"SBA" (space) message & send to 7575

پاکستان اور کیا کرے ؟

اس میں کوئی شک نہیں‘نہ شبہ ہے کہ ماہِ کرب و بلا میں انڈین مقبوضہ وادی ِکشمیر ‘کرب ناک بلائوں کے طوفان میں گھری ہوئی ہے‘ مگرکچھ مشکوک آوازیں اور مدقوق چہرے ایسے بھی ہیں ‘جن کے نزدیک اس الم ناک موقعہ پر پاکستان کچھ نہیں کر رہا۔ کیا یہ سازشی تھیوری درست ہے ؟ اس کا جواب لینے کیلئے پچھلے 35دنوں میںپاکستان کی وہ کاوشیں‘ جوہو چکی ہیں یا ہورہی ہیں ‘ان کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ لیکن آئیے اسی سے متعلقہ دو عدد سوال پہلے دیکھ لیں۔پہلا سوال یہ ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے حق میں پاکستان کے قومی اور بین الاقوامی موقف پر چابک برسانے والے کس سیارے سے اترے ہیں؟ کیایہ لوگ ایوب خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے شریک اقتدار نہیں تھے؟ کیا انہوں نے ان تینوں ادوار میں کشمیر کے ''کاف ‘‘کا نام بھی لیا۔ ماسوائے چندہ مہموں اور ایسی ہر مہم کو ممکن اور کامیاب بنانے والی اشتہاربازی کے۔
دوسرا سوال‘ اُن سے متعلق ہے جن کے طویل دورِ اختیار و اقتدار میںشہرِ لاہور ایشین ہٹلر مودی کے گھر کا بیک یارڈ اور کوہِ مری سجن جندال کیلئے شملہ ہائیٹس بنا رہا۔ سیاسی تنہائیوں اور (rejection) کا شکار یہ چند آوازیں توجہ بٹورنے کے لئے سر گرداں ہیں۔ یا پھر کسی نئی فنڈ ریزنگ مہم کی آمد آمد ہے۔
اس تناظر میں مجھے دو واقعات یاد آرہے ہیں‘ جو آپ سے شیئر کرنے کے قابل ہیں۔ پہلا واقعہ خوفناک ‘جبکہ دوسرا انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہوا یوں کہ بوسنیا کے مسلمانوں کے تکلیف دہ وقت کاایک اشتہار کئی اخبارات میں چھپوایا گیا ۔اشتہار کا مکھڑا کہہ رہا تھا '' ہماری امدادی ٹیمیں کوسوو‘ ہرزیگوینا اور بوسنیا میں پہنچ چکی ہیں‘ جن میں ڈاکٹر ز‘ خیمے‘ کمبل بانٹنے والے‘ نرسنگ سٹاف اور کھانے پینے کا سامان پہنچانے والے شامل ہیں‘‘۔ اس عبارت کے بعد دو تین پاکستانی بینکوں کے اکائونٹ نمبرز اور پن کوڈ شائع کیے گئے تھے۔ان بینک اکائونٹس اور کوڈ نمبرز کو مصیبت میں پھنسے بوسنیائی مسلمانوںکے لئے امدادی اشیا براہِ راست میلادوچ اورکراز وچ کی فوجوں کو چکمہ دے کر (behind the enemy lines)پہنچانے کا فوری ذریعہ بتایا گیا۔
جن دنوں بوسنیا کے مسلمانوں کے خلاف حملوں پہ حملے چل رہے تھے ‘ انہی دنوں میں پاکستان میں ایک اہم محکمے کے سربراہ کو روٹین کے مطابق‘ عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔ سربراہ صاحب بھاگم بھاگ لاہور ہائی کورٹ پہنچے اور جاکر ایک عدد رٹ پٹیشن عدالت عالیہ میں دائر کرچھوڑی۔اس آئینی پٹیشن میں سربراہِ موصوف نے اپنی کئی اور خدمات کے علاوہ یہ بھی لکھ ڈالا کہ وہ مسلمانوں کے لئے عالمی نجات دہندہ ہیں۔ ساتھ ہی اعترافی پیرا گراف‘ جسے جوڈیشل کنفیشن بھی کہا جا سکتا ہے‘ وہ بھی لکھ ڈالے ‘جن کا لُبِ لباب یہ تھا کہ صاحب ِ موصوف بوسنیا کے مسلمانوں کو جہاد کے لئے اسلحہ اور بارود سپلائی کرتے رہے ہیں۔ کچھ برسوں بعد یہ خون آشام جنگ اور مسلمانوں کا قتل ِ عام بند ہو گیا۔ دو ایسٹرن یورپی ملکوں کے بارڈر پہ واقع ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک فرضی ڈاکٹر پکڑا گیا‘جو ایم بی بی ایس کی تربیت اور ڈگری کے بغیر قدیم کلیسائی حلیہ بنا کر میڈیکل پریکٹس کر رہا تھا۔تفتیش کے دوران پولیس اور سپائی ماسٹرز نے اُسے شناخت کر لیا ۔پتہ چلا کہ وہ کوئی اور نہیں‘ بلکہ بوسنیا کے مسلمانوں کا قاتل سربوں کی حملہ آور فوج کا کمانڈر اِن چیف Radovan Karadzicہے۔ یہ بے رحم قاتل جنگی جرائم میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو مطلوب‘ قتلِ عام کا دہشت گرد بھگوڑا ملزم ہے۔