پہلے مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے دونوں طرف بیٹھے ہوئے کسی اور شخص کو بھی یقین نہیں آیا ہو گا۔ بات ہی ایسی تھی یا تہلکہ خیز انکشاف کہہ لیں۔ 243 روپے اور 77 پیسے پینشن پر ایک مہینہ تو کیا ایک دن بھی نہیں گزارا جا سکتا ۔ اچھی نسل کا ایک کلو سیب یا بکرے کے گوشت کا ڈیڑھ پائو یا پھر ایک ڈیڑھ کلو دال ۔ ایک اور مشکل اس سے بھی بڑی تھی اور یہ مشکل کوئی قانونی گتھی نہیں تھی‘ بلکہ آئینی رکاوٹ راستے کا پتھر بن کر کھڑی تھی ۔ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن کا اختیار یا پھر سپریم کورٹ کے روبرو آرٹیکل 184 کے ذیلی آرٹیکل 3 کے تحت سووموٹو نوٹس میں کسی پرائیویٹ شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی قابل پذیرائی نہیں ہے۔ لیکن خوشحال بی بی کی امید فوراً بر آئی ۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب ، جسٹس اعجاز الاحسن صاحب اور جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کے بینچ نے یہ پینشن ساڑھے آٹھ ہزار روپے کر دی ۔ ساتھ ہی یہ آبزرویشن دی کہ اس سے کم پینشن نہیں ہو سکتی ۔ پرائیویٹ بینکوں کی طرف سے پیش ہونے والے وکلاء حضرات نے پس و پیش کر کے اپنے کلائنٹس کا دفاع کرنے کی اپنی سی کوشش مگر ضرور کی ۔ سینئر سٹیزن اور پنشنرز کا تصور آتے ہی نا جانے کیوں جمہوری حکومت کا دھیان لفظ اضافی بوجھ (EXTRA BAGGAGE) کی طرف چلا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس اپنی عزت میں اضافے کے علاوہ دوسرا کوئی ایجنڈا آرڈر آف دی ڈے پر موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے پارلیمان کی عزت کے لیے لشکرِ پارلیمان کے سپاہیوں ، ریزرو رجمنٹ ، لانگریوں اور ان کے ہمنوائوں کا بیانیہ کمال ہے۔
مثال کے طور پر خاندان شُغلیہ کے بڑے سمدھی فرماتے ہیں: اب فیصلہ عدلیہ نہیں بلکہ '' عوام کی عدالت‘‘ میں ہو گا۔ چھوٹے مفرور سمدھی نے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اسی عدلیہ کے پاس اپیل کی اور مفروری کے باوجود سینیٹ کی ممبرشپ کے لیے نامزدگی کی منظوری لے لی ۔ آپ خود فیصلہ کر لیں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے یہ کہا کہ چور اُچکاّ سیاسی جماعت کا چوہدری کیسے بن سکتا ہے تو لانگری چیخ اُٹھے کہ انہوں نے چور بڑے کو کہا اور اُچکا چھوٹے کو ۔ چند دن پہلے سینیٹر ہدایت اللہ نے فاٹا کے حوالے سے دل دکھا دینے والی تفصیلات فلور آف دی ہائوس پر پیش کیں ۔ بتایا: پورے فاٹا میں عسکری اداروں کی نگرانی میں 600 سکولوں کی عمارتیں پھر تیار ہو چکی ہیں‘ لیکن باعزت حکومت کے باحیا حکمران وہاں ٹیچر لگانے سے انکاری ہیں۔ دوسری جانب چھوٹا کہتا ہے: ہم نے ترقی میں جاپان ، چین اور فرانس پر ڈورے ڈال دیے ہیں۔ مسلم دنیا کا تو ذکر ہی کیا پورا ایشیاء لاہوری ٹائیگر کے آگے کب کا سجدہ ریز ہو چکا ۔ کیا جاپان، کوریا، چین، ملائشیائ، تھائی لینڈ، ترکی یا مشرقی یورپ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے غریب ملک میں یہ سوچا بھی جا سکتا ہے کہ ملک کے وار زون نما علاقے میں 600 سکول ،ٹیچروں کی بھرتی کی راہ دیکھ رہے ہوں ۔ فاٹا کے جو بچے بندوق سے منہ موڑ کر کتاب سے رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں‘ وہ اپنے خادم کہاں ڈھونڈیں؟ جاتی امرا کے محلات میں یا مے فیئر کے لگژری اپارٹمنٹس میں؟ اتوار کی صبح 9 بجے فیصل مسجد کے عقب میں مارگلہ ہلز واک کی تیاری کرنے لگا تو بجلی چلی گئی ۔ یہ اتوار کی صبح کی سیریل لوڈ شیڈنگ کا دوسرا گھنٹہ تھا۔ حکمرانوں سے سنیں تو وہ کہتے ہیں: ہم نے لوڈ شیڈنگ کو کب کا دیس نکالا دے دیا ۔ ہم ایک عجیب فلاحی ریاست میں جی رہے ہیں‘ جس میں غریبوں کے نمائندے غریبوں کے ووٹ کے ذریعے ارب پتی بن جاتے ہیں‘ لیکن ہر روز قرض، مرض، بے روزگاری اور بیماری‘ قتل اور خود کشی، بھتہ خوری اور سینہ زوری، سٹریٹ کرائم اور گینگ کرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بہت دن پہلے مجھ سے کسی نے پوچھا تھا: آپ کے خیال میں سیف سٹی کا تصور کیسا ہے ۔ یہ سوال ایک بڑے صاحب نے کیا۔ میں نے کہا: جانے دیں‘ آپ کو میرا جواب پسند نہیں آئے گا۔ جواب کے اصرار پر کہہ دیا: جب تک اس ملک کے بڑے سرکاری خرچ پر بننے والی حفاظتی دیواروں‘ سرکاری پٹرول پر چلنے والی بلٹ پروف گاڑیوں‘ جھوٹے سکیورٹی الرٹ کے بعد ملنے والی بلیو بک کی سکیورٹی‘ ریڈ زون ، حفاظتی حصار سے محروم نہیں ہوں گے‘ تب تک حکمران شہریوں کو سکیورٹی نہیں دیں گے۔ بڑے دن بعد دل راضی ہوا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے لاہور میں غریب کا منہ چِڑانے والی سکیورٹی کو کچھ سڑکوں سے ہٹوا دیا ۔ ظاہر ہے اس پر کون خوش ہو گا۔ اس ذہنیت کا ایک اور پہلو دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ آج کی سیاست میں سب سے بڑا ''پنچنگ بیگ‘‘ عمران خان ہے۔ پیپرا رولز اور قانونی اداروں کو طاقت کے ذریعے روند کر پرائیویٹ کمپنیوں کے نام پر اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس ٹرانسفر کرنا کوئی جرم نہیں ہے‘ کسی کرکٹر کو ریلو کٹا کہنا بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔ ایل این جی کے ٹھیکے اور میٹرو ملتان کے کنٹریکٹ کو میڈیا ، عدالت ، عوام حتیٰ کہ باعزت پارلیمنٹ سے چھپا کر رکھنا بھی کوئی واردات نہیں ہے۔ لیکن پی ایس ایل کی ٹیم کو پھٹیچر کہنا گناہِ کبیرہ ہے اور رشتہ مانگنا بسنت کی پتنگ اڑانے سے بھی بڑا فوجداری جرم ۔ یہ کہنا کہ میں انتخابی شکست سے سبق سیکھوں گا قابلِ گردن زدنی خطا ہے‘ لیکن منی لانڈرنگ کارِ ثواب ۔ جو چیف جسٹس بی بی ، جونیجو اور بھٹو کی حکومت ڈس مس کرنے کو جائز قرار دے وہ زندہ باد‘ لیکن جس کے دور میں زینب کو 7 دن میں انصاف مل جائے وہ ایل ایف او زدہ کہلائے۔ اس وقت خوشحال بی بی یقینا سوچ رہی ہو گی کہ اس جمہوری نظام میں بے نوائوں کا گنہگار کون ہے۔ وہ باعزت پارلیمنٹ جو خوشحال بی بی کو عشروں تک محنت کے عوض 243 روپے سے زیادہ نہ دے سکی یا وہ فائٹر چیف جسٹس جو سٹیٹس کو کی دیواریں توڑ کر بنیادی حقوق دینے کے لیے سینہ تان کر اِن دی لائن آف فائر ہے۔
خوشحال بی بی کی داستان کوئی خیالی یا افسانوی کردار نہیں ہے‘ بلکہ یہ اُن لا تعداد پینشنروں کی بیوائوں میں سے ایک جگ بیتی ہے‘ جن کو ازل کا پروانہ مل گیا‘ مگر پینشن میں اضافے کا حق نہ مل سکا ۔ خوشحالی کے بے شرمانہ دعوے اور ایسے دعوے کرنے والے ریا کار ، سیاسی اداکار اپنے مفرور رشتہ داروں کے دامن خوشحالی سے بھرتے رہے‘ لیکن خوشحال بی بی جیسے بے وارث دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ۔ اپنا لمبا، چوڑا ، موٹا پیٹ بھرنے والی پارلیمان اور حقوقِ انسان کا پاسبان‘ کے درمیان دانائے راز حضرتِ علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ان کا ووٹ کس کے حق میں جاتا یہ خود شاعرِ مشرق کی زبان میں سُن لیجئے:
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہِ آزاد
خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں
وہ گلستان کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
243 روپے اور 77 پیسے پینشن پر ایک مہینہ تو کیا ایک دن بھی نہیں گزارا جا سکتا ۔ اچھی نسل کا ایک کلو سیب یا بکرے کے گوشت کا ڈیڑھ پائو یا پھر ایک ڈیڑھ کلو دال ۔ ایک اور مشکل اس سے بھی بڑی تھی اور یہ مشکل کوئی قانونی گتھی نہیں تھی‘ بلکہ آئینی رکاوٹ راستے کا پتھر بن کر کھڑی تھی ۔ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن کا اختیار یا پھر سپریم کورٹ کے روبرو آرٹیکل 184 کے ذیلی آرٹیکل 3 کے تحت سووموٹو نوٹس میں کسی پرائیویٹ شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی قابل پذیرائی نہیں ہے۔ لیکن خوشحال بی بی کی امید فوراً بر آئی ۔