اِن سائیڈر دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک‘ خانہ ساز اور اندر کی خبر رکھنے والے۔ دوسرے ہیں کارپوریٹ دنیا کے اِن سائیڈرز یعنی ایسے دلال جو منی لانڈرنگ کرنے والی کمپنیوں کے کاروبار کو Kick لگانے کے لیے کمپنی کے باہر سے گاہگ نہیں ڈھونڈتے‘ کمپنی کے اندر ہی 'اِن سائیڈٹریڈنگ‘ کرکے اُس کا پورٹ فولیو بڑھانے کی فن کاری جانتے ہیں۔ یہ والا کاریگر دونوں ندیوں میں تیرتا ہے۔ پاکستانی بھی اور انگلستانی بھی۔
آپ سوچتے ہوں گے اِن سائیڈرز کا ذکر کہاں سے آگیا؟ ان دنوں اتنے زیادہ ''آئوٹ سائیڈرز‘‘ وطنِ عزیز کے اِن سائیڈر ہو چکے ہیں کہ بس خدا کی پناہ۔ نواز شریف بھائی کے وزیراعظم ہونے کی وجہ سے اِن سائیڈر ہے جبکہ عدالتی مفرور ہونے کی وجہ سے آئوٹ سائیڈر۔ ویسے آپس کی بات ہے اب فاصلے کچھ زیادہ اہم نہیں رہ گئے۔ کمرشل فلائٹ ہو تو انگلستان ساڑھے سات‘ آٹھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ سرکاری خرچ پر اُڑنے والا مفتا مفتی کا ڈریم جیٹ ہو تو فاصلے محسوس ہی نہیں ہوتے۔
نواز شریف کی لندن روانگی والے پلان A کا‘ کلائمیکس قوم نے مسلسل دیکھ رکھا ہے۔ اس دوران خاندانِ شریفاں‘ محلہ اقتداریہ اور منی لانڈرنگ کالونی کا منظر بھی دیکھا۔ جہاں درجہ بدرجہ ہر مفرور‘ سارے مطلوب ایک ہی منترا گاتے نظر آئے۔ یہی کہ ہم سب مریض ہیں۔ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کی کمنٹری کون بھول سکتا ہے‘ مگر جونہی فری فلائٹ والے ڈریم جیٹ کے انجن کو چابی لگی نواز شریف جیٹ رفتار سے صحت مند ہوکر طیارے کی سیڑھیاں چڑھ دوڑے۔ اتنے رنگ‘ اس تیزی سے بے چارہ گرگٹ بھی نہیں بدل سکتا۔ بقول شاہ نیاز احمد بریلوی ؎
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
کہیں ہے بادشاہِ تخت نشیں
کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا
کہیں عابد بنا کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا
نواز شریف کی واپسی کے لیے جو پلان B بنایا گیا‘ اس کے پیچھے ایک اور واپسی بھی چھپی ہوئی تھی۔ اپنے زمانے کے ٹارزن کی واپسی۔ آپ اتنا فیصلہ تو خود کرلیں‘ ان دونوں میںسے بڑا ٹارزن کون ہے۔ شہرِ اقتدار کے سینہ گزٹ بتاتے ہیں کہ نواز واپسی کے پلان Bکو ان تین مرحلوں میں ترتیب دیا گیا۔
نمبر1: پلان B کا پہلا مرحلہ: نواز شریف کی واپسی کے پلان کا ابتدائی مرحلہ پنجاب سے شروع ہوا جہاں پر زور زبردستی کے الیکشن کے ذریعے شہباز شریف کا بیٹا سی ایم بنا۔ پلان کے مطابق نواز شریف کے لیے ہوم ڈپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب کو رائیونڈ محل کو سب جیل کی کیٹیگری میں شامل کرنا تھا۔ جس کے فوراً بعد نواز شریف لاہور میں شاہانہ لینڈنگ کرتے۔ پھر ریڈ کارپٹ پر چلتے ہوئے وی وی آئی پی لائونچ کے ذریعے سیدھے سب جیل یعنی رائیونڈ محل پہنچ جاتے۔ جہاں وہ پھر سے ' قید‘ کاٹنا شروع ہو جاتے۔ اس کے لیے چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کے حق میںسندھ ماڈل Chooseکیا‘ جیسے سپیکر سندھ‘ سابقہ صوبائی وزرا اور وفاقی وزیروں نے ساری حوالات اپنے گھر میں کاٹی یا ہسپتال کے وی آئی پی کمروں میں۔ چونکہ ان گھروں اور کمروں کو سندھ صوبائی حکومت نے سب جیل قرار دے رکھا تھا اس لیے عدالتیں اس طرح کی شریفانہ قید پر ریمارکس دینے سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ عدالتیں ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ اس پلان B پر عمل سے پہلے ہی پاکستان تحریکِ انصاف سپریم کورٹ چلی گئی۔ موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کا مقدمہ ہم نے لڑا۔ پلان B کو Coverکرنے والا الیکشن شیڈول کینسل ہوگیا جس کے نتیجے میں17جولائی کو صوبائی اسمبلی کے 20حلقوں پر الیکشن ہوا۔ پنجاب میں نواز واپسی کے مہرے کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر آخری الیکشن کا دوسرا رائونڈ آیا۔ اور حمزہ شہباز کو کرسی سے یوں اُٹھایا گیا‘ جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ اس طرح سے وہ بانس ہی ختم ہوگیا جس میں سے آوازِ واپسی کی بانسری بجائی جانی تھی۔
نمبر2: پلان B کا دوسرا مرحلہ: اس مرحلے میں شہرِ اقتدار اور اس کے گردو نواح میں رائیونڈ محل جیسے فارم ہائوس کی تلاش شروع ہوئی۔ نواز شریف واپسی پلان Bکے پہلے مرحلے کی ناکامی کے بعد سخت مشتعل تھے۔ اس اشتعال میں پنجاب‘ جسے وہ اپنا Strong Hold کہتے تھے، انہیں وہاں تین عشروں کے بعد جس شکست فاش سے دو چار ہونا پڑا‘ کا فیکٹر بھی شامل تھا۔ خیرسے ضمنی الیکشن میں‘ جو عمومی طور پر حکومتِ وقت جیت جاتی ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب نواز شریف کا بھائی وزیرِ اعظم اور پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ سگا بھتیجا تھا‘ نواز شریف کا شیر پِٹ گیا۔ سخت غصے کی حالت میں نواز شریف نے مختلف طاقتوروں کو لندن طلب کیا۔ جہاں اس پلان کی تازہ واردات پلان ہوئی۔
نمبر3: پلان Bکی آخری واردات: شریف فیملی نے آئین روند ڈالا مگر الیکشن میں شکست کھائی۔ احتساب کا قانون بدل دیا مگر مقدمے اب بھی بھوت کی طرح ان کا پیچھا کررہے ہیں۔ اس لیے اب وہ فاشزم کی آخری سیڑھی پر چڑھ چکے ہیں۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے گِلم جِم کو سمجھنا پڑے گا۔گِلم جِم افغانستان میں امریکہ نواز جنرل رشید دوستم کے دھڑے کا نام تھا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ہے Roling carpet۔ افغانستان سے پہلے امریکہ نے ویت نام کی جنگ میں یہ تکنیک اپنائی تھی۔ اس کا مطلب ہے وحشت و دہشت کی ایسی لہر جو راستے میں آنے والے ہر ایک کو کچل کر رکھ دے۔ ایسی ہی صورتِ حالات پر روایت کے باغی شاعر جون ایلیا یوں بولے تھے۔
وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا دل لگا ہی نہیں
ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
کیا ہوا یہ کسے نہیں معلوم؟
کیوں ہوا کوئی پوچھتا ہی نہیں
سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ مزید کہنے کے بجائے عبیر ابو ذری کی نصیحت سُن لیں۔
پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی
پچھوں کردا پھراں ٹکور تے فیدہ کی