مجھے نہیں معلوم، تھوتھا چنا باجے گھنا کیوں کہا جاتا ہے‘ بلکہ یہ بھی کہ لوہے کا چنا کہاں بنتا ہے۔
لیکن یہ معلوم ہے کہ چنا پلیٹ میں بکتا ہے۔ ہر چنے کی قیمت اپنی اپنی لگتی ہے جبکہ چنا رنگ بدلنے میں گرگٹ سے بھی آگے ہے۔ جسے شک ہو چنا آلو چھولے سمیت دیکھ لے۔ کیچڑ میں لت پت لاہور کے المشہور چکڑ چھولے، لڈو، پکوڑے، دہی پُھلکی، چنا چاٹ، مِسی روٹی۔ یہ سب چنے کے رُوپ ہیں۔ لیکن لوہے کے چنے غالباً لوہار کی بھٹی میں پکائے جاتے ہیں۔ پانامہ کیس کے آنے تک نہ تو قوم نے کوئی لوہے کا چنا دیکھا تھا‘ نہ ہی کبھی ٹھیلے والے سے یہ کہا ہو گا مجھے چُلّو بھر لوہے کے چنے دے دو۔
موسم بدلا رُت گدرائی‘ اہلِ جنون بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
...اتنے گریبان چاک ہوئے کہ بے چارہ ایک اور محاورہ بھی رگڑا کھا گیا۔ وہی اُردوئے محلہ والا محاورہ جو ہر روز ہر گلی میں سننے کو ملتا تھا‘ چنا جور گرم والا۔ اب دیکھیں تو ہر طرف جور کی بجائے چور گرم بلکہ چور گرما گرم سنائی دے رہا ہے۔
کیا کوئی اشرف المخلوقات اپنے آپ کو کباڑ کے لوہے کا چنا کہہ سکتا ہے۔ لوہے کا چنا‘ کسی لوہار کی بھٹی کی تخلیق۔ دوسری جانب مالکِ ارض و سما کی احسنِ تقویم (Best of the best composition)‘ آگے چلئے، اس کا فیصلہ رہنے دیتے ہیں۔ پنجابی شاعری کے دلدادہ کئی خواتین و حضرات نے اشرف المخلوقات سے لُڑھک کر اسفل السافلین لوہے کے چنے تک پہنچنے والے گروہ کو ہمارے پیارے اور کروڑوں میں ایک پروفیسر انور مسعود کی نظر سے دیکھا‘ جس کی بڑی وجہ شاید انور مسعود صاحب کی یہ سُپر ہِٹ پنجابی نظم ہے: ''اَج کی پکائیے‘‘۔ اس شاہکار منظوم مکالمہ کا خاتمہ بالخیر بھی ''چنے‘‘ پر ہی ہوتا ہے یعنی ''چھولیاں دی دال‘‘۔
20 کروڑ لوگوں میں سے چُنے چنائے، چُلّو بھر لوہے کے چنے ان دنوں 3 حصوں میں تقسیم ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے چنے سے بننے والے کھابے۔ کھا، پی کے بھاگے ہوئے چنے کہتے ہیں: پاکستان کا قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتا۔ کھانے سے پہلے یہ پکے پنجابی چِکڑ چھولے ہونے کے دعوے دار تھے۔ کھا، پی کر یہ انگریزی چنوں کی فخریہ پیش کش بن گئے ہیں۔ انگریزی سے یاد آیا اللہ کے فضل و کرم سے نااہل وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادے ان دنوں انگریزی میں بھی انٹرویو دینے کے لیے تیار نہیں‘ حالانکہ پورا ملک دونوں کے انٹرویو سننے کے لیے بے تاب ہے۔ چُلّو بھر لوہے کے چنوں کی دوسری قسم ''ہاضم‘‘ چنے ہیں‘ جو کھایا پیا ہضم کرنے کے لیے سیاست کی بجائے مذہب پر طبع آزمائی میں مصروف ہیں۔ ان کے مفتا مفتی والے مشورے اور بیانات اتنے شاندار ہیں کہ ان کی باقی عمر چار دیواری کے اندر ہی گزر سکتی ہے۔ باہر نکل کر ایسا خطاب نہ فرمایا جا سکتا ہے‘ نہ ہی آزمایا۔
چُلو بھر لوہے کے چنوں میں سے خارجی چنا امریکہ جا پہنچا۔ بولا: ہم امریکہ کے ساتھ مل کر مشترکہ فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا جواب آئی ایس پی آر نے یوں دیا ''پاکستان کی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوج کے ساتھ مل کر آپریشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ دکھی سپاہی نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا: ''فُل سٹاپ‘‘۔ ہاضم داخلی چنا جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں ایک سپاہی کے متھے جا لگا۔ سپاہی نے ہاضم داخلی چنے کو خالص سپاہیانہ جواب دیا۔ اپنی فوج کے لیے بولا: ایسا بیان دشمن دیتے ہیں۔ دکھی سپاہی نے کہا: میرے الفاظ پاک فوج کی نمائندگی کرتے ہیں۔
