بابا، ملکی منظرنامے میں نیا استعارہ نہیں ہے۔ سیاست میں پہلی مرتبہ بابا تب مشہور ہوا جب غلام اسحاق کے خلاف گو بابا گو کے نعرے اسمبلی کے فلور سے لگائے گئے۔ پنجاب میں بابا کہلوانے والے بزرگ کسی ایک مذہب تک ہی محدود نہیں۔ بابا گرو نانک اس کی زندہ مثال ہیں۔ نقلی، فرضی اور کاروباری بابے اشتہاروں میں بھی چھائے رہتے ہیں۔ کہیں بنگالی بابے اور کہیں تجربہ کار سنیاسی بابے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک بابا جی عمر رسیدگی نہیں بلکہ علم و دانش کی علامت ہیں۔ چھوٹے بچوں میں سے جو سیانا ہو اسے ''اوے باویو‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ دیہات کا کلچر آج بھی بابے کی دانش کا اسیر ہے۔ اسی لئے سرائیکی وسیب کے شاعر نے بابے کو موجودہ طرزِ حکمرانی کی علامت کہہ کر یوں نئی جہت عطا کر دی۔
سیاست ہِے بُڈّھے مکّاراں دے ہتھ اِچ
حکومت ادارے گنواراں دے ہتھ اِچ
خُدا اِس وطن کُوں سلامت چاء رکھیں
ایہہ شیشے دا گھر ہِے لوہاراں دِے ہتھ اِچ
عامیانہ زبان میں بابے کے لئے ''بڈھے‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس طرح جسٹس کو اردو میں انصاف کہتے ہیں اور انصاف کو عدل۔
ہماری سیاست کے ایک نااہل بابے نے پاکستان مسلم لیگ کو پہلے ضیاء لیگ پھر جونیجو لیگ اور آگے چل کر نُون لیگ میں تبدیل کر ڈالا۔ اگلے دن فرمایا کہ اب میں تحریکِ عدل چلائوں گا۔ اس اعلانِ شریف کے کئی مطلب شریف نکالے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نُون کو میم ہائی جیک کر گئی یا ش سے خطرہ ہے‘ یا پھر جس طرح نا اہل شریف کو عمران خان کی جنگلہ بس والی اصطلاح جلسے میں بھی نہ بھول سکی‘ اسی طرح اب شریف بابے نے تحریکِ انصاف سے مقابلہ کرنے کے لئے تحریکِ عدل چلانے کا اعلان کر ڈالا۔ ایک دل جلے نے اس پر کہا: بابا دیکھ، ذرا دیکھ‘ تیرا بڈھا بگڑا جائے۔ پنجاب کے لوگ عام طور پر جبکہ لاہوریے خاص طور سے جانتے ہیں کہ تحریکِ عدل کے اعلان سے کون کون خوش ہے۔
اس بات میں کسی پاگل، بھیڑ، بکری کو ہی شک ہو سکتا ہے کہ تحریکِ عدل کے اعلان سے عدل کے مارے یا گھسیٹے ہوئے خوش ہو گئے۔ مثلاً ماڈل ٹائون قتلِ عام میں مرنے والوں کے وارث آج تک پنجاب کے 2 بڑے عہدوں پر بیٹھے مرکزی ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ جائز مطالبہ منوانے کے لئے مقتول فریقوں نے ڈنڈے کھائے، ہتھکڑیاں پہنیں، جیل یاترا کی۔ دہشت گردی کے مقدمے تک بھگتے۔ اس سارے عرصے میں نااہل شریف نے مظلوموں کے حق میں کوئی اہلیت نہ دکھائی۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تحریکِ عدل چلانے والا قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ نہ کرے۔ ماڈل ٹائون مقتولوں کے وارث یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ جیسے ہی تحریکِ عدل شروع ہو گی، ان کے بڑے ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ اس سے بھی بڑا ملزم خود کرے گا۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ نااہل شریف کے ہاتھ صاف ہیں۔ یہی بات بالکل انہیں لفظوں میں موصوف کروڑوں مرتبہ اپنے لئے دہرا چکے۔ اس لئے تحریکِ عدل شروع ہوتے ہی نااہل شریف کا دوسرا مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ سینکڑوں سے زیادہ یعنی ہزاروں کے ہیر پھیر میں پولیس مقابلوں کے مجرم بھی پکڑے جائیں گے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں شریفانہ طرزِ حکمرانی میں 3 طرح کے پولیس مقابلے ''منعقد‘‘ ہوتے ہیں۔
