چلئے6ٹن حسنِ گمان ڈال کر مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہوگا!مگر گمان بڑھتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سوال بھی۔ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے چار مہینے میں قوم‘ ملک‘ سلطنت‘سیاست اور ریاست کے بارے میں۔ اتنے گمان سامنے آئے ہیں کہ ان کا اپنا حسن ماند پڑگیا‘حسن ِگمان کی توجیہ نہیں دی جاتی۔بلکہ ریاست کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈر جو ملک کے شہری ہیں‘اُنہیں سوالوں کا جواب چاہئے ہوتا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کیسے سوال؟
سوال نمبر1:میزائل والا سوال: یہ ہو کیسے سکتا ہے ؟کوئی یہ تو سمجھائے۔دہلی سے جڑے ہوئے ہریانہ کے جنگل میںBallistic missileکیا آوارہ پھرتے رہتے ہیں؟نہ کوئی کمانڈ اینڈ کنٹرول‘نہ کوئی distinctٹاپ سیکرٹ کوڈ۔ نہ ہی کوئی اوپننگ key۔نہ لانچنگ پیڈ‘نہ میزائل آپریٹر اور نہ ہی اس سارے سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا کوئی نگران آفیسر۔ بھارت کا جہاں گرد بیلسٹک میزائل جہاں چاہے چڑھ دوڑے۔ جدھر کو چاہے اُڑان بھر لے۔نہ اُس میں Targetاَپ لوڈکیا گیا۔نہ programming پاکستان کی طرف ہوئی۔یہ محض اتفاق تھا یاAccidental Flight تھی کہ وہ پاک -انڈیا بارڈر کراس کر کے پاکستان میں گھس آیا۔ یہ بھی کیا اتفاق ہی تھا کہ اُس نے ساتھ والے ہماچل پردیش کے چین انڈیا بارڈر کی طرف اُڑان نہیں بھری۔پھر تو یہ بھی عینaccidentہوگا کہ وہ سری لنکا‘ بنگلادیش‘سکم -بھوٹان کے بارڈر بھی بھول گیا تھا۔یہ ''سادہ‘‘ سا میزائل پاک انڈیا بارڈر کراس کرکے 125کلومیٹر کی فلائٹ لے کر پنجاب کے سنٹرل علاقے چونیا ں میں آلگا۔
سوال یہ ہے کہ وزارتِ خارجہ نے ہماری فضائی اور زمینی سرحدوں میں در اندازی پر بھارتی سفیر کو طلب کیا۔کوئی ڈی مارشے‘ نا پسندیدگی کے اظہار کے لیے جاری کیا۔ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے سے رابطہ کیا۔یو این میں یہ مسئلہ اُٹھایا ؟
سوال نمبر 2:انڈین طیاروں کا سوال:''امپورٹڈ‘‘ رجیم چینج کے بعد صرف چارمہینے میں چارعدد انڈین طیارے کس ایئر بیس یا ایئر پورٹ سے اُڑے تھے ؟کراچی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے وہ کہاں جا رہے تھے ؟ ان ہوائی جہازوں میں کیا خرابی پیدا ہوئی‘جس کی وجہ سے انہوں نے کراچی ایئر پورٹ پر اُترنے کی اجازت مانگی ؟شہری ہوابازی کے ادارے یا منسٹری آف ڈیفنس‘ دونوں میں سے کس نے ایک کے بعددوسرا‘پھر تیسرا اور چوتھا انڈین جہاز کراچی میں لینڈ کرنے کی اجازت دی؟ان جہازوں میں کون سی Technical Faultآیا جو پاکستان کے کراچی ہینگر میں دور کیا گیا؟بھارت کے ان چارہوائی جہازوں کی نوعیت کیا تھی‘کمرشل فلائٹ‘چارٹرڈ فلائٹ‘سولین یا کسی ادارے کے جہاز تھے؟10 ٹن اور حسنِ گمان شامل کرلیں۔تب بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے۔