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے‘ چُلو بھر چنے دوست کس کے ہیں اور دشمن کس کے۔ بات سیدھی ہے‘ یہ پیٹ کے دوست ہیں۔ ہر اس شخص کے دشمن جو ان کے مفادات کے پیٹ پر لات دے مارے۔ چُلو بھر لوہے کے چنے اور لیڈر میں کیا فرق ہوتا ہے‘ سنیے‘ سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما کی زبانی۔ سُپر پاور کا صدر اپنے الوداعی خطاب میں قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہے‘ ''میں آپ کے ساتھ دیانت داری سے بات کر رہا ہوں۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میں اپنی دوسری ٹرم میں ہوں۔ یہ میرے لیے ایک بہت فخر بات تھی کہ میں نے اپنی ڈیوٹی انجام دی بطورِ امریکہ کے صدر۔ میں اس سے زیادہ دلچسپ اور وقار والی نوکری کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔ مجھے اپنے کام سے پیار ہے‘ لیکن ہمارے constitution کے مطابق میں دوبارہ صدر نہیں بن سکتا۔ میں سمجھتا ہوں میں ایک بہت اچھا صدر تھا اور مجھے لگتا ہے کہ اگر میں دوبارہ صدر کا الیکشن لڑتا ہوں تو جیت جائوںگا لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں جس سے امریکہ آگے چلتا رہے‘ لیکن قانون، قانون ہے‘ اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں‘ خواہ وہ صدر ہی کیوں نہ ہو۔ اور میں آپ کے ساتھ دیانت داری والی بات کرتا ہوں۔ میں اس زندگی کا مثبت طریقے سے انتظار کر رہا ہوں جب میں صدر نہیں رہوں گا۔ میرے پاس ہر وقت ایک بڑی سکیورٹی پروٹوکول نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب ہے میں سکون سے واک پر جا سکتا ہوں۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار سکتا ہوں۔ میں امریکہ کی خدمت کرنے کے لیے دوسرے طریقے ڈھونڈ سکتا ہوں۔ میں افریقہ زیادہ مرتبہ جا سکتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی لوگ اتنی دیر اقتدار میں کیوں گزارنا چاہتے ہیں‘ خاص طور پر جب ان کے پاس بہت پیسے ہوں۔ جب ایک لیڈر قوانین بدلتا ہے گیم کے دوران میں‘ صرف اس لیے کہ وہ اقتدار میں رہ سکے، اس سے گہماگہمی اور ملکی حالات خراب ہوتے ہیں اور مشکلات پیدا ہوتیں ہیں‘ جیسے کہ ہم نے بُرونڈی میں دیکھا۔ تباہی کے راستے میں یہ اکثر پہلا قدم ہوتا ہے۔ اکثر آپ نے سنا ہو گا کہ لیڈر کہتے ہیں‘ صرف میں ہی اس ملک کو بچا سکتا ہوں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو اس لیڈر نے اپنے ملک کو بہتر نہیں کیا‘ اور نہ ہی اس پر کوئی محنت کی ہے۔ آپ نیلسن مینڈلا، جارج واشنگٹن کی مثالیں دیکھیں‘ جنہوں نے ایک لیگیسی (legacy) چھوڑی‘ صرف اپنے زبردست اقتدار کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ انہوں سے وقت پر دفتر چھوڑا اور طاقت کو امن سے ٹرانسفر کیا۔ جیسے افریقن یونین نے غیر قانونی اور زبردستی ٹرانسفر آف پاور کی مذمت کی۔ افریقن یونین کی مضبوط آواز اور پکار افریقہ کے لوگوں کی مدد کر سکتی ہے۔ مدد اس طرح ہو سکتی ہے کہ افریقن یونین اینشور کرے کہ ہر ملک کا لیڈر اقتدار کا وقت ختم ہونے پر کُرسی چھوڑ دے‘ اور قانون کی بالا دستی اور قدر کا احترام ہو۔ کسی کو بھی زندگی بھر کے لیے صدر نہیں ہونا چاہئے۔ اور یقین مانیے کہ آپ کا ملک بہت ترقی کرے گا‘ اگر نیا خون آئے اور نئے خیالات ہوں۔ میں ابھی بھی اپنے آپ کو ایک جوان آدمی تصور کرتا ہوں‘ لیکن مجھے اس بات کا علم اور شعور ہے کہ ایک شخص جو نئی توانائی اور خیالات کے ساتھ آئے گا، وہ میرے ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ آپ لوگوں کے لیے بھی بہت اچھا ہو گا۔‘‘
میں اس وقت کراچی کمپنی کے ایک ٹھیلے پر کھڑا ہوں۔ میرے سامنے کئی رنگ کے چنے پڑے ہیں۔ میں نے نوجوان پشتون سے پوچھا: تمہارے پاس لوہے کے چنے ہیں۔ اس نے جواب دیا: خدا کا خوف کریں جی۔ لوہے کا چنا تو 12 بور بندوق میں پڑتا ہے۔ کارتوس پھاڑ کر دیکھ لیں۔ اس میں لوہے کے چُلو بھر چنے بارود کے دامن میں پڑے ملتے ہیں۔ خدا نہ کرے یہ چُلو بھر لوہے کا چنا دشمن کے ہاتھ میں آ جاوے۔ پھر خود کلامی کے انداز میں کہنے لگا: ہم تو دشمن دار لوگ ہیں جی۔ اللہ تعالی اس ملک کو وطن کے اداروں کے خلاف بارود کے زبان بولنے والے چُلو بھر لوہے کے چنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ میں نے کہا: آمین۔ خان چھاتی تان کر بولا: ثم آمین۔