سامراج شکلیں‘ رنگ اور ملبوس بدلنے سے نظامِ جمہور میں تبدیل نہیں ہو سکتاکیونکہ سامراجیت جمہوریت کی ضد ہے جس میں چند گھرانے آباد ہوتے ہیں اور کروڑوں خانماں برباد۔ ہمارے سماج میں یہ کروڑوں دو حصوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ پہلا: ملک کی آبادی کا وہ حصہ ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ کھیت‘ مزدور‘دیہاڑی دار لوگ جنہیں معاشیات کی زبان میں Lower strata of the population کہتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فکسڈ انکم گروپس‘ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک کی Elite آبادی جس دنیا میں جیتی ہے اسے Bubble Economy کہہ سکتے ہیں‘ یعنی مصنوعی دنیا کے باسی‘ مخلوقِ خدا سے کٹ کر من مرضی کے ٹینٹ میں جینے والے وہ لوگ جن کے اثاثے‘ جائیدادیں interest Nationalکے بجائے انٹرنیشنل انٹرسٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔پھر اس طبقے کی دنیا ایسی ہے جس میں ملّااور مسٹر میں بھی کبھی تمیز نہیں رہی۔اُن کا نعرہ بھی کبھی نہیں بدلا‘ ہمیشہ سے ایجنڈا بھی ایک ہے۔''بختِ ماتخت‘ آباد باد‘‘۔
ہم اپنی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو فرنگی سامراج کی رخصتی کا عرصہ بڑا مختصر نظر آتا ہے۔ 14 اگست 1947ء سے لے کر 23 اکتوبر 1954ء تک(7سال‘2 ماہ‘9 دن)۔ یہ 24 اکتوبر 1954ء کا دن تھا جب ایک سامراجی کردار گورنر جنرل غلام محمد نے پاکستان کی آئین ساز (Constituent) اسمبلی کو توڑ کر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ آرکائیوز بتاتے ہیں کہ میاں ممتاز دولتانہ‘ محمود علی قصوری‘ مخدوم زادہ حسن محمود‘ سردار عبدالرشید‘ عبدالستار پیرزادہ‘ میر رسول بخش تالپور اور غلام حسین سومرو نے اس آئین شکنی کا زور دار ''سواگت‘‘ کیا۔ ایسے لگا جیسے ہندوستان کا آخری وائسرائے رنگ اور لباس بدل کر پھر سے آزاد پاکستان پر قابض ہو گیا۔ اُن دنوں موجودہ سندھ ہائیکورٹ کو چیفس کورٹ لکھا اور پکارا جاتا تھا۔ توڑی جانے والی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس آئین ساز اور قانون ساز اسمبلی کی تحلیل کے فیصلے کو موجودہ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یاد رہے کہ مولوی تمیز الدین کے پاس اس اسمبلی کے دونوں بڑے عہدے تھے۔ وہ بالترتیب توڑی جانے والی اسمبلی کے صدر اور سپیکر بھی تھے۔ ملک کی غیر منتخب مقتدرہ غلام محمد کے پیچھے کھڑی تھی۔ اس کے باوجود مولوی تمیز الدین نے نتائج کی پروا کئے بغیر نئے رنگ دار سامراج کی طرف سے آزادی سے جینے کا حق چھیننے کے فیصلے کو عدالت لے جانے کا انتہائی دلیرانہ اقدام کیا۔
مولوی تمیز الدین کو عدالت جانے سے روکنے کے لیے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ ان کے گھر کا سرکاری اہلکاروں نے محاصرہ کر لیا‘ اُن کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ ایک غیر اعلانیہ ہائوس اریسٹ تھی۔ پرانے سامراج کے نئے سامراجی گماشتے نے سمجھا کہ مولوی تمیز الدین قابو میں آ گیا ہے۔ اُس وقت کے اس جابرانہ محاصرے کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے یہاں تین واقعات بیان کرنا ضروری ہے۔
