وہ سارے حکماء، ادباء، اطباء، سفراء بلکہ شمس الحکماء، قمر الادباء‘ من فراشٍ الیٰ تحت الثرٰی Pride of performance کے مستحق ہیں۔
پتہ نہیں کس کس کا شکریہ ادا کیا جائے جن کی سِراً و علانیۃً محنت کے نتیجے میں جمہوریت ''ٹرانسپورٹ‘‘ ہو گئی۔ وہ بھی ماوراء النہر یعنی سات سمندر پار۔ لاہور سے ہیتھرو ائیر پورٹ‘ 8,362 کلو میٹر دور جزیرہ انگلترا کے وسط میں واقع مے فئیر تک۔ جمہوریت بھی ایسی، جسے دیکھ کر گرگٹ رنگ بدلنا بھول جائے۔ موسم اپنی چال سے اور بلی کیٹ واک سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دے۔
ووٹ کو ملنے والی ایسی عزت، صرف ایک ہی عزت دار گھرانے کے حصے میں آئی ہے۔ میرا ایک سابقہ کلائنٹ اور دوست، دل میں 5 سٹنٹ ڈلوا چکا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی میں deformity علیحدہ سے۔ تینوں وقت انسولین کا ٹیکہ اور پھر کھانا۔ پارکنسن ازم اور نجانے کیا کیا۔ عمر بھی ٹرانسپورٹ شدہ جمہوریت جتنی لیکن نہ ہی 'نکالا‘ پر 'مجھے کیوں نکالا‘ کا شور مچاتا ہے۔ نہ ہی 'ڈالا‘ پر 'مجھے نکالو‘ کے ترلے کرتا ہے۔ ووٹ کو عزت دینے والی ایک مشہور جوڑی کی 3 تقرریں یاد آ رہی ہیں۔ ان تینوں تقاریر کے کلپس آج کل پھر سوشل میڈیا اور سمارٹ فون پر وائرل ہیں۔
پہلی تقریر، پاکستان واپسی سے ایک دن پہلے 11 جولائی 2018 کو سنٹرل لندن میں ورکرز کنونشن سے میڈیا ٹاک کی صورت میں ہوئی۔ ان دنوں ووٹ کی عزت کے گاڈ فادر اور ووٹ کی عزت کی جانشین‘ دونوں ''عزتیہ بیانیہ‘‘ کو پھیلانے کے مشن کا جہاد کر رہے تھے۔ کاغذ پہ لکھی ہوئی 30 منٹ کی تقریر کے خوش بیانیہ کو سچ کا جادو کہہ لیں۔ پاکستان میں 3 دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ڈس مس ہو کر گھر جانے والے نا اہل وزیر اعظم نے بات ان لفظوں میں آگے بڑھائی۔
''... پاکستان میں سب سے بڑا ظلم یہی ہو رہا ہے کہ قانون اور انصاف کے کئی کئی پیمانے بنا دئیے گئے ہیں۔ کئی کئی ترازو ایجاد کر لئے گئے ہیں۔ لاڈلوں اور چہیتوں کو کسی ترازو میں تولا جاتا ہے اور ہمیں کسی ترازو میں۔ یہ دوہرا معیار کب تک چلے گا۔ آئین اور قانون کا یہ مذاق کب تک اُڑایا جاتا رہے گا۔ عوام کو چاہیے کہ مجھے اڈیالہ جیل بھیجنے پر بھنگڑا ڈالنے والوں سے پوچھیں کہ تم جواب دو ان سوالوں کا۔ بتائو کہ جس شخص کا پانامہ لیکس میں نام تک نہیں اس پر مقدمے کیسے بنا دئیے گئے۔ بتائو کہ جس پٹیشن کو فضول اور بے معنی کہہ کر پھینک دیا گیا تھا وہ اچانک اتنی مقدس کیسے بن گئی۔ بتائو کہ اس نوعیت کے کسی اور کیس میں بھی کبھی اس طرح کی جے آئی ٹی بنی ہے۔ بتائو کہ کیا اس طرح کے معاملات کی جے آئی ٹی میں کبھی خفیہ ... (Inaudible)... بتائو کبھی اس طرح چوری چھپے وٹس ایپ کال کے ذریعے من پسند افراد کبھی چنے گئے۔ بتائو ہزاروں صفحات پر مشتمل پریس کلپنگز کس نے تیار کیں۔ بتائو کہ تحقیقات کے نام پر اپنے رشتے دار کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دینے والے جے آئی ٹی کے سربراہ کے خلاف کیا کارروائی ہوئی... بتائو کسی اور کے بارے میں بھی اتنی تیزی سے کارروائی مکمل کرنے کا حکم جاری ہوا ہے۔ بتائو کہ کسی اور نیب ریفرنس میں بھی اس طرح روزانہ کی بنیاد پر کارروائی چلی ہے۔ بتائو کہ پاکستان میں کسی شخص نے کسی قانون میں‘ کسی بیٹی نے 100 سے زائد پیشیاں بھگتی ہیں؟ اور بتانا چاہو تو یہ بھی بتا دو کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں کون ہے وہ شخص جو 11 سال قید با مشقت کی سزا سن کر بھی وطن واپس آیا ہو۔ پاکستان کی تاریخ میں ہے کوئی بیٹی جو 8 سال قید با مشقت کی سزا سن کر وطن واپس آئی ہو۔ یہ سوال جواب مانگتے ہیں۔ ان سوالوں کو ٹالا نہیں جا سکے گا۔ وہ نقاب پوش بھی سامنے آئیں گے جو جے آئی ٹی کے پیچھے بیٹھ کر ڈورے ہلا رہے تھے اور ان چالیس افراد کے چہرے بھی سامنے آئیں گے جو اس جے آئی ٹی کے اصل کارندے تھے۔ اور ان لوگوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوں گے‘ جو ان آنے والے الیکشنز میں من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے ملک کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔ کوئی چہرہ پاکستان کے چہرے سے زیادہ مقدس نہیں ہے۔ اب پردے ڈالنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اب پردے اُٹھانے اور حقائق قوم کے سامنے لانے کا وقت آ گیا ہے‘‘۔
اب آئیے اس تقریر کے اس پیرا گراف کی طرف جس میں نواز شریف نے مزید صبر اور چُپ رہنے کو پاکستان سے غداری قرار دیا۔ نواز شریف بولے ''میں نے بہت ضبط کیا ہے۔ میں نے بڑے صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔ لیکن اب زیادہ دیر تک چپ رہنا اس قوم سے غداری ہو گی۔ قائد اعظم کے پاکستان سے غداری ہو گی اور بیس کروڑ عوام سے غداری ہو گی۔ آنے والی نسلوں سے غداری ہو گی‘‘۔
دوسری تقریر بھی فادرِ عزت برائے جمہوریت اور جانشین صاحبہ کی جوڑی نے اکٹھے بیٹھ کر کی جس میں ووٹ کو عزت تقریباً ان ہی لفظوں میں دی گئی۔
تیسری تقریر جیل جانے کے بعد ایک تاریخِ پیشی پر دورانِ حراست کی ہے جس میں ووٹ کو عزت دینے کے اس بیانیے کی ہیٹ ٹرک بنی۔ فرمایا ''یہ صرف اور صرف 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہی وہ 'ووٹ کو عزت دو‘ ہے جو پاکستان کی عزت دنیا میں بڑھائے گا۔ اور ہم نے دنیا میں عزت کمانی ہے تو اپنے لوگوں کو پہلے عزت دینی ہو گی۔ ووٹ کو عزت دینی ہو گی۔ اور اگر یہ سمجھتے ہیں کہ 'ووٹ کو عزت دو‘ والوں کو جیلوں میں بھرنا ہے تو ہم اس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم دن کو رات، رات کو دن کہنے والے لوگ نہیں۔ ہم 'ووٹ کو عزت دو‘ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کل بھی ڈٹے ہوئے تھے۔ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور انشاء اللہ آنے والے کل میں بھی ڈٹے رہیں گے۔ آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جو غیرت مند قومیں ہوتی ہیں وہ کبھی اصولوں سے (پیچھے) نہیں ہٹتیں‘ اور نتائج کی پروا نہیں کرتیں‘‘۔
ان 3 تقاریر کے بعد بیماری کا winterfall سیزن شروع ہوا۔ ووٹ کی عزت والی جوڑی نے ''عزتیہ بیانیہ‘‘ سے ایسے توبہ کی جیسے جوگی جلی ہوئی بستی سے بھاگ نکلتا ہے۔ کہاں وہ دور کہ ''حکمران خاندان‘‘ کی ''اکیلی وارث‘‘ خاتون کہہ رہی تھی ''جیل کے اندر سے بھی نواز شریف کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بولیں گے، اس وقت تک بولتے رہیں گے جب تک اس ملک میں ووٹ کو عزت نہیں مل جاتی‘‘۔
winterfall کا اگلا سیزن قطری جہاز کے پھیروں سے شروع ہوا۔ کئی مذاہب میں پھیرے ازدواجی بندھن کے لئے مارے جاتے ہیں۔ مگر یہ اقتصادی بندھن والے پھیرے تھے۔ اسی لئے 7 نہیں بلکہ کوئی 23 سے 27 مرتبہ یا یوں کہہ لیجیے درجنوں مرتبہ قطر سے جہاز آتے رہے۔ اس سارے عرصے میں جمہوریت کو عزت دینے والی جوڑی نے منہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ زیادہ کھانے والے لوگ کم از کم ڈکار لینے کے لئے تو منہ کھولتے ہیں‘ یہاں تو کسی نے ڈکار کی آواز تک نہیں سنی۔ دونوں کی تاریخ پیشیاں جاری رہیں لیکن ''عزتیہ بیانیہ‘‘ والا software تبدیل ہو گیا۔ ہمارے وہ مہربان جن کے نام ''عزتیہ بیانیہ‘‘ کا ٹھیکہ نکلا تھا وہ ''رخصتیہ بیانیہ‘‘ کی طرف چلے گئے۔ رخصتی کا آخری سین مفرور سمدھی کے بیٹے نے چند گھنٹے پہلے بیان کیا ''مریم سے زیادہ کسی کو نواز شریف کی بیماری کا علم نہیں۔ اُنہیں فوراً لندن پہنچانا ہو گا‘‘۔
پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا