پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا: جنگ کے میدان میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کیا ٹوٹی کہ دنیا کے جغرافیے ہی بدل گئے؛ چنانچہ اس ایک ایمپائر میں سے بے شمار ملک برآمد ہوتے گئے۔ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں ایسا ہی ایکشن ری پلے سوویت یونین (USSR) کے ٹوٹنے سے پھر ہوا۔ ساتھ ہی سچ کے قتلِ عام کے میدان بھی بڑھ گئے۔ ساحر لدھیانوی نے اپنے انقلابی شاہکا ر ''پرچھائیاں‘‘ میں کہا تھا:
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت و خوں ہی نہیں!
ترقی کے بڑھتے بڑھتے سچ کے قاتلوں کے ہاتھ میں ٹیکنالوجی کا ہتھیار آ گیا۔ آج ایک نئی عالمی جنگ لڑی جا رہی ہے جس کے ماہرین اسے fifth generation war کہتے ہیں جو عرف عام میں سائبر وار کہلائی۔
ہمارا پیارا وطن اس وقت اسی میدان حرب و ضرب کے تین محاذوں کی زد میں ہے۔ پہلا محاذ ... علاقائی ہے جس کے عسکری اور لشکری دو سیکٹروں میں مصروف ہیں۔ اس کا پہلا نشانہ ہمارے مشرقی بارڈر کی لائن آف کنٹرول بنی ہوئی ہے۔ جبکہ دوسرا، ہمارا سیاسی منظر نامہ ہے۔ پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب بھارت فوجی build up میں مصروف ہے جس کا دستاویزی ثبوت انڈین حکومت نے گورنمنٹ آف جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت ، سول سکرٹریٹ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کر کے سوشل میڈیا پر لیک کر دیا ہے۔ سکیورٹی ایڈوائزری آرڈر 881 آف 2019 کے تحت مقبوضہ وادی میں امر ناتھ یاترا پہ آئے ہوئے ہندوؤں کو فوری طور پر نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن 2 اگست کے اس مراسلے کو جاری کرنے سے پہلے ہی پچاس ہزار مزید بھارتی فوجی مقبوضہ وادیٔ کشمیر میں بھجوا دئیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں نہتے شہریوں پر بے رحمانہ گولہ باری بھی جاری ہے جبکہ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں کھلونا بم بھی پھینکے گئے‘ جنہیں ہاتھ لگانے کے نتیجے میں معصوم بچوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ بھارت کی جانب سے یہ تازہ جارحیت وزیرِ اعظم کے دورہ امریکا کے بعد سامنے آئی جس کا ایک خاص پس منظر اس طرح سے ہے کہ عمران ٹرمپ ملاقات کے بعد جونہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا راز فاش کیا‘ بھارت کی جنگی اسٹیبلشمنٹ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ کچھ ہی مہینے پہلے لینڈ سلائیڈ کامیابی کے ذریعے بھارتی انتخاب جیتنے والا مودی یکا یک اپنے سیاسی کیریئر کی شدید ترین تنقید کی زد میں آ گیا۔ ابھی مودی جی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک اور ویڈیو وائرل ہو گئی جس میں ایک بھارتی صحافی کے ساتھ ہونے والی گفتگو یہ ہے: بھارتی صحافی: انڈیا نے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے خیال میں کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان صرف ایک bilateral معاملہ ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ: کیا انہوںنے پیشکش قبول کی یا نہیں؟ یہ بالکل وزیرِ اعظم مودی پر ہے اور میری وزیرِ اعظم خان سے ملاقات ہوئی۔ میرے خیال میں وہ بہترین لوگ ہیں۔ خان اور مودی ۔ میرا مطلب ہے، میں سوچ سکتا ہوں وہ دونوں بہت بہتر طریقے سے ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ چاہیں کہ کوئی مداخلت کرے یا ان کی مدد کرے۔ اور میں نے اس کے بارے میں پاکستان سے بھی بات کی ہے اور بھارت سے پہلے ہی بات کی ہے۔ مگر یہ جنگ کافی عرصہ سے جاری ہے۔ اگر میں کر سکا۔ اگر انہوں نے مجھ سے چاہا تو میں ثالثی کے لیے ضرور مداخلت کروں گا۔
