کراچی کی تقدیر تین عشروں تک نا معلوم افراد کے ہا تھوں میں رہی۔ اب قا ئم مقا م چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد صا حب کے فیصلے کی مرہونِ منت ہے۔اس فیصلے میں کراچی کے زمینی حقائق کا ایسا نقشہ کھینچا گیا جیسا عرصہ پہلے شا عر نے اُجڑے ہو ئے دل سے منسوب کیا تھا ۔حالیہ تاریخ ساز فیصلے میں سپریم کورٹ نے کراچی کی بربادی کی الم انگیز داستان پر کہا ''شہر میں نہ کوئی گرین ایریا بچا نہ پارک بچ سکے ۔پیڑ اجاڑ دیے گئے اور ہر طرف سرکاری ارا ضی پر قبضہ مافیا کا راج‘‘۔شا عر نے ایسی ہی ویرانیٔ دل پر یوں نو حہ گری کی تھی:
ٹوٹے کواڑ اور کھڑکیاں‘ چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پردے نہیں چلمن نہیں‘ یہ حال ہے آنگن نہیں
وہ خانہ ٔخالی ہے دل‘ اک شمع تک روشن نہیں
جسٹس گلزار احمد صاحب کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے بینچ کے اس فیصلے کے کئی تاریخ ساز پہلو ہیں۔ایک اس لینڈ مارک فیصلے کی ٹائمنگ ہے جس کی اہمیت یوں سمجھی جا سکتی ہے کہ یہ فیصلہ جسٹس گلزار صاحب نے قا ئم مقا م چیف جسٹس کی حیثیت سے صادر کیا۔ ساتھ ہی متعلقہ وزیراعلیٰ کو اس پر عمل درآمد کی ڈائریکشن جاری کر دی ۔ایسے فیصلے کو قانونی اصطلاح میں Self executory judgement کہتے ہیں ‘جس سے فرار کے راستے قدرتی عمل نے بند کر رکھے ہیںکیونکہ آج سے 6ماہ اور5 دن بعد جسٹس گلزار احمد خان صاحب پاکستان کے27ویںچیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے اور آئینی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر 2سال 1ماہ اور 11دن خدمات سر انجام دیں گے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ یکم فروری2022ء ہے۔اس فیصلے کا دوسرا پہلو کراچی کو اصل ماسٹر پلان پر واپس لے کر آ نا ہے۔فیصلے کے تیسرے اہم حصے کے تحت کراچی سر کلر ریلوے کی فی الفور بحالی ہے جس کو روکنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے لائن اور اس کے ساتھ ریلوے زمینوں پر قبضہ کرنے اور کروانے والے مافیا متحرک ہیںمگر شدید پریشان بھی کیو نکہ سرکاری لینڈ پر قابض اس مافیا کے ایک طرف گہری قانونی کھائی ہے جبکہ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی آئینی عدالت کے اختیارات و ہدایات کا سمندر۔اسی فیصلے میں خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون الاٹ کی گئی سرکاری املاک اور زمینوں پر کھینچا گیا خطِ تنسیخ بھی شامل ہے ؛چنا نچہ سپریم کورٹ کے ان احکا مات کی رو شنی میں کرا چی کی اصل شکل میں بحالی کو روکنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔اسی بے بسی کے اظہار کے لیے کراچی کے چند سیاسی ٹھیکیداروں نے بڑھکیں مارد یںتا کہ سرکاری زمینوں کے نا جا ئز قابضین کو ''سب اچھا‘‘ کی رپورٹ بھیجی جا سکے۔شہرِ کراچی کی حکمرانی بھی اندرونِ سندھ کے گھوسٹ سکولوں کے انتظام جیسی ہے جسے نا معلوم افراد چلاتے آئے ہیں سامنے کوئی اور پیچھے کئی اور۔مہران سے لندن تک ۔ملازم کوئی ہے ‘تنخواہ کسی اور کے گھر جاتی ہے ۔ایسے ہی شہرِ نا پُرساں کے شاعر نے اس طرزِ حکمرانی کا نقشہ یوں کھینچ رکھا ہے:
پہلے شہر کو آگ لگائیں نا معلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نا معلوم افراد
پہلے میرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نا معلوم افراد
ان کا نہ کوئی نام نہ مسلک اور نہ کو ئی نسل
کام سے بس پہچانے جا ئیں نا معلوم افراد
لطف کی بات یہ ہے نامعلوم افراد کے اس نظم و نسق میں سب سے زیادہ شور اٹھارہویں آئینی ترمیم پر حملے کا مچا ہے۔ یہ شور مچانے والے نا معلوم افراد سپریم کورٹ کے پبلک انٹرسٹ مقدموں کی بھی مخالفت کرتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کو یہ اختیا ر 1973ء کے اُسی آئین نے دے رکھا ہے جس میں2010ء میںاٹھارہویں ترمیم آئی تھی۔ اسی آئین کے آرٹیکل نمبر 184 ذیلی آرٹیکل 3کے تحت ہی سپریم کو رٹ عوامی مفاد اور انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے اس طرح کے احکامات جاری کرتی ہے ۔