جب کرازوچ کوعالمی جرائم کی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے وہی رِٹ پٹیشن‘ جس کا ذکر اوپر آیا ہے‘ اپنے دفاع میں پیش کر دی ۔بھگوڑے سربیائی صدر‘ راڈوان کرازوچ نے اپنے دفاعی موقف میں کہا کہ وہ بیرونی حملہ آوروں اور '' گُھس بیٹھیوں‘‘ کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اور اس سے کوئی جنگی جرم سر زد نہ ہوا ہے‘ نہ ہی (ethnic cleansing)یا طبقاتی قتل ِعام۔ اس واقعہ سے آپ اندازہ لگائیے کہ جو لوگ زبانی‘ تحریری‘ ریڈیائی پرنٹ یا کسی بھی حوالے سے اپنے مطلب کے لئے بیانات کے ہمالہ کھڑے کر دیتے ہیں‘ وہ ملک کے خلاف کیسے استعمال ہوجاتے ہیں۔
دوسری اشتہاری مہم ‘ برما کے علاقے راکھائین میں پہنچ کر مسلم آبادی کی امداد کے دعویٰ داری والی تھی‘ جس کی تفصیل ہم سبھی نے ایسے ہی اخباری اور اشتہاری ذرائع سے پڑھ سن رکھی ہے۔ بر سبیل تذکرہ ‘ انیل مسرت یاد آگئے۔ وہی پاکستانی نژاد برٹش بزنس ٹائیکون انیل مسرت۔ جب سے برما کے مسلمان ہجرتوں کے تکلیف دہ سفر کے بعد بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پہنچے ہیں‘ تب سے انیل مسرت درجنوں بار‘ بغیر کسی اشتہار بازی کے بنگلہ دیش جا کر ان مسلم مہاجروں کو امدادی سامان پہنچا رہے ہیں ۔ بلا شبہ ایسے اور بھی اہل درد ہوں گے‘ جوریاستی بے دردی کے شکار مسلمانوں کے درد کو اپنی سیاست کا اشتہاری سلوگن نہیں بناتے۔
پاکستان کی تاریخ میں ہمیں مسئلہ کشمیر پر سب سے بڑا چیلنج 5اگست2019ء کے دن پیش آیا۔ ہندوتوا کے سیوک بھارتی وزیراعظم مودی کے اس غیر متوقع ‘ یک طرفہ ‘ غیر آئینی‘ اور غیر انسانی قدم اٹھانے کے نتیجے اور تناظر میں قومی اداروں اور حکومت نے فوری سر جوڑ لیے؛چنانچہ ایک سہ جہتی قومی پالیسی مرتب کر لی گئی ‘جس کا پہلا حصہ کشمیر کے ایشو کو عالمی طور پر اجاگر(Globalize) کرنا تھا‘ جبکہ اس پالیسی کا دوسرا حصہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ مکمل یک جہتی کے ذریعے اُن کے حوصلے اور مورال بلند رکھنا ہے۔ اس پالیسی کی تیسری جہت پاکستان میں کشمیریوں کے حق میں مسلسل رائے عامہ کی بیداری پر مشتمل ہے‘ جس کے ذریعے عالمی دارالخلافوں پر مسئلہ کشمیر کے ڈوزئیرز کی بھرمار کرنا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے ‘ پاکستان اور کیا کرے؟ جواب میں ‘ریاست کے دو اہم ترین اداروں کی پوزیشن دیکھنا ہو گی‘ان میں سے پہلا ادارہ وہ ہے‘ جس نے اعلیٰ ترین ایگزیکٹو اتھارٹی کے طور پر فیصلے کرنے ہیں ۔ دو طرح کے فیصلے ۔ پاکستان کے دفاع کے لئے کب اور کہاں use of forceکی ضرورت ہے۔ دوسرے‘ use of forceکے ذرائع اور ٹائمنگ کا فیصلہ۔ اس حوالے سے ملک کے چیف ایگزیکٹو عمران خان نے لفظوں کا قیمہ کئے بغیر اپنے ابتدائی رسپانس میں ہی کہہ دیا تھا کہ ''پاکستان کشمیر کے لئے آخری حد تک جائے گا‘‘ ۔6 ستمبر کو دوسرے ریاستی ادارے آرمڈ فورسز کے چیف نے شہدا کے وارثوں سے خطاب کیا اور واضح طور پر اسی فیصلے کو دہرایا۔ وہ بھی ان لفظوں میں کہ '' پاکستان کی مسلح افواج کشمیر کی آزادی کے لئے آخری فوجی‘ آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گی‘‘۔ ایسا بیان مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج کے بھارتی سربراہ نے بھی کبھی نہیں دیا۔
قوم نے مایوسی کے پیامبروں سے پوچھنا یہ ہے کہ کشمیر کا سودا کس نے کیا ؟ کشمیریوں سے بے وفائی کا طعنہ کسے دیا جا رہا ہے۔
کہاں تک کوئی ان کی ہم نوائی پر ہو آمادہ
یہ ظالم آئے دن اک مخمصہ ایجاد کرتے ہیں
خود اپنی قوم سے جو کچھ کیا‘ ان خردہ گیروں نے
اُسی کی آڑ میں ہنگامہ و فریاد کرتے ہیں
کچھ ایسے باغباں اس مادرِ گیتی نے پالے ہیں 
جوہر شاخِ نشیمن رہنِ برق و باد کرتے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں