کاش کوئی ہماری پارلیمنٹ کے Archiveلیک کردے۔ ان لیکس کے ذریعے عام لوگ یہ تو جان سکیں گے کہ آئین میں آرٹیکل 62 (1) (ایف) کس نے شامل کروایا تھا۔ کس نے اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی بنیادی اساس (Basic Structure) کہا۔ پھر یہ راز بھی کھل جائے گا کہ وہ کون سی سیاسی اور مذہبی پارٹیاں تھیں جنہوں نے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کئی مہینوں تک آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کو شامل رکھنے کا دفاع کیا۔ اسے تبدیل کرنے یا اس آرٹیکل میں ترمیم کرنے کو اسلام کے خلاف سازش اور ملک کے خلاف بغاوت قرار دیا تھا۔ ہمارے آئین کا سرکاری اردو ایڈیشن انگریزی آئین کا لفظی ترجمہ نہیں بلکہ با محاورہ ترجمے پر مبنی ہے۔ اس ترجمے کو پڑھتے ہوئے اور تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ سرکاری آئینی ترجمے میں سے ''آئین‘‘ کو ڈھونڈ کر نکالنا جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے۔ ویسے بھی ان دنوں آئین کا آرٹیکل 62 (1) (ایف) طوفان کی آنکھ میں ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق :In the eye of storm۔ آئین کے اس متفقہ آرٹیکل کو متنازع بنانے کے لیے جو فتوے اور فرمان جاری ہو رہے ہیں‘ ان کی جانکاری ضروری ہے۔ اس لیے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ اس آرٹیکل کو انگریزی زبان میں پڑھ لیا جائے کیونکہ 1973ء کے آئین سے پہلے سال 1972ء میں جو عبوری آئین لاگو ہوا تھا اس کا مسّودہ بھی انگریزی زبان میں ہی تھا۔ آرٹیکل 62 (1) (ایف)کا آغاز ان لفظوں میں ہوتا ہے۔
''A person shall not be qualified to be elected or chosen as member of Majlis e Shoura/ Parliment unles:"
اس آرٹیکل کے آغاز میں جو زبان استعمال کی گئی اسے آئینی تشریح کی دنیا میں 'رائیڈر‘ کہتے ہیں۔ جس کا سادہ مطلب یہ کہ کوئی شخص پارلیمنٹ کا ممبر الیکٹ ہونے یا چنے جانے کے قابل نہیں ہو گا۔ جب تک وہ نیچے دی ہوئی شرائط/ معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ اسی تسلسل سے آرٹیکل میں 3 ذیلی آرٹیکل شامل کیے گئے ہیں مگر ساتھ ہی آرٹیکل 62 کے ذیلی آرٹیکل نمبر 2میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ اسلامی شعائر اور پابندیوں کا اطلاق کسی غیر مسلم امیدوار پر ہرگز نہیں ہو گا۔ آئین ساز چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ میں مسلم ہو یا غیرمسلم‘ دونوں جگہ سے صاف کردار اور شفاف ماضی رکھنے والی شخصیت کے مالک لوگ ہی داخل ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیرمسلم امیدواروں کی خاطر بھی بلند معیار کا آئینی تقاضا ان لفظوں میں آرٹیکل 62کے ذیلی آرٹیکل نمبر 2میں شامل کیا گیا: "But such person shall have good moral reputation"
1973ء کے آئین میں آرٹیکل 62کے نیچے اس آئین کے بنیادی سٹرکچر کا ایک اہم حصہ پارلیمان بھی ہے۔ جس میں قومی اسمبلی‘ سینیٹ‘ گلگت بلتستان اسمبلی‘ کے پی اسمبلی‘ AJ&K اسمبلی‘ پنجاب اسمبلی‘ بلوچستان اور سندھ اسمبلی سمیت کل ایوانوں کی تعداد 8 بنتی ہے۔ ان ایوانوں میں داخل ہونے کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 کے ذیلی آرٹیکل نمبر1 میں 3مزید ذیلی آرٹیکلز شامل کیے گئے۔ آئیے! ان ذیلی آرٹیکلز پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
نمبر1: یہ ہے (d) جس کے ذریعے لازم ہے کہ پارلیمنٹ میں جانے والا شخص اچھا کریکٹر رکھتا ہو۔ اور ساتھ ساتھ اس کی شہرت بھی یہ ہرگز نہ ہو کہ وہ Islamic Injunctions کی پروا نہیں کرتا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے۔