اجراء سے یاد آیا تازہ ترین ڈیکلریشن آف ایسٹس آرڈیننس مجریہ 2019ء جو دو روز پہلے صدر نے جاری کیا ہے ‘ پر اپنے اپنے ڈھول بج رہے ہیں۔ اس آرڈیننس پر تین بنیادی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سب جانتے ہیں۔ حقیقت یہاں بتا دیتے ہیں ۔یہ اعتراضات حسبِ ذیل ہیں:
اعتراض نمبر 1یہ کہ ڈیکلریشن آف ایسٹس آرڈیننس مجریہ 2019 ء اسحاق ڈار والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم 2017ء کا کٹ اینڈ پیسٹ ورشن ہے ۔یہ اعتراض اتنا ہی درست ہے جتنی اعتراض کرنے والوں کی اپنی کریڈیبلٹی۔ 2017ء کی ایمنسٹی سکیم میں بینک میں ٹیڈی پیسہ کیش نہ ہو تب بھی چند فیصد جرمانے کے عوض بھاری رقوم وائٹ کی جا سکتی تھیں۔ 2019ء کے قانون میں کالا دھن بینک میں جمع کرانا پڑے گایا غیر ڈکلیئر شدہ بینک ڈیپازٹ کو ڈکلیئر کر کے اس پر اثاثے ڈکلیئر کرنے کا جرمانہ دینا پڑے گا۔ جس کی مقدار مقامی اکائونٹ‘ فارن ایکسچینج اور فارن اکائونٹس ہولڈر کے لیے علیحدہ علیحدہ رکھی گئی ہے۔ اس ایکسر سائز کے نتیجے میں ملک پہلی بار ڈاکومنٹیشن آف اکانومی کی جانب سفر شروع کر دے گا۔ ملکی معیشت کی بد بختی یہ رہی کہ یہ کام پچھلے 70 سال میں کوئی نہیں کر سکا ما سوائے مشرف دور کی ایک کاوش کے جس میں طاقت کے استعمال کے ذریعے بھی ملکی معیشت کی ڈاکومنٹیشن کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تھا۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس آرڈیننس کو جاری کرکے بحا لیٔ معیشت نہیں ہو سکے گی۔ یہ اعتراض اٹھانے والے عمران فوبیا کے مرض میں مبتلا ہیں‘ جن کا نہ تو اکانو می کے بارے میں بیک گرائونڈ ہے اور نہ ہی اس شعبے سے میلوں دور تک کوئی تعلق واسطہ۔کاروباری دنیا میں اگر چہ اس آرڈیننس کو سراہا گیا۔ اور تو اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے بھی اس کے اجرا کو ملک کے لیے بہتر قرار دیا۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ آرڈیننس آئی ایم ایف کے دبائو میں جاری ہوا۔ اس کا ایک لا جواب سا جواب سوشل میڈیا پر کسی ذہنِ رسا نے دیا۔ تصویر میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹینا لیگارڈ اور نواز شریف سمدھی سمیت میز کے دوسری جانب بیٹھے ہیں۔ مادام لیگارڈ بول رہی ہے اور نواز کابینہ دست بستہ سن رہی ہے۔ تصویر کا کیپشن یوں بنا: نواز شریف‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ اور AJ&K کا صدر آئی ایم ایف والی آنٹی سے آلو گوشت پکانے کی ترکیب سمجھ رہے ہیں۔
وکالت نامے کا کام تحقیق یا تفتیش نہیں؛ البتہ اطلاع کی بات دوسری ہے۔ 3 ہفتے پہلے فرارِ خود اختیاری کے شکار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب بیرسٹرز لین لندن گیا۔ یہ آپ ان سطور میں پڑھ چکے ہیں۔ دو دن پہلے اس اطلاع کی تصدیق قومی میڈیا میں لیک ہوئی۔ ان 2 دنوں میں ہی ڈالر بوائز اور ڈالر گرل کی گیم بھی سامنے آ گئی۔ ایک دن میں ڈالر کو 6 روپے کا جمپ دینے والی۔ مگر ایف آئی اے چائنہ میرجز کے پیچھے بھا گ رہی ہے۔ اس شادی کی بر آمدگیاں ہو لینے کے بعد شاید ایف آئی اے کو یہ اکنامک کرائم نظر آ جائے۔
شام ڈھل رہی ہے‘ لندن جیسی بوندا باندی اور سرد ہوا بھی۔ ہمارا قا فلہ تربیلا پہنچا ہے‘ فقیر حمید خان کے ڈیرے پر افطار کرنے۔ میرے حصے میں 3 کھجوریں‘ مٹی کی پرات میں مونگ کی پتلی دال‘ تازہ گندم کی روٹی اور پکوڑے آئے۔ فقیر نے ہنس کر کہا: یہاں کوئی لیموں پر لڑتا ہے نہ ٹماٹروں پر۔