نمبر1:برقعہ پوش خاتون کا واقعہ۔ مولوی تمیز الدین نے 24 اکتوبر 1954 ء کے غیر قانونی اقدام کو چیلنج کرنے کے لیے پہلے دو‘ تین دن میں ہی آئینی پٹیشن جسے سندھ چیفس کورٹ رولز کے مطابق C.P کہتے ہیں‘ تیار کر لی تھی‘ جبکہ ملک کی باقی چار ہائیکورٹس میں اسے Writ Petition بولا اور لکھا جاتا ہے۔ لیکن پوری کوشش کے باوجود نہ کسی وکیل کو مولوی تمیز الدین کے پاس آنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی مولوی تمیز الدین صاحب کو گھر کے دروازے سے باہر نکلنے دیا گیا۔ اسی کشمکش میں 11 نومبر 1954 ء کا اُمید افزا سورج طلوع ہوا۔ مولوی تمیز الدین کے گھر کی پچھلی سائیڈ پر ایک چھوٹا بغلی گیٹ تھا جہاں ایک رکشہ آ کر رکا۔ گھر کے اندر سے سر تا پا برقعے میں ملبوس ایک خاتون بغلی گیٹ سے باہر نکلی اور سکیورٹی اہلکاروں کی نظروں کے عین سامنے باوقار انداز میں چلتی ہوئی رکشے میں جا بیٹھی۔ دوسری جانب کچھ دیر بعد یہ رکشہ سندھ کی چیفس ہائیکورٹ کے دروازے پر جا پہنچا۔ اہلکاروں نے پردہ نشین خاتون کے لیے ہائیکورٹ کا گیٹ کھول کر رکشے کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ سندھ ہائیکورٹ میں گرائونڈ فلور پر عدالتیں ہیں جن تک پہنچنے سے پہلے بار ایسوسی ایشن کا آفس آتا ہے۔ خاتون نے رکشے سے اُترتے ہی برقعہ اتار دیا جس میں سے مولوی تمیزالدین برآمد ہوئے اور ہاتھ میں کاغذات کا پلندہ پکڑے بار ایسوسی ایشن کے ہال میں داخل ہو گئے۔
دوسرا واقعہ منظر عالم ایڈووکیٹ کی گرفتاری کا تھا۔ منظرعالم ایڈووکیٹ کو خفیہ پیغام رسانی کے ذریعے مولوی تمیزالدین نے اپنا وکیل مقرر کیا تھا؛ چنانچہ وکیل صاحب ہائیکورٹ گیٹ کے باہر طے شدہ وقت پر پہنچ گئے جہاں پہ سکیورٹی اہلکاروں اور خفیہ ایجنٹوں نے منظرعالم ایڈووکیٹ صاحب کو گھیر کر حراست میں لے لیا۔ پولیس نے ساتھ کھڑی ایک گاڑی میں منظرعالم ایڈووکیٹ کو گرفتار کر کے زبردستی لوڈ کیااور یوں منظر عالم ایڈووکیٹ صاحب گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
تیسرا واقعہ سندھ ہائیکورٹ کے اُس وقت کے ڈپٹی رجسٹرار جناب روشن علی شاہ کی حکمت اور دلیری کا روشن باب ہے۔ جوں ہی مولوی تمیز الدین جناب روشن علی شاہ سے ملنے رجسٹرار آفس میں داخل ہوئے روشن علی شاہ صاحب نے انہیں احترام سے بٹھایا۔ پھر آئینی پٹیشن کے کاغذات لیے اوررولز کے مطابق دائری کے تمام مرحلے مکمل کرنے میں مولوی تمیز الدین کی بھرپور مدد کی۔ یہ روشن علی شاہ ہی تھے جن کے ذریعے مولوی تمیزالدین صاحب نے جناب جسٹس کانسٹن ٹائن کو اپنے وکیل منظرعالم ایڈووکیٹ صاحب کی گرفتاری اور اُن سے ہونے والی بدسلوکی کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس دلیر جج نے بھی فوری طور پر ایکشن لیا اور آئی جی سندھ پولیس کو منظر عالم ایڈووکیٹ کو رہا کر کے ہائیکورٹ واپس پہنچنے کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا۔ مولوی تمیز الدین کی قانونی ٹیم میں انگلش بیرسٹر ڈی ایم پرٹھ بھی شامل تھے‘ جن کی فیس اور ہوٹل وغیرہ کے اخراجات ایک اور روشن دماغ جناب روشن علی بھیم جی نے خود برداشت کئے تھے۔(جاری)