دنیا کی پہلی فلاحی ریاست شہرِ رسولؐ میں قائم ہوئی۔ اُس کی بنیاد بھی سوشل کنٹریکٹ پر رکھی گئی۔
تاریخِ انسانیت اسے میثاقِ مدینہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ میثاق دو مُتحارب گروہوں کے درمیان نہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل دو نظریات کے درمیان قیامِ ریاست کا معاہدہ ہے۔ حسرت اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ریاست کے قانون اور ضابطیِ مغربی دنیا نے اپنے شہریوں کے لیے پسند کئے‘ لیکن مسلم دنیا کے 174 کروڑ لوگوں کے کرپٹ حکمران اِس نظام سے خوفزدہ ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے، یہ آٹو کرپٹ اپنے کرتُوتوں‘ بے لاگ قانون اور انصاف سے ڈرتے ہیں۔ اسی لیے یہ محتسب سے زیادہ درباریوں پر انحصار کرتے ہیں۔ آج بھی اپنے اِرد گرِد نظر دوڑائیں تو یہ درباری سوشل میڈیا، ٹویٹر، فیس بُک، پرنٹ میڈیا کے صفحات، الیکٹرانک میڈیا اور متبادل میڈیا کی سکرینوں پر ریاست کے خلاف راگ درباری الاپتے مل جاتے ہیں۔ کچھ درباری گویّے چھوٹی موٹی نوکری، پرمٹ، ویزے اور عہدے پر گزر اوقات کر لیتے ہیں۔ لیکن سرگوشیوں والے ''اِن ڈور درباری‘‘ کمپنیاں، ٹھیکے، ہائوسنگ پروجیکٹس بلکہ بجلی گھر کے پروجیکٹس لگانے سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ تازہ اطلاع ہے کہ راج دربار کے سب سے بڑے کلاکار کا نام احتساب کے اداروں کے کانوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔
ہر ریاست کو چلانے کے لیے دو بنیادی ستون درکار ہوتے ہیں۔ پہلا بنیادی ڈھانچہ (BASIC STRUCTURE)اور دوسرا اس بنیادی ڈھانچے کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے اختیارات کی تقسیم۔ فی زمانہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ستون آئینی تحفظ اور دستوری گارنٹی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے ہر دستور کو سوشل کنٹریکٹ کا نام دیا جاتا ہے‘ جس کا سادہ مطلب ہے‘ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ‘ جو ایسا نظا م وضع کرے‘ جس کے ذریعے کوئی جابر یا آمر ریاست کے ماتحتو ں کو مجبور اورمحکوم نہ بنا سکے۔
پاکستان ایک ایسی خوش بخت سرزمین ہے، جہاں آئین میں اختیارات کی مثلث (Trichotomy of Power)واضح طور پر درج ہے۔ نالیاں بنا کر اُن پر نام لکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ کو آئین نالیاں بنانے کی اجازت دیتا ہے‘ نہ ہی قوم کے پیسے سے بننے والے پروجیکٹس کو اپنے نام سے منسوب کرنے کی۔ آئین میں اختیارات کی مثلث کا پہلا ادارہ ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی ہے‘ جس کی تین شاخیں ہیں:
پہلی: وفاق کی حکومت۔
دوسری: چار صوبوں یا وفاق کے دیگر یونٹوں کی حکمرانی۔
تیسری: یہ شاخ سب سے اہم ہے۔ اسے آئین کے آرٹیکل 140-A میں لوکل گورنمنٹ یعنی مقامی حکومت کے نام سے پکارا گیا۔
مقامی حکومت کی ذمہ داری: شہروں، دیہات، سڑکوں اور تعمیرات سے لے کر ترقی تک کے سب کاموں کے بارے سوچنا اور پھر اُسے مقامی آبادی کی ضرورتوں کے مطابق ترجیح دینا ہے۔ ساتھ ترقیاتی کمیٹی، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن، قانونی ضابطہ جات سے گزار کر ترقیاتی کام کرانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ موجود ہ طرزِ حکمرانی نے مقامی حکومت نمائشی، فرمائشی بلکہ لنگڑی اور لولی کر رکھی ہے۔ ملک کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ انگلی کھڑی کرکے منصوبے کا اعلان کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ لہرا کر اور چھاتی پر مار کر کہتے ہیں کہ جائو یہ پُل میں نے تمہیں دیا۔ اگر کسی نے اپنی جیب میں سے یا باپ کی جاگیر میں سے ایسا منصوبہ بنایا ہو‘ تو وہ عوام سے ضرور کہے کہ یہ منصوبہ میں نے تمہیں دیا۔ اس طرزِ سیاست سے قوم کو فوری نجات کی ضرورت ہے۔ برطانیہ سمیت مغرب کے وہ مُلک جہاں پارلیمانی طرزِ حکومت، صدارتی نظام، بادشاہت یا وَن مین وَن ووٹ کا کوئی بھی ماڈل رائج ہے‘ وہاں اکیلا حکومتی عہدے دار کسی پراجیکٹ کا اعلان نہیں کر سکتا۔ یہ کام مقامی اور شہری حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ بلکہ چین میں بھی یہی طریقہ رائج ہے۔ ڈنگ ژیائو پنگ سے پہلے لوکل گورنمنٹ کمیون پر مشتمل تھی۔ اب اسے کینٹون کا نام دیا گیا ہے۔ وینزویلا کے انقلابی رہ نما ہوگو شاویز کی قیادت میں سوشلسٹ نظام میں مقامی حکومت کو کونسل کا نام دیا گیا۔
ہمارے ہاں ان حالات میں ایگزیکٹو کیسے ڈلیور کر سکتی ہے‘ جو ایگزیکٹو کے آئینی نظام کی بُنیادی اکائی کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ نہ عوام کے لیے ریلیف ہے نہ انصاف۔ ریاست کا دوسرا ستون مقننہ ہے۔ پاکستان میں جی بی، آزاد جموں و کشمیر سمیت چھ پارلیمان ہیں‘ جن کا کام طرزِ حکمرانی کو عوام کی خواہش اور ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لئے قانون سازی کرنا ہے۔ آپ خود فیصلہ کر لیں۔ مقننہ قانون سازی کر رہی ہے یا اپنے مفادات کے بُتوں کی پرستش۔ ریاست کا تیسرا ستون نظامِ عدل و انصاف ہے‘ جہاں سائل اور مُلزم کے درمیان تنازعات اور مقدموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق سٹریٹ جسٹس، ہجوم کا انصاف، سڑکوں پر فیصلے، متوازی عدالتی نظام، پرائیویٹ لشکر بنانے پر تحریری پابندی ہے۔ اس کے باوجود وہ جو آئینی جمہوریت کے نام پر عوام کی جیبیں کاٹنے کے ماہر ہیں‘ ان کا بیانیہ مُلاحظہ ہو:
''میں5 ججوں کے فیصلے کو تسلیم نہیں کروں گا۔ اصلی فیصلہ ایبٹ آباد کے عوام نے کرنا ہے۔ آپ کا فیصلہ آ گیا 4,5 لوگ مجھے کیسے نکال سکتے ہیں‘‘۔
بیانیے کا دوسرا حصہ اس سے بھی زیادہ فاتحانہ ہے اور وہ یوں کہ میرا نام نظریہ شریف ہے۔ یہ مُلک اسی نظریے پر چلتا رہے گا۔ بیانیے کا تیسرا حصہ، میرے احتساب کا فیصلہ سڑکوں پر ہو گا۔ پورے مُلک میں جلسے کرکے ریفرنڈم کروائوںگا‘ اور اصلی انصاف کا فیصلہ اسی ریفرنڈم میں ہو گا۔ اس بیانیے کا مطلب بہت سادہ ہے۔ ایک ایسا نااہل شخص‘ جس کی پارٹی 3 وفاقی یونٹوں میں برسرِ اقتدار ہے وہ آئینی عدلیہ کو نہیں مان رہا۔ سوات کے ایک مولوی صاحب نے بھی سپریم کورٹ کو نہ ماننے کا اعلان کیا تھا۔ پھر کیا ہوا، آپ سب جانتے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر لوگوں کے گلے کاٹ کر اسے عین انصاف کہتے ہیں۔ چھوٹو گینگ سے موٹو گینگ تک‘ سب انصاف کے آئینی ادارے کے خلاف کھلی بغاوت کی مُہم قومی بجٹ سے چلا رہے ہیں۔
کرپشن کے سب سے بڑے رازدار کو لندن میں زیرِ زمین چھپا دیا گیا یا ڈرا دیا گیا ہے۔ گاڈ فادر کہتا ہے: میرے فیصلے میں جلدی کیوں ہے۔ گاڈ فادر نمبر2 نے اگلے دن عمران خان کے خلاف درخواست دی کہ اس کا مقدمہ لاہور کی عدالت میں روزانہ کی بُنیاد پر سُنا جائے۔ اسی لاہور میں سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 مظلوموں کے قتل کے 2 عدد مقدمے 2 سال سے رُل رہے ہیں۔ ایک ایسے قانون کے تحت جس میں لکھا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمے کا فیصلہ 7 دن میں ہو گا۔ ریاست کے منیجر ریاست کے گلے پڑے ہوئے ہیں‘ اور کھربوں کے قرضے غریب عوام کے۔ ایسے میں قوم کے پاس 2 راستے ہیں۔ پہلا راستہ، فوری طور پر قومی انتخابات کروا دینے کا ہے۔ دوسرا راستہ‘ یہی کہ حکومت ہو یا عدالت، کسان ہو یا صحافی گاڈ فادر‘ اس کی ٹیم کی نظر ان کی جیب میں پڑے ''بٹوے‘‘ پر فوکس رہنی چاہیے کیونکہ بٹوہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ باقی رہی ریاست تو وہ کرسٹینا لیمب کے بقول ''Waiting For Allah‘‘ کی حالت میں ہے۔