یہ تین اداروں کا مشترکہ اجتماع تھا۔ پوٹھوہار کے سب سے پہلے پرائیویٹ لاء کالج نے میزبانی کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ دوسرا اور غیر سیاسی تنظیم ''حی علی الفلاح‘‘ اس کا تیسرا پارٹنر۔ مقبوضہ کشمیر‘ انسانی حقوق اور اسلامو فوبیا موضوعات تھے۔ مجھے کی نوٹ سپیکر (Keynote Speaker) کی حیثیت سے بلایا گیا۔ میں نے ایک نکتہ یہ اُٹھایا کہ کس قدر ستم گری ہے‘ ہم نے شکم پُری (معاشی مجبوری) اور مطلب براری (سیاسی مجبوری) کے لیے محسنِ انسانیت ﷺ کی اُمت ‘ اپنا اسلامی جمہوریہ اور انسانی قدروں کو تفرقہ زدہ اور Partitioned یعنی تقسیم شُدہ سوچ کے تابع کر ڈالا ہے۔
ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ کبھی آپ نے سوچا مسلم زمینوں پر چڑھ دوڑنے والے توسیع پسند ٹینک‘ مسلم آبادیوں پر برسنے والے ڈرون کے راکٹ‘ کارپٹنگ بمبارڈمنٹ اور B-52 سے دھاڑنے والے ڈرٹی بم ہم سے سیانے نکلے ۔ وہ کسی تقسیم کے بغیر آتش و آہن برساتے وقت پوری مسلم آبادی کو اسلامی شدت پسند کہہ کر عین نشانے پر گرتے ہیں اور ہم جسے اُمتِ واحدہ (A united nation) کہہ کر پکارا گیا ‘ اپنی عبادت گاہوں کے باہر اپنی اپنی معاشی اور سیاسی تقسیم کا عنوان لکھ کر لٹکاتے ہیں ''اللہ کا گھر‘‘ نہیں لکھتے۔
آئیے اپنے آج کے سماج کے ایک کھلے پہلو پر نظر ڈالیں‘ جسے اکثر نظر انداز کر کے تجزیے کیے جاتے ہیں اور وہ یہ کہ کوئی واقعہ ہو ‘ سانحہ یا واردات ‘ ہم سٹریٹ جسٹس کے لیے اپنا اپنا ایوانِ عدل سجا لیتے ہیں۔ چیختی سُرخیاں ‘ چِلّاتے اینکرز اور مغز کا مصالحہ بنا کر کھا جانے والے تجزیہ گر‘ سب اپنے اپنے رنگ کی صفِ ماتم بچھا لیتے ہیں۔ تجزیہ کرنے دو لوگ بیٹھیں یا دو درجن اکٹھے کر لیں‘ مناقشہ ہو یا مباحثہ ‘ ہمیشہ سے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ اتفاقِ رائے یا کسی کی بات کو درست کہنے کا تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ارسطو‘ ہر کاری گر افلاطون اور ہر کلاکار فاتح بننے کے بعد ہی میک اپ اُتارتا ہے۔
مغرب کی وہ فلاحی ریاستیں اور معاشرے‘ جن کی شکل دیکھ کر ہم نے اپنے لیے راج نیتی کا موجودہ ماڈل بنایا ہے‘ اُن کے ہاں کچھ بنیادی ‘ نا قابلِ تردید اور مسلمہ اُصول طے شدہ ہیں‘ جن کی خلاف ورزی قابلِ گرفت بھی ہے اور قابلِ تعزیر بھی۔ ان میں سے پہلا اُصول ‘ ہر کسی کو بات کرنے کا حق ہے اور دوسرا یہ کہ Queen of England پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں۔ ہائیڈ پارک کے shouting corner میں بھی نہیں‘ جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ سماج یا ریاست کی پہلی اینٹ نما بنیادی قدروں کو تحفظ دیا گیا۔
انہی ریاستوں میں کہیں Bill of Rights اور کسی جگہ میگنا کارٹا کو مستقل تقدیس مل گئی ۔ اپنے ہاں‘ میری رائے رہنے دیں‘ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سارے جیورسٹ ‘ تمام ججز اور پورے پاکستان کے وکلاء سے زیادہ بڑے آئینی ماہر‘ غیر آئینی نوحہ گر ہیں۔ جنہوں نے دنیا کے سارے زمینی‘ آسمانی‘ غیبی علوم حاصل کر رکھے ہیں‘ لیکن literally قانون کی ''قاف‘‘ اور آئین کا '' آ‘‘ تک نہیں پڑھا۔ ایسے بلا مقابلہ ماہرین کا تبصرہ بھی حرفِ آخر ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ۔ جس کی قوتِ نافذہ آئین کے آرٹیکل نمبر 189 کے مطابق ملک کی ساری جوڈیشل اور ایگزیکٹو اتھارٹیز تک پھیلی ہوئی ہے۔ آئین‘ قانون‘ گورننس‘ معاشیات ‘ سماجیات‘ ماحولیات‘ آرٹ‘ انجینئرنگ‘ جنگی دائو پیچ‘ سفارت کاری‘ بین الاقوامی امور‘ جیسے تمام قومی اہمیت کے subjects پر ان تجزیہ گروں کی رائے حتمی اور آخری ہے۔