بھارت سرکار اس آدھے سچ پر جینا چاہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ میں ثالثی ، مذاکرات اور رائے شماری کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس آدھے سچ کا دوسرا حصّہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حریت اور آزادی کی وہ تحریک ہے جو 70 سال میں ختم نہیں ہو سکی ۔ جہاں تک بھارتی مقبوضہ کشمیر کے تین حصّے کر کے اسے جموں، لداخ اور کشمیر میں بانٹنے کے بعد کنٹرول کرنے کا خواب ہے، تو وہ کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھارتی پنجاب کے حصّے بخرے کرنے کے باوجود بھی خالصتان کی تحریکِ آزادی پر پانی نہیں ڈالا جا سکا۔
آیئے ! اب ذرا اندرون ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھ لیتے ہیں جہاں چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کرنے کے دعوے دار سرگرم ہیں۔ پاکستان کی عالمی پذیرائی اور مسئلہ کشمیر پر بھارتی سفارت کاری کی پسپائی مانی ہوئی حقیقت ہے۔ پاکستان میں جمہوری طریقے سے منتخب عمران خان کی حکومت کو استحکام حاصل ہے۔ اس وقت ریاست کے سارے سٹیک ہولڈر ادارے اندرونی، بیرونی، علاقائی اور عالمی محاذوں پر ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔
مگر ایک قافلہ اندھیروں کا مسافر بھی ہے۔ پچھلی حکومتوں کے دور میں عہدوں اور ملازمتوں پر براجمان رہنے والے حریت پسندوں کا یہ قافلہ ہر طرف اندھیر نگر ی اور چوپٹ راج دیکھتا ہے‘ تانگے کے آگے جھکے ہوئے گھوڑے کی طرح جس کی دونوں آنکھوںکا ویژن ناریل کی شکل والے کھوپے چڑھا کر محدود کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے تانگہ بان موج سے بیٹھا رہتا ہے اور گھوڑا‘ جس کے توبڑے میں دانہ دنکا پڑا ہوتا ہے‘ پیٹ کی خاطر ارد گرد نہیں دیکھتا۔ جب تک توبڑے میں دانہ باقی رہتا ہے‘ آنکھ کا زاویہ کھوپے کے اندر بند رہتا ہے۔ ذرا ان کے تازہ فرمودات سنیے۔ ایک توبڑا بردار کہتا ہے: پاکستان اجڑ جائے گا۔ کسی کے نزدیک آج کا آئینی نظام ایوب سے مشرف تک کی ڈکٹیٹر شپ سے بد تر ہے۔ چیئرمین سینیٹ جب ان کی مرضی سے بنا تھا تو وہ اپنا بچہ تھا اور الیکٹڈ عہد ے دار۔ جب ان کی مرضی سے عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنا کر اپنی کرسی پر واپس آ گیا تو اب وہی چیئرمین سلیکٹڈ ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی مگر وہ ہے الیکٹڈ۔ جمہوریت رخصت ہو چکی ہے، صحافت کے گلے میں طوق لٹکتا ہے، ٹی وی سکرینوں پر سنسر شپ انسپکٹر بیٹھ گئے ہیں۔ غالب نے یہ کیفیت یوں بیان کر رکھی ہے۔
ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو بد تر از چاکِ گریباں ہے
دل و دیں نقد لا، ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر، متاعِ دست گرداں ہے
یہ آدھا سچ ہے، خواہشوں اور ایجنڈے کی دھول میں لپٹا ہوا۔ اصل سوال مگر یہ ہے کہ سورس آف انکم بتاؤ۔ منی ٹریل دو۔ کس غیر ملکی نے ٹی ٹی بھیجی، اُس کا نام بتاؤ۔ تمہارے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپیہ کس حاتم طائی نے ڈال دیا۔ بے نامی اکاؤنٹ سے پیسہ تمہارے پاس کیسے پہنچ گیا۔
حبیب جالب نے ایجنڈا بردار آدھے سچ پر کیا خوب وار کیا!
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
حریت راہنما سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے حالیہ ٹویٹ میں آزادی پسند کشمیریوں کے لیے اصل خطرے کی نشاندہی کی ہے۔ سید علی گیلانی کہتے ہیں: '' تمام مسلمان جو اس دنیا میں رہتے ہیں ان کو یہ ٹویٹ ضرور ایک SOS (save our souls) میسیج کی طور پر لینا چاہیے۔ اگر ہم سب مر گئے اور تم خاموش رہے تو تم اللہ سبحان و تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہو گے۔ بھارتی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کُشی کا آغاز کرنے والے ہیں۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے‘‘۔
تیسرا محاذ، بھارت مغربی بارڈر سے پراکسی کے ذریعے پھر کھولنے کی کوشش میں ہے‘ جہاں اُسے منہ کی کھانا پڑی۔