اس خا کپائے رسول ﷺ کا مدینے میں دوسرا دن ڈوب رہا تھا‘ساتھ ساتھ میرا دل بھی۔حاضری ہو چکی تھی‘ مگررسائی کے لیے بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔مغرب کی نماز کے لیے صف بندی قریب قریب مرتب ہو چکی۔میں قبلہ کی جانب سے پہنچا۔دربانِ درِ نبی ؐبڑی نرمی سے زائرین کو آگے بڑھ جانے کا کہہ رہے تھے۔میں تسلسل سے درود شریف کا نذرانہ پیش کر رہا تھا۔ایک وجیہہ مترشع باوردی نوجوان آگے آگیا۔عمار کہہ کر میرا ہاتھ تھاما پھر مسکراتے ہوئے مجھے اور عبداللہ کو عارضی حصار کا قفل اتار کر درِ روضۂ نبیؐ تک لے گیا۔
بے بندگی عروج دیا بندہ کر دیا
تارا میرے نصیب کا تابندہ کر دیا
اتنی بڑھیں حضورؐ کی مجھ پر نوازشیں
مجھ کو میرے سوال نے شرمندہ کر دیا
فقیرِ عجم کے لئے امیرِ حرم کی یہ نگاہِ کرم۔کہاں میں کہاں یہ مقام‘ اللہ اللہ!عبداللہ نے یاد کروایا کہ پچھلی مرتبہ حاضری اور رسائی کے بعد ہم دونوںفجر کی نماز سے پہلے اصحابِ صفہّ والے مقام پر جابیٹھے ۔یہاں آج کل بھی اشرافِ مدینہ تشریف لاتے ہیں۔حضور نبی کریمؐ کی ظاہری حیات کے دنوں میںیہاں آپؐ کے مہمان براجمان ہواکرتے۔اصحابِ صفہّ کے چبوترے اور روضۂ مبارک کے درمیان چھوٹا سا راستہ ہے‘ جو بابِ جبرائیل ؑ کی جانب سے ریاض الجنہ کو جاتا ہے۔میں اکثر قدمین مبارک کی جانب ہی سے نماز پڑھتا ہوں۔ہمارے عقب سے ایک بزرگ مدنی عرب تشریف لائے ‘جنہوں نے ہاتھ میں خوشبو کی شیشی پکڑی ہوئی تھی۔بزرگ نے پہلے عبداللہ کے ہاتھ پر اورپھر میرے ہاتھ پہ خوشبو لگائی اور آگے بڑھ گئے۔ہم باپ بیٹا رسائی سے سرشاری کی دنیا میں جا پہنچے۔
میں ہوں سرکارِ مدینہ کا گدا
جو بھی مانگوں مجھے سرکارؐ عطا کرتے ہیں
روضۂ آقائے دوجہاں حضرت محمدمصطفی ﷺ اور منبر ِ رسولؐ کے درمیان ریاض الجنہ ہے۔یہاں دومنبر ایستادہ ہیں۔بڑا محراب کے ساتھ لکڑی سے بنایا ہوا‘جبکہ اس سے آگے حجرہ شریف کی طرف بہت قدیم دیوار کے اندرتعمیرشدہ منبر شریف ہے‘جہاں سے محسن ِ انسانیت ؐ خطبات ارشاد فرماتے‘جو آج کرہ ٔ ارض کے سارے براعظموں اور دنیا کے ہر ملک میں ابدی نجات اور دنیاوی کامرانی کا منشورِ اول بن کے پہنچ چکے ہیں۔آج یہاں دبیز قالین بچھے ہوئے ہیں۔رسول اللہﷺ کے زمانے میںیہاں چٹائی تھی۔مسجدنبویؐ پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت ہواکرتی۔
سلام اس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
اگلے روز عشا کی نماز کے بعد دربارِ رسولؐ کے دربان پھر مہربان ہوئے۔منبر ِ رسول ؐ کے سائے تلے سجدہ اور مناجات پیشانی اور آنکھوں کا اعجاز بن گئے۔سجدہ وحدہ لاشریک کے شکر اور آنکھیںتصور ہی تصور میں آقائے دوجہاں ؐ کے قدموں تلے بچھ گئیں۔کسی نے ریاض الجنہ کے بارے میںنبی آخرالزماںؐ کے فرمان کوعشق میں ڈوبے ہوئے دولافانی مصرعوں میں سمو دیا۔
آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے۔''مابینَ بَیتی و منبری رو ضۃـُـمِن ریاض الجنہ‘‘۔
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
ریاض الجنہ کی معراج اور مقام لفظوں میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔جو عرض کرسکتا ہوںوہ فقط اس قدرہے کہ میں قربان جائوں شاہِ مدینہ اوریثرب کے والی پر۔جن کے دروازے کے باہر اور منبر کے سائے میںجنت کے باغوں میں سے ایک باغ اسی عالمِ رنگ وبو میں بچھادیاگیا۔غالباً اسی لیے جو خوش بخت آپؐ کے بلاوے پر یہاں اس باغِ جنت کی زیارت کو پہنچتے ہیں ‘ان کا یہاں سے اٹھنے کاجی نہیں چاہتا۔ میں نے حرمِ نبویؐ کے اردگردہزاروں لوگ باغِ اِرم میں پہنچنے کا خواب آنکھوں میں لئے منتظر دیکھے ‘لہٰذا ہم دونوں نے یہاں دونفل ادا کیے۔