یہ تجزیہ باز جب بیٹھیں گے‘ ان امور کے شناور کو بلائیں گے ضرور‘ ایسے شناور جنہوں نے 3/4 عشرے کا وقت لگا کر ان سبجیکٹس میں سے کسی ایک میں specialization حاصل کی‘ مگر اُن کی بات کبھی پوری نہیں سنیں گے‘ بلکہ آخر میں extro اس طرح سے دیں گے: بہر حال یہ تو تھی ان کی رائے جس سے میں 100 فیصد مطمئن نہیں ہوں کیونکہ میرے خیال میں کوّا سفید اور دودھ کالا ہوتا ہے۔ میں نے کوئی سودے باز نہیں کہ اپنی رائے کو تبدیل کرتا پھروں۔ آپ کا یہ دبنگ تجزیہ گر نہ کبھی جھکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے ''مقامی کرنسی‘‘ میں خرید سکتا ہے۔
مسائل دنیا کے کس ملک‘ کس شہر یا کس سوسائٹی میں نہیں پائے جاتے؟ دنیا کا کوئی سماج کبھی کرائم فری نہیں رہا‘ لیکن ہر واقعے پہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی ریاست کا کوئی باشندہ ریاست کے ناکام ہونے کا ڈیکلریشن جاری نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے جملوں کو اپنے یہاں lighter نوٹ سمجھا جاتا ہے: ''قائد اعظم آج پاکستان بنانے پر پچھتا رہے ہوں گے‘‘، ''علامہ اقبال کہتے ہوں گے کاش! میں نے یہ خواب نہ دیکھا ہوتا‘‘۔ ''یہ بھی کوئی ملک ہے‘‘۔ خالص ان پڑھ‘ زبان و بیان کے علوم سے کوسوں دُور پرے رہنے والے خواتین و حضرات کو ذرا سی کیمرہ سپاٹ ملے تو وہ اپنی ہی دھرتی ماں کو نا قابلِ رہائش کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ ''ہمیں ایک نئے آئین کی فوری ضرورت ہے۔ جو میں سب سے اچھا بنا سکتا ہوں‘‘۔ آپ کو یہ پیغام ہر روز سننے کو ملے گا۔
ایک آدھ ضلعے کی پارٹیاں‘ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والے‘ سب کے پاس 22 کروڑ لوگوں کی حمایت بھی ہے‘ اور سارے مسائل کا ایجنڈا بھی‘ لیکن ان مسائل کا حل اور ان مشکلات کا علاج کیا ہے؟ قوم کو کوئی نہیں بتاتا۔ جن لوگوں نے سکندر مرزا کو آمریت کا پہلا Land mark سمجھا وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے فدائی بن گئے‘ جن کے نزدیک آغا محمد یحییٰ کی حکمرانی اسلامی نظام کا نقطۂ آغاز تھا‘ وہ جنرل ضیاء صاحب کی وزارتوںکے جُھولے میں جا بیٹھے‘ جو لوگ گلے پھاڑ کر سیاسی جلسوں میں ''مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرے مارا کرتے تھے انہوں نے پاکستانی تاریخ میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف پرویز مشرف کی وردی کو مشرف بہ جمہوریت کرنے کا ووٹ دیا۔ ساڑھے نو سال اپنے تئیں سیّد زادے کے ہم رکابِ اقتدار ہونے کو اعزازی تلوار سمجھا۔ ان دنوں وہ اُسے High Treason یعنی سنگین غداری میں جلد سزا ملنے کے بھاشن دیتے پھرتے ہیں۔ کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ سہولت کاروں کو سزا کون دے گا؟
کسی حد تک ابتدائی غلطی رفتہ رفتہ مانی جا رہی ہے کہ سماج گھاٹی کی طرف دوڑ نکلا ہے‘ لیکن اس کا علاج کیا ہے کہ ہم سب کی انگلیاں ایک دوسرے کی طرف اٹھی ہیں۔ گریبان کا آخری بٹن بھی بند ہے۔ کیا ہم سب صحیح ہیں؟ ہم سب ہی سچے ہیں اور راست باز‘ گویا یہ سماج کوئی چِڑیا‘ چیل‘ کوّا ہے‘ جو آتا ہے اور گندگی پھینک کر بھاگ نکلتا ہے۔ اگر سب ٹھیک ہے تو پھر غلط کیا ہے؟
اگلے دن قصاص‘ دیت کے قانون میں اکراہِ ناقص اور اکراہِ تام پڑھا۔ وہ جو کسی کو جُرم کرنے پر مجبور کر ے اور وہ جو کسی کو جُرم کرنے کے لیے دیوار سے لگا دے۔ ہم وہ بول رہے ہیں جو چلتا ہے‘ وہ دکھا رہے ہیں جو بِکتا ہے۔
طاقت ور ابّا اپنے بیٹوں کا جواب دار نہیں۔ طاقت ور خاوند بیوی بچوں کے مال کی جواب دہی کیوں کرے؟ سارے سچے‘ سارے راست باز‘ صادق اور امین کہتے ہیں ابا زُعمِ پارسائی میں دوسروں کو راست بازی کے لیکچر دے‘ بیٹے پر گُم راہی کا الزام آئے تو ذمہ دار ہو گا ماموں۔
تجزیہ کرنے دو لوگ بیٹھیں یا دو درجن اکٹھے کر لیں‘ مناقشہ ہو یا مباحثہ ‘ ہمیشہ سے نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ اتفاقِ
رائے یا کسی کی بات کو درست کہنے کا تو سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر شخص ارسطو‘ ہر کاری گر افلاطون اور ہر کلاکار فاتح بننے کے بعد ہی میک اپ اُتارتا ہے۔