نمبر2: آرٹیکل 62(1) کی ذیلی کلاز (e) میں یہ شرائط پارلیمنٹ کے ہرامیدوار کے لیے لازمی قرار دی گئی ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کا مناسب ترین علم رکھتا ہو۔ ساتھ ساتھ اسلام میں فرائض اور واجبات کی اپنی عملی زندگی میں پریکٹس بھی کرتا ہو اور اس کے علاوہ وہ شخص بڑے گناہوں سے ہمیشہ دور رہتا ہو۔
یہاں اس بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ ان دنوں پاکستان کے آئین کی الٹرا ماڈرن تشریح کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں ستم ظریف مذاق یہ ہے کہ یہ تشریح صرف آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) میں کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ صرف اور صرف ایک کلاز میں الٹرا ماڈرن تشریح آخر کیوں؟ یہ سوال ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں اٹھتا ہے۔ صرف ایک آرٹیکل کی ایک کلاز پر فوکس کس کس کے لیے کیا جا رہا ہے۔ دوسرا سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر آئین کے اس آرٹیکل میں اسلامی تعلیمات اور شرعی اخلاقیات کی مخالفت کرنا مقصود ہے تو پھر اوپر درج جن 2ذیلی آرٹیکلز کا ذکر اور ترجمہ ہم نے آپ کے سامنے رکھا ہے تو ان پر کیوں کوئی جملہ نہیں کسا جا رہا۔ یہ سادہ سی بات اس سادہ سی دلیل کے ساتھ ہی سمجھ آجاتی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی خلائی سائنس دان کی ضرورت نہیں۔ نہ لمبے دلائل کی۔ صرف سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ جو سال 2018ء میں ہوا‘ اسے دیکھنے سے ملکی آئین کی الٹرا ماڈرن تشریح کے پیچھے چھپے چہرے اور خواہشیں بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ یہ فیصلہ سمیع اللہ بلوچ بنام عبدالکریم نوشیروانی کے نام سے پی ایل ڈی سال 2018ء کے صفحہ نمبر 405 میں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اس مقدمے میں پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کے سامنے‘ میں نے بطور وکیل سمیع اللہ بلوچ کے کیس کا آغاز کیا۔ فل بینچ کو اس بات پر قائل کیا کہ الیکشن تنازعے کے کچھ پہلو‘ دُور رَس آئینی تشریح کا تقاضا کرتے ہیں۔ چونکہ ان پہلوئوں کا تعلق اسلامی شعائر‘ عبادات‘ اخلاقیات اور قیادت کے معیار اور ریاست کی بنیاد سے تعلق رکھتا ہے اس لیے یہ مقدمہ سننے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ اس مقدمے کا آغاز سال2015ء میں ہوا۔ لارجر بینچ کی تشکیل کے بعد اس کی آخری سماعت 13اپریل سال 2018ء کے دن ہوئی۔ اس لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے 5جج‘ جن میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار صاحب‘ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال صاحب‘ جسٹس شیخ عظمت سعید صاحب‘ جسٹس اعجازالاحسن صاحب اور جسٹس سجاد علی شاہ صاحب شامل تھے۔ دوسری جانب وکیلوں کی گلیکسی پیش ہوئی۔ مختلف سیاسی پارٹیوں‘ لیڈروں اور اس نوعیت کے ملتے جلتے مقدمات سے متعلقہ پارٹیوں کو نوٹس جاری کیے گئے اور بھرپور سماعت کے بعد آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے ذریعے ہونے والی نااہلی کو تاحیات قراردینے کے دلائل مان لیے گئے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی زد میں PDM سے تعلق رکھنے والے 2سیاسی لیڈر بھی تا حیات نا اہل ہوگئے۔
اس فیصلے کے بعد باقی مقدمات پر تو کسی کی توجہ نہ گئی لیکن نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی خوب موضوعِ بحث بنی۔ ان مباحث کے دوران ہی سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ دوسری بار آئین کے آرٹیکل 188کے ذریعے نظرِ ثانی کی پٹیشن میں پھر سے سپریم کورٹ واپس چلا گیا۔ دوبارہ ایک طویل اور بھرپور بحثوں کی سیریز چلی۔ جس کے بعد نواز شریف اور جہانگیر خان ترین کی نظرثانی کی درخواستیں خارج ہوئیں۔ اگلا سوال یہ ہے کیا اسلامی آئین کی الٹرا ماڈرن تشریح ہو سکتی ہے؟ (جاری)