24 اکتوبر 1954 ء کے روز متحدہ پاکستان کی اسمبلی توڑنے کے مقدمے کی کارروائی 9 فروری 1955ء کو سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سر جارج کانسٹن ٹائن کی سربراہی میں شروع ہوئی۔ چیف جسٹس سر جارج کانسٹن ٹائن نے فل بینچ تشکیل دیا۔ جس نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی توڑنے کے لیے کی جانے والی تمام کارروائی اور گورنر جنرل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ فل بینچ کے اس فیصلے کی اپیل فیڈرل کورٹ میں پہنچ گئی۔ جہاں چیف جسٹس ایم منیر نے ایک اور فل بنچ بنا دیا۔ عجیب سی سماعت تھی اور بڑا دبائو والا ماحول؛ چنانچہ 16 مئی 1955ء کے دن پاکستان کی سیاست پولیٹکل جسٹس کے دور میں داخل ہو گئی۔
چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں فل بینچ فیڈرل کورٹ کے ججز جن میں جسٹس ابو صالح‘ جسٹس محمد اکرم‘ جسٹس محمد شریف اور جسٹس ایس اے رحمان نے آزاد پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو ایگزیکٹو آرڈر کے تحت توڑنے کے فیصلے کی حمایت کر دی۔ جسٹس کانسٹن ٹائن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ آزاد پاکستان کی سیاست کو نظریۂ ضرورت کی بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ قوم کی آزادی کے گلے میں حسبِ ضرورت اور نظریۂ ضرورت کا ایسا طوق پہنایا گیا جس کے خلاف اس فیصلے کے 67 سال بعد آج بھی پاکستان کو حقیقی آزادی سے ہم کنار کرنے کی عوامی جدوجہدکا سفر جاری ہے۔
اُس وقت سے آج تک ملک کی وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشنز نے اس فیصلے کو مستقلاً‘ مسترد کر رکھا ہے۔ فیصلے کے تین نتائج نے تصورِ پاکستان‘ نقشِ کہن مٹا کر سلطانی ٔجمہور قائم کرنے والا حضرتِ اقبالؒ کا خواب بکھیر کر رکھ دیا۔ ایسی ہی داداگیری کے دور میں حبیب جالب نے احتجاج کو ان الفاظ میں نیا آہنگ دیا:
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اُٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ساتھ ساتھ‘ اس انتہائی متنازع فیصلے نے دو آئینی اداروں کو سیاست میں باقاعدہ طور پر گھسیٹ لیا۔
آئیے !اس کے ثبوت پر ایک نظر ڈالیں:
فیڈرل کورٹ کا نظریۂ ضرورت والا پہلا فیصلہ PLD سال 1955ء (F.C) صفحہ نمبر240 پر رپورٹ شدہ ہے۔ جس کی خاص بات فل بینچ کے واحد غیر مسلم رکن مسٹر جسٹس اے آر کارنیلئسکا تحریر کردہ اختلافی نوٹ ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے ایک ایسی اپیل مسترد کرنے کی ہمت کر دکھائی جس میں اپنے وقت کے دو طاقتور ترین جرنیل میجر جنرل اسکندر مرزا اور فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان بالترتیب اپیلانٹ نمبر 4 اور اپیلانٹ نمبر 8 کی حیثیت سے مقدمے کے مدعی بنے تھے۔