پہلا پولیس مقابلہ اس طرح کہ 11/12 نوجوان ملزم پولیس مقابلے میں مارے گئے جو سخت وحشت گری کرنا چاہتے تھے۔ ان کے نام، پتے، ولدیت اور دیگر کوائف معلوم نہیں ہو سکے۔ مارے جانے والے خطرناک ملزموں کی لاشوں کو نامعلوم مقام پر اجتماعی قبر میں ٹھونس دیا گیا۔ اس کامیاب پولیس مقابلے میں جس کا حکم اُوپر سے نیچے کی طرف آیا کوئی سرکاری اہلکار ہمیشہ کی طرح زخمی نہیں ہوا۔ مارے جانے والے خطرناک ملزموں کی جامہ تلاشی سے 11/12 ناڑے برنگ سفید از قسم کاٹن، 4 جوڑے ہوائی چپل اور ایک سلیپر کی بھاری مقدار برآمد ہوئی۔ ملزموں کی جیب سے نہ نقدی نکلی اور نہ ہی ریز گاری۔کچھ ملزم اگرچہ موقع پر موجود نہ تھے پھر بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی تلاش میں چھوٹو گینگ سے مقابلہ کرنے والی ماہر تجربہ کار ٹیم روانہ کر دی گئی۔
دوسری قسم کا پولیس مقابلہ ویسا ہوتا ہے جیسے خطرناک ملزموں کی تصویر گجرات میں پولیس وین کے اندر سے کسی شر پسند رپورٹر نے کھینچ ڈالی۔ یہ ممنوعہ تصویر آج کل سماج دشمن عناصر سوشل میڈیا پر مسلسل دیکھ سکتے ہیں۔ تصویر کے مطابق سو فیصد کامیاب پولیس مقابلے کے بعد نامعلوم قانون شکنوں کی لاشیں ڈالے میں پڑی ہیں‘ جن کے پائوں میں رسیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں مرنے کے بعد بھی نظر آ رہی ہیں‘ اور یہ انتہائی تربیت یافتہ ملزم اسی حالت میں پولیس مقابلہ کر رہے تھے کہ اپنے ہی ہاتھوں ''اچانک‘‘ گولیاں چل جانے سے مارے گئے۔
تیسری قسم کا پولیس مقابلہ گمشدہ افراد کے خلاف ہوتا ہے۔ جس میں لاپتہ افراد کے عزیز رشتہ داروں کے علاقے میں نامعلوم لاش کہیں سے آ کر خود بخود گر جاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی لاش دوست، عزیز پہچان لیتے ہیں۔ اور یوں زندہ حالت میں گمشدہ ہونے والا مردہ حالت میں خاندانی قبرستان میں مفت قبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
بات کامیابی تک پہنچ گئی ہے۔ اس لئے یہ کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ نااہل شریف کی جانب سے تحریکِ عدل یا انصاف کی کامیابی کا دار و مدار بکری پر ہے‘ جس کا ذکر خود نااہل شریف صاحب نے اپنی ایک بُجھی بُجھی سی میڈیا ٹاک میں کیا ۔ کہا: ہم نہ پاگل ہیں، نہ بکری، نہ بھیڑ۔ بھیڑ کے بارے میں تو بھیڑ چال کا محاورہ موجود ہے‘ جس کا عملی مظاہرہ نااہل شریف کے دو ننھے منھے شیروں نے کیا۔ دونوں مقدمہ بنتے ہی کالے سے گورے ہو گئے یعنی پاکستانی سے انگلستانی۔ پھر نااہل شریف کے انتہائی اہل سمدھی نے دونوں کے پیچھے بھیڑ چال چلتے ہوئے پاکستان سے دوڑ لگا دی۔ اس لئے ملک میں حاضر ہو یا 7 سمندر پار بھیڑ، بھیڑ ہی ہوتی ہے۔ ان حالات میں تحریکِ عدل کی کامیابی کا سارا بوجھ بکری کے نازک کندھوں پر آن پڑا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ لاہور میں پہلوان بکری کا محاورہ سب سے زیادہ بولتے ہیں۔ خاص طور پر جب کوئی پہلوان میدان سے بھاگ نکلے تو تماشائی ''بکری اوے‘‘ کا زور دار نعرہ بلند کرتے ہیں۔ اس طرح بکری کو مفرور بھی کہا جاسکتا ہے۔ بکری اگرچہ مؤنث ہے لیکن مفرور کا لفظ مؤنث اور مذکر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
میری اطلاعات کے مطابق نااہل شریف کی تحریکِ عدل کا کم از کم پانچ جوابی تحریکیں انتظار کر رہی ہیں۔ پہلی، تحریک ِ انصاف، دوسری تحریکِ وکلائ، تیسری تحریکِ قصاص، چوتھی تحریکِ ختم نبوتﷺ اور پانچویں کا نام میں نہیں لُوں گا۔ یہ نہ ہو کہ تحریک چلانے کا اعلان کرنے والے بابا جی بکری ہو جائیں۔ پانچوں تحریکی اپنے اپنے طریقوں سے وہ نعرہ جَپ رہے ہیں، جو پنجاب کے ہر تھانے میں تحریری طور پر موجود ہے۔ ''آ جا مورے بالماں تیرا انتظار ہے‘‘۔
اپنے انجام کو پہنچیں گے خداوندِ مجاز
لِلّہِ الحمد شریروں کے برے دن آئے
جن کی تقدیر میں لکھی ہے خرابات کی خاک
ان بَد انجام وزیروں کے بُرے دن آئے
دیکھے جاتے ہیں گلی کوچوں میں رانجھوں کے ہجوم
شہرِ لاہور کی ہیروں کے بُرے دن آئے