آپؐ سے جلد پھر حاضری کی اجازت طلب کی اور انتظار میں کھڑے عشاق کے لیے جگہ چھوڑ دی۔یہی تابعداری اور ادب کاتقاضاہے۔ادب پہلا قرینہ ہے ‘محبت کے قرینوں میں۔جمعے کے روزمدینہ طیبہ میںجزیرہ عرب سے ملکوں‘ملکوں اور نگر‘نگر کے لوگ آتے ہیں۔آپ ؐ کی میلاد مبارک کی نسبت سے ماہ ِربیع الاول میں زائرین کی تعداد کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔اس کے باوجود بھی کہیں ٹریفک ''چووک‘‘ ہونے کاسوال ہی پیدانہیںہوتا۔ اب جو بات کہنے لگا ہوں‘اس کا تعلق (Health Fitness)کے متعددماہرین کی تحقیق سے ہے اور وہ یہ کہ مکے اورمدینے کے مسافروںکے لئے دوطرح کی خوراک مکمل ڈائٹ کا کام دیتی ہے۔پہلی لیکویڈخوراک ہے‘ جبکہ دوسری سیمی سالڈ۔مبروم اورعجوہ کھجور یا کوئی بھی دیگر کھجوراور زم زم کے کنویںکا پانی۔جو خواتین و حضرات ان دنوں‘مستقبل میں یا کبھی بھی مکے‘ مدینے کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں ‘وہ اس پرفیکٹ ڈائٹ کو آزما کر ضرور دیکھیں۔
جمعے کے دن دوسرے پہردیارِحرم سے عمرے کی سعادت حاصل کرنے نکلے۔اللہ کے حبیبؐ کے در سے اللہ کے گھر تک کاسفر ہجرہ روڈ سے شروع کیا۔دربارِ رسولؐ سے 15-16کلومیٹر کے فاصلے پر میقات کامقام ہے۔مقامِ میقات کو دو ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ذوالحلیفہ اور آبیارِ علی ؓ ‘یعنی علیؓ کے کنویں‘جہاں خوبصورت باغ کے وسط میںمستطیل ڈیزائن کی مسجد مقام ِ میقات ہے۔بہترین غسل خانے‘صاف ستھرے ٹائلٹ ‘تقریباً دوفٹ اونچے وضو کے نلکے اور سامنے وضوکرنے کے لیے اتنے ہی اونچے مستقل سٹول۔نیت و نوافلِ عمرہ کے بعد دوبارہ شاہراہِ ہجرہ پر چڑھ آئے۔شاہراہ کے دونوں طرف تقریباً250کلومیٹرتک سیاہ کالے کوئلہ رنگ کے پہاڑ ہیں۔نوکیلے پتھرکروڑوںکی تعدادمیںہجرہ روڈ کے دونوں طرف دکھائی دیتے ہیں۔ایسے میں آپؐ نے ہجرت کا جو سفر جس طرح طے کیا وہ بذاتِ خود معجزہ ہے۔مدینہ سے 100کلومیٹرباہر نکل کر بندروں کی وادی آتی ہے۔ بیبون نسل کے ہزاروں بندریہاںپتھروں میں رہتے ہیںاور ان کی خوراک کا بڑا ذریعہ ہجر ہ روڈ کی دونوں جانب سے گزرنے والی گاڑیاں ہیں۔بندروں کے اتنے بڑے ریوڑآپ کو کہیںاور دیکھنے کوشاید ہی ملیں۔وائلڈلائف گزارنے والے یہ بندرمرغی سے لے کربکری کے سائزتک کے ہیں۔چھوٹے بندر گاڑی کے اوپر چڑھ کر سلیوٹ مارتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کھانے کے لیے کچھ نکالو۔ہجرہ روڈکے ایک طرف کئی سو کلومیٹرتک کچی سڑک بنتی دکھائی دی۔ میرے تجسس کو بھانپتے ہوئے ڈرائیور نے بتایا کہ مکے سے مدینہ شریف یہ واٹر پائپ لائن بچھائی جا رہی ہے‘جس کے ذریعے آبِ زم زم ٹینکروں کی بجائے براہِ راست زیرِ زمین حرمِ مدنی تک پہنچایا جائے گا۔
مکہ قریب آنا شروع ہوگیا تھا۔وادیِ ستارہ سے ذرا آگے انوارنامی جگہ عین ہجرہ روڈ کے اوپر آتی ہے۔حدودِ حرمِ کعبہ سے تھوڑا سا پہلے مدینے سے مکہ آتے ہوئے ہجرہ روڈ کے دائیں جانب اُم المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزارِ پرانوارہے۔تقریباً 60/70فٹ مربع شکل کی چاردیواری ‘اندر ریت کے ٹیلے پر اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ کی مرقدِمنورہ ہے‘جس کی نشاندہی کے لیے پتھر جڑے ہیں۔ہم نے ادب سے ایک طرف گاڑی کھڑی کی‘اُم المومنین کی مزار پر حاضری دی اور مکہ میں داخل ہوگئے۔جبلِ عمرکی چوٹی پر پہنچے توحرم شریف کے مینارپُرانوار سے نگاہ ٹکرائی۔شام کے سائے پھیل رہے تھے۔سبزروشنی تک نظر پہنچتے انسان آنسوئوں کی وادی میں چلا جاتا ہے۔
تلاش اس کو نہ کر بُتوں میں‘وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو رات کودن اور دن کورات بنا رہا ہے‘ وہی خدا ہے (جاری)