اس کا سادہ سا مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ میجر جنرل اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا جبکہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے اسی تجویز کنندہ کو یوکے دھکا مار کر دوسرا مارشل لاء لگا دیا تھا۔ یہ دونوں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نوزائیدہ مملکتِ خدادادِ پاکستان کے 15 سال تک بلا شرکتِ غیرے مالک بن گئے۔ ایسے مالک جن کے اختیارات فاتح والے تھے۔ ان دونوں نے پاکستان کے لیے بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی طرف سے منتخب کیا گیا گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر دیا اور اپنے آپ کو پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر خود ہی Hand Picked کاسہ لیس چمچوں کی کابینہ کے ذریعے صدرِ مملکت و ریاست کا ٹائٹل بھی دے دیا۔ جب یہ پندرہ سالہ غاصبانہ دور ختم ہوا تو اس کے دو ہولناک نتائج سامنے آگئے۔ جن میں سے پہلا جنرل یحییٰ خان جیسے شخص کا بغیر کسی الیکشن کے برسرِ اقتدار آنا اور دوسرا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ تھا۔ جس میں قوم نے ڈوبتی سانسوں سے مسجدوں کے شہر ڈھاکہ کو بھارت کے سامنے سرنڈر کے ذریعے ڈوبتے دیکھا۔
پھر چل سو چل نظریۂ ضرورت کے فیصلوں کا سیریل سوپ ایسا چلا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس طرح کے فیصلوں کے لیے پولیٹکل جسٹس کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی۔ اس پولیٹکل جسٹس کے نتیجے میں پاکستان کو جنرل ضیاء صاحب کا چوتھا مارشل لاء ساڑھے گیارہ سال تک بھگتنا پڑا۔ 1990ء کے عشرے میں لنگڑی لُولی جمہوریت کی بحالی کا شبہ پیدا ہوناشروع ہوا۔ جسے دور کرنے کے لیے نظریۂ ضرورت نے دو‘ دو مرتبہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتیں توڑ ڈالیں۔ نظریۂ ضرورت کو پروان چڑھانے کی اس روش کا نتیجہ نئی صدی کا پہلا اور سیریل نمبر پہ پاکستان کا پانچواں مارشل لاء جنرل مشرف نے لگا دیا۔ ساڑھے دس سال تک مشرف کے دورِ اقتدار پر آج کے پی ڈی ایم والے ڈیموکریٹ لیڈر باوردی صدر کو ووٹ دینے کے لیے اپنا اپنا این آر او وصول کرنے کی لائن میں لگے رہے۔ اس مارشل لاء کو بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ظفر علی شاہ کیس کے ذریعے تحفظ دے چھوڑا ہے۔ سیاسی انصاف کے ان فیصلوں نے قوم کو بڑے عجیب مخمصے میں ڈال دیا جس کا اظہار نئے طرزِ حیات کے انفارمیشن سونامی میں آج کھل کر ہو رہا ہے۔ یہی کہ پاکستان کا آج اصل حاکم کون ہے؟ سیاستدان‘ جج یا جرنیل؟چونکہ عملی طور پر سیاست کی ٹرائیکا ان تین دروازوں کے درمیان دھوبی کا کتا بن کے رہ گئی ہے۔ جو گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا۔ قومی دولت لُوٹنے والے بڑے بڑے مجرموںکو سیاسی تحفے میں مسلسل این آراو ملتے چلے جا رہے ہیں۔ تقسیمِ دولت میں اس قدربھاری مقدار سے دھاندلی ہوئی کہ اب غریبی کا جزیرہ خدا کی بستی بن گیا ہے جبکہ ناجائز نودولتیے کئی کئی براعظموں میں انتہائی مہنگی جائیدادوں کے مالک ہیں۔اس خون آشام طبقاتی تقسیم کی منظرکشی نثر میں لکھنے سے بہتر ہو گا یہ نظم پڑھ لیتے ہیں۔
گائوں گائوں زخمی فضائیں ہو گئیں
زہریلی گھڑی کی ہوائیں ہو گئیں
مہنگی شراب سے دوائیں ہو گئیں
لائیے عوام کو جواب دیجئے
دیش کی تباہی کا حساب دیجئے
مجھ کو اپنے بینک کی کتاب دیجئے
دیش کی تباہی کا حساب دیجئے
لوگ جو امیر تھے غریب ہو گئے
آپ تو غریب سے امیر ہو گئے
یعنی کہ حضور بے ضمیر ہو گئے
خود کو بے ضمیری کا خطاب دیجئے
دیش کی تباہی کا حساب دیجئے