سوال نمبر 3:ڈرون حملے اور ہماری فضائی حدود:ہمارے انفارمیشن سسٹم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ''ڈس انفارمیشن‘‘ اس کا پہلا اور آخری عشق ہے۔اُدھر مغرب میں کوئی سٹوری چھپی۔ ادھردھڑ ا دھڑ اسے پھیلایا جانے لگا۔دوسری خوبی یہ ہے کہ انگریزی استعمار کی زبان ہے۔اس لیے ہم نے اُس سے بدلے لینے ہوتے ہیں‘لہٰذا اصل سٹوری پڑھنا حبّ الوطنی کے خلاف ہے۔ اس لیے جو پہلی بازی لے گیا‘باقی نے اُسی کو نقل کرنا ہے۔افغانستان میں مصر کے الظواہری کو مارنے کے لیے ڈرون حملے کے بعد سے بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔اس حوالے سے ہمیں مغرب کی سٹوریز اور Conspiracy Theoriesکی طرف جانے کی ضرورت ہر گز نہیں۔لیکن عام شہری اس حملے کے بعد فکر مندی اور درد مندی سے کئی سوال اُٹھا رہا ہے‘جس پہ سائیفر زدہ'' امپورٹڈ‘‘حکومت پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کہیں پھر سے پاکستانی ایئر سپیس امریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال تو نہیں ہورہی؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کا اصرار ہے کہ ہمیں افغانستان تک ائیر سپیس کوریڈور مل چکا ہے۔فرض کرتے ہیں کہ امریکن ایڈمنسٹریشن کے نام پہ کسی نے جھوٹ بولاہے یا فیک نیوز چلائی گئی تواس پر فارن آفس کی خاموشی اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔نہ ہی اصل سوالduckکرکے روٹین کے کسی بیان سے لوگوں کا دلی سکون بحال ہوگا۔وجہ صاف ظاہر ہے۔90,000شہیدوں کے زخموں سے چور لاشے کسی قوم کے لیے کم نہیں ہوتے۔ان قربانیوں کا بنیادی سبق یہ تھا کہ ہم کسی کی پراکسی وار کیوں لڑیں؟وہ بھی ایسا War Coalition Partnerجس نے ہمیں چارعشرے سے زیادہ‘ دومرتبہ بری طرح استعمال کیااور ہمیں ٹشو پیپر جتنا اہم بھی نہ جانا۔جسے پھینکنے کے لیے Dustbin استعمال کیا جاتا ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے تازہ انخلا میں پاکستان کی خدمات پہ تشکر کے بجائے امریکہ کے اظہارِ تکبر کا مزہ ہم سب نے چکھا۔
ابھی چاردن پہلے امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر مادام Nancy Pelosiنے تائیوان کا دورہ کیا۔تب سے اب تک چین نے اپنے جغرافیائی کلیم کے حق میں قومی غیرت کا وہ مظاہرہ کیا جس نے شرق و غرب کو ششدر کردیا۔اپنے ہاں‘ 100کروڑ ٹن حسنِ گمان ڈال کر بھی ہم ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔چین پر نہیں ''امپورٹڈ‘‘رجیم پرجس کے وزیر اعظم کا بیٹا لندن میں بیٹھ کر کہتا ہے‘ہم عمران خان کو پاکستان سے بھاگنے نہیں دیں گے۔
آج صدرعارف علوی صاحب نے لندن کی گول میز کانفرنس سے نایاب تصویر شیئر کی جس میں مصورِ پاکستان اور بانیٔ پاکستان ساتھ ساتھ تشریف فرما ہیں۔وہ یقینا اپنے تصور اور اُس کی تعبیر کو دیکھ کر سوچتے ہوں گے۔ کیا مائونٹ بیٹن کو اس لیے واپس بھجوایا‘کہ اب ہمیں کسی اور غربی ملک کے وائسرائے کا استقبال کرنا تھا۔
کچھ سوال یوں بھی ہیں:
ریاست سو رہی ہے!
یہ کس ڈھب کی سیاست ہورہی ہے؟
وطن ہیجان میں ہے اور ریاست سو رہی ہے
یہیں جوتے اُتارو‘ہاتھ باندھو‘ سر جھکائو
بڑے ایواں میں‘ ڈالر کی عبادت ہورہی ہے
ادارے‘مہربانوں کی غلامی میں جتے ہیں
سرِ مکتب‘ضمیروں کی تجارت ہورہی ہے
نہ کوئی غم‘ کسی کے‘ بھوکا سونے کا کسی کو
وہ جائے بھاڑ میں خلقت‘ جو پھر سے رو رہی ہے
مرے بابر‘ میرے اعوان‘ تم بھی مان جائو
یہ جو کچھ دیکھتے ہو صرف خدمت ہورہی ہے