احتجاج تو بنتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ بھی۔ احتساب کھلی زیادتی ہے۔ قانون کا نفاذ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ اور پو چھ گچھ پارلیمنٹ کی توہین۔ چور کو چور کہنے کا مطلب ہے کچھ پارلیمنٹرین۔
یہ بھی کوئی جرم ہوا‘ جس کا مدعی اقبال آرائیں سال 2014ء میں راہی ملک عدم ہو گیا۔ 2015ء میں اس نے عالمِ بالا سے برسرِ زمین اکائونٹ کھلوا لیا۔ وہ اگرچہ مزدور کار تھا لیکن محنت کشی نے اسے خون پسینے کی کمائی میں سے اس قدر نوازا کہ عالمِ برزخ میں پہنچ کر بھی اس کی جیب میں سے محض 460 کروڑ روپے سکّہ رائج الوقت نکل آئے۔ اور یہ بھی قدرت کے کرشمے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ مرحوم نے حیات بعدالموت کی ضروریات کے لیے 4 ارب 60 کروڑ روپے کراچی کے ایک بینک سے بڑی کامیابی کے ساتھ نکلوا بھی لیے۔ اس معجزاتی بینک کے مالک کا بھلا اس میں کیا قصور۔ مرحوم کا اکائونٹ اوپننگ فارم بھرنے والے کی کیا غلطی؟ صرف 4 ارب 60 کروڑ روپے کی کرنسی جمع کروانے‘ اسے کیش کائونٹر تک لے جانے اور پھر اس معمولی سی رقم کو ڈالروں کی لانڈری میں ڈال کر قطر، دبئی، سعودی عرب، استنبول، فرانس، برطانیہ اور امریکہ یا کینیڈا پہنچانے والے کا کیا قصور ہے؟
ایسی چیرہ دستیوں کے خلاف آئیے مل کر زور سے بولیں: ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے۔ احتسابوں کی سرکار نہیں چلے گی۔ اینٹی منی لانڈرنگ قانون ٹھاہ۔ منی لانڈرنگ کے صاف شفاف پیسوں میں سے لفافیاں، لفافے، توڑے، بوریاں پکڑنے والے واہ۔ بلکہ واہ واہ۔ واہ واہ سے مجھے انگریزی پنجاب کا بھگت سنگھ جڑانوالیہ یاد آ گیا‘ جس کے ساتھیوں نے بمبئے کی اسمبلی سے متحدہ پنجاب کی اسمبلی تک فرنگی راج کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ میرے لاہور کے لاء آفس کی دوسری جانب اگلے روز شہباز شریف رائیونڈیا کی گرفتاری پر جمہوریت نے 'واہ واہ‘ احتجاج کیا۔ عین جمہوری طریقے سے منتخب جمہوری امیر نمائندوں نے غریب پنجاب کے خرچے پر شیشے توڑے‘ اپنی ہی اسمبلی کی میزیں کھڑکا کر کرسیاں پھڑکا کر رکھ دیں۔ نون لیگی ایم پی ایز نے حقِ نمائندگی پر واہ واہ‘ کمال کے پارلیمانی نعرے لگائے۔ واہ واہ پھبتیاں کسیں۔ بڑھکیں ہانک کر واہ واہ جگتیں ماریں۔ ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ کر بٹن توڑے۔ الزام تراشی، اتہام بازی اور دشنام طرازی کے ذریعے ووٹ کی عزت میں واہ واہ تاریخی اضافہ کیا۔ اس ساری کی ساری عین پارلیمانی کارروائی کا مقصد فالودے والے، رکشے والے، اور مردے والے احتجاج میں حصہ ڈالنا تھا۔ ساتھ ہی چنیوٹ سے سیالکوٹ تک اور لاڑکانہ سے لانڈھی کے اُس بالا خانہ تک‘ جہاں غریب طالب علموں کے نام پر کھلنے والے معجزاتی اکائونٹس میں چھت پھاڑ کر کروڑوں روپے گھس بیٹھے ہیں‘ اُن سب خوش بخت طالب علموں سے بھی اظہارِ یکجہتی کرنا ضروری تھا۔ لیکن یہ سب کچھ پنجاب اسمبلی کے نون لیگی ارکان نے کرپشن کے فروغ کے لیے نہیں‘ کرپشن فری پاکستان کے لیے کیا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے۔ پنجاب کے شوباز نے ''شور‘‘ بازی کی جو پرفارمنس قومی اسمبلی کے فلور پر دینے کی کوشش کی‘ وہ بری طرح سے فائر بیک کر گئی‘ قومی میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت۔ اس پرفارمنس کا کلائمیکس خواجے کے خلاف گواہ بنانے کے انکشاف والا تھا‘ جس کا سیدھا اور ایک ہی مطلب سب کی سمجھ میں آیا۔ وہ ہے اپنے ہائوس کو اِن آرڈر رکھنے کی کوشش۔ لیکن یہ خبر دو وجوہات کی بنا سے ہیڈ لائن بننے کے قابل نہ رہی۔ اس کی پہلی وجہ پی بی اے اور سی پی این ای کے وفود کے ساتھ وزیرِ اعظم کی ملاقات رہی‘ جبکہ دوسری وجہ کے الیکٹرک کی فروخت میں رشوت والی کہانی تھی‘ جو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی سٹوری کا دھماکہ ہے‘ جس کا ایک ثبوت ای میل اور دوسرا یہ نکلا کہ شہباز شریف نے اس کک بیک کمیشن ڈیل کی حمایت کی۔ اس لیے قبلہ شاہ صاحب سکھر آبادی کی حمایت کے باوجود شور شرابہ پروڈکشن کا شاہکار‘ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے باوجود اُٹھ نہ سکا‘ بلکہ ٹھس کرکے رہ گیا۔ شوباز سے شور باز تک کے اس سفر کی داستان کے پیچھے جرأت مندانہ بغاوت کریدنے کے لیے شہرِ اقتدار کے صحافیوں نے 2 گھنٹے لگا دیے‘ لیکن شور شرابے کے پانی میں این آر او والی کہانی کی مدھانی‘ مکھن تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی؛ چنانچہ آزاد تجزیہ کار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ شورباز کی شوبازی والی پٹاری میں ہلکے پھلکے شور شرابے کے سوا باقی کچھ نہیں بچا۔ اس لیے قومی اسمبلی میں نہ ٹھاہ ہو سکی نہ واہ۔ قومی اسمبلی میں شہباز شریف کا کہنا تھا: اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میٹرو والی سرکار کے اس دعوے کی تائید میں 342 کے ایوان میں سے صرف میٹر والی سرکار نے آواز بلند کی۔ مجھے شہید بی بی یاد آ گئیں۔ سال 1997ئ‘ حکومت آلِ شریف کی تھی۔ اپوزیشن کے کل 16 ممبر تھے‘ اور سترہویں نمبر پر اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو شہید خود۔ کرپشن پر پکڑے جانے کے بعد شور شرابہ کرنے والا اور اس کا پورا خاندان اقتدار میں تھا۔ شہید بی بی پر پنڈی، لاہور اور کراچی میں مقدمات بنائے گئے۔ میں شہید بی بی کا وکیل تھا۔ صرف اپوزیشن لیڈر پر نہیں بلکہ اس کے وکیل پر بھی دہشت گردی کے مقدمات درج کرائے گئے۔ بلکہ وکیل کو گرفتار بھی کیا گیا۔ نواز دور کی اپوزیشن لیڈر شہید بی بی کو بیرونِ ملک ہونے کے باوجود غیر حاضری میں سزا سنوا دی گئی۔ دوسری طرف نواز شریف کے دونوں بیٹے لندن میں ہیں اور عدالتی مفرور بھی‘ ان کا خاندانی سمدھی بھی عدالتی بھگوڑا ہے‘ اس کے باوجود ان تینوں کو احتساب کی کسی بھی عدالت نے سزا نہیں سنائی۔ آگے آپ کی مرضی پر چھوڑتے ہیں۔ آپ آلِ شریف کی طرف سے اپوزیشن لیڈر کو سزا دلوانے والی حکومت کے لیے واہ واہ کہہ دیں یا پھر مفروروں کو سزا نہ دلوانے والی حکومت کو ٹھاہ ٹھاہ کہتے رہیں۔
آپ غور سے نہ بھی دیکھنا چاہیں تو نوشتۂ دیوار پڑھ لیں۔ شور ہے کس بات پر؟ شور کی پہلی شانِ نزول چور کو این آر او دلوانے کی کوشش ہے۔ ورنہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ذکر بیچ میں کہاں سے آ گیا؟ خلائی مخلوق کے گھٹنوں پر (اگر انہیں خلائی زبان میں گُھٹنا ہی کہتے ہیں) پڑے ہوئے ہاتھ این آر او کے علاوہ اور کیا تلاش کر رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو بار بار بلا وجہ یقین دلانا کہ ہم حکومت کے خاتمے کے حق میں نہیں۔ اس کے بھی 2 مقاصد ہیں‘ جن میں سے پہلے نمبر پر کسی نہ کسی طرح کے ایک عدد این آر او کا حصول ہی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی طرف سے شوربازوں کے لیے خبر ہے۔ جو مرضی ہے کر لو‘ اس حکومت کے دور میں کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ دوسرے نمبر پر احتساب کے اداروں کے پر کاٹنے کے لیے نئی قانون سازی آتی ہے‘ جس پر شور باز نے اسمبلی میں کئی بار زور دیا۔ اور تو اور خواجے بھی کہتے پائے گئے: ہم سے غلطی ہوئی‘ ہماری غلطی سے سیکھو‘ احتسابی اداروں کے پر کاٹ ڈالو۔ شور بازی کا تیسرا مقصد ''کھنڈ کھائو، ونڈ کھائو‘‘ ہے۔ یعنی قومی دولت لوٹنے والے سارے چوروں کو چھوڑو اور ہمیں بالکل نہ چھیڑو۔ میٹر والی سرکار نے کہا: عمران خان نے طرزِ حکومت نہ بدلا تو اس کی حکومت برباد ہو جائے گی۔
ایسے فکر انگیز بیان پر آپ واہ واہ کہنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہاں البتہ میٹر والی سرکار سے اتنا ضرور پوچھنا پڑے گا: آپ حکومت کو برباد کیسے کریں گے۔ اسمبلی میں میزیں اُلٹ کر یا پارلیمنٹ کے شیشے توڑ کر‘ یا حکمران جماعت کے سارے حامیوں کے بجلی میٹر تیز چلا کر۔ فالودے والے، رکشے والے، مردے والے، شور شرابے والے، میٹر والے اور میٹرو والے دراصل وہی ہیں‘ جن کے صرف 182 بے نامی اکائونٹ ایک مقدمے کی تفتیش کے دوران پکڑے جا چُکے ہیں۔ اگر احتساب چلتا رہا تو ایک دن فرضی اکائونٹ والوں کے تہہ خانوں تک جا پہنچے گا۔ یقین جانیے پاکستان کے 4 عشروں کے ان حکمرانوں کے تہہ خانوں میں سے جو برآمدگی ہو گی‘ وہ اس سے زیادہ مال و زر ہو گا‘ جو ہلاکو خان نے معتصم باللہ کے تہہ خانوں سے نکالا تھا۔
پرندے چہچہانا بھولتے جاتے ہیں اس ڈر سے
ہوائوں میں جو نا معلوم ڈر تقسیم ہوتا ہے