسی بے آسرا کو اپنی سرزمین پر اترنے دیا گیا ۔ بی بی سی کی خاتون نمائندہ نے بتایا کہ یہ کشتی تھائی لینڈ سمیت کئی جگہ رکی ۔ مگر انسانی حقوق کی چیمپیئن صدی میں سکھی انسانوں نے دکھی انسانوں کی دستگیری کرنے سے صاف انکار کردیا۔
دنیا کے جمہوری چیمپیئن لیڈر اور ملک لاکھوں لوگوں کی چیخیں سننے سے انکاری ہیں ۔ ان کے نزدیک بھورے گندمی رنگ کے روہنگیا مسلمان ، ان کی جان ، گھر یا آبرو، اس قابل نہیں کہ اس پہ احتجاج کیا جائے۔ کینیڈا سمیت مغرب کی چند حکومتوں نے عالمی اداروں کو شرم دلانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ شرم دلانے سے مجھے ہوٹل کے باتھ روم کی کہانی یاد آئی۔ جس کے فلش سسٹم نے کام کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ 3/4دفعہ کال کرنے کے باوجود کوئی نہ آیا تو میں فرنٹ ڈیسک جا پہنچا ۔ خاتون نے سلیقے سے انگریزی میں پوچھا آپ کی کیا خدمت کروں ۔ عرض کیا ڈیوٹی منیجر سے ملوائیں۔ ڈیوٹی منیجر باہر آئی ، کہا ۔ کوئی خدمت ۔میں نے انگریزی میں جواب دیا۔ ـ"Make me a plumber"وہ حیران ہوئی ،پوچھنے لگی "Why Sir" کہا صبح سے کمپلینٹ کی کوئی نہ آیا ۔ سوچا "Let me learn an other skill"اردگرد کھڑے مہمانوں نے قہقہے لگانا شروع کردیئے ۔ پھر لابی متوجہ ہوگئی۔ سب نے ایک دوسرے کو ڈائیلاگ سنائے اور لطف اُٹھایا۔ ڈیوٹی منیجر معذرت کرنے لگی ۔ عرض کیا خود انحصاری کی خواہش پر معذرت کیسی...؟
لندن کی اصل پہچان یہی ہے ۔ بڑے بڑے لوگ گندی پلیٹ ، میلی شرٹ اور بدبودار جراب دھونے میں عار نہیں سمجھتے۔ اس لئے دنیا بھر میں یونین جیک کی حکمرانی کا پھریرا لہراتا رہا۔
سینئر سیٹزن زیر زمین ٹرین پر چڑھ آئے تو کئی نوجوان اسے سیٹ آفر کرتے ہیں۔ صبر کا مظاہرہ قطار بنانے کی روایت سے جڑا ہے۔ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے ۔ بے صبری کا یہی حال رہا تو پُلِ صراط پر کیا کیا منظر ہوں گے۔
پاکستانیوں نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے دوبڑے احتجاجی مظاہرے کئے۔ ایک صبح کے وقت لندن میں برما کی ایمبیسی کے باہر ۔ جبکہ دوسرا اُسی سہ پہر 10ڈائوننگ سٹریٹ میں انگلش پی ،ایم تھریسا مے کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر ۔ دکھی لہجے والے ہزاروں احتجاجی مسلمان مظاہروں میں شریک ہوئے۔ جو پورے یوکے سے کوچز ، گاڑیوں اور ٹرینوں کے ذریعے کیپیٹل آف نیشنز پہنچے ۔