دعوت دینا ضروری نہیں رہا۔ بلکہ وصول کرنا بھی نہیں۔ نزلہ زکام سے شروع کر کے دل کے روگیوں تک۔قانون و انصاف سے لے کر راج نیتی کے فن اور ریاست کو سیدھی راہ دکھانے تک‘ہر معاملے میں ہر محفل میں ہر جگہ ہر وقت۔ ادھر کسی نے دلدّر بتایا اُدھر آواز آتی ہے ''میری ناقص رائے میں‘‘آپ کو یہ پانچ چیزیں نہیں کرنی چاہئیں۔ سننے والا حیرت سے اپنے اجنبی مشیر خاص کی شکل کو دیکھے تو مشورہ پھینکنے والا سمجھے گا اس کی ناقص رائے نشانے پر لگی ہے۔بن مانگے مفت مشورہ دینے والی وبا کچھ نئی نہیں۔ اس کے مریض ماضی میں بھی ملتے تھے‘ مگر کم‘ کم۔ تب ایسی ہستی کو مشورہ خانم کہہ کر پکارا جاتا۔ سوشل میڈیا‘ فیس بک‘ Youtubeکی تشریف آوری کے بعد ہر طرف مشوروں کی کلاشنکوف چلتی دکھائی دیتی ہے۔
راج نیتی کا ایک بڑا گُرو کوٹلیہ چانکیہ اچاریہ کو مانا جاتا ہے‘جو میری تحصیل کہوٹہ کے علاقے کوٹلی کا تھا۔ جسے اب کوٹلی ستیاں سب ڈویژن بنا دیا گیا ہے۔ چانکیہ پوٹھوہار میں واقع سنگ تراشوں کے دیس ٹیکسلاکی یونیورسٹی میں استاد تھا۔ چانکیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''ارتھ شاستر‘‘ میں مشورے پر کمال کی بات کہی۔ چانکیہ نے بادشاہ کے مشیروں کے بارے میں لکھا ''بادشاہ کے کان ہر کَس و ناقص کی دسترس میں نہیں ہونے چاہئیں‘‘۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ‘ جسے آج کا حکمران بھی کہہ سکتے ہیں‘ اس کے مشیراتنے اہل ہوں کہ وہ راج نیتی یا آرٹ آف گورننس پر مشورہ دے سکیں۔ کیونکہ گورننس کا معیار ہی کسی ریاست میں بسنے والوں کو اس سے محبت کرنے پر آمادہ کرتا ہے یا پھر نفرت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
چانکیہ کا زمانہ375 BCE ہے۔ بات ہو رہی تھی چانکیہ کے مشورے کی جو ٹیچر کے علاوہ philosopher‘ Economist اور jurist بھی تھا۔ چانکیہ نے چندر گُپت موریا کی Empireقائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس Empireمیں اُ سے حکومت کے سب سے بڑے عہدے پر رکھا گیا۔ مگر اس کی اصل وجۂ شہرت راج نیتی پر اُس کی کتاب بنی۔ اُس کے زمانے میں ٹیکسلا پوٹھوہار کی ایک مضبوط ریاست تھی۔ ارتھ شاستر میں پندرہ باب موجود ہیں جن میں پہلا باب سیاسی Disciplineکے بارے میں جبکہ دوسرا باب حکومت کے اہلکاروں کی نگرانی پر ہے۔ تیسرا Law & Orderکے بارے میں۔ اس کا انداز انتہائی سادہ اور بحث والا نہیں بلکہ سمجھانے والا ہے۔
پچھلے پانچ عشروں میں اگر آپ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ کو مشورہ دینے والوں کی تین بڑی قسمیں ملیں گی۔
پہلے مشورے باز:یہ بڑے بے ضررلوگ ہوتے ہیں۔ جو مشورہ صرف اس لیے دیتے ہیں کہ انہیں دنیا کے سارے علوم کا جانکار سمجھا جائے۔ دیہات میں شادی کی روٹی کھلنے سے تھوڑی دیر پہلے۔ نمازِ جنازہ کی صفوں کے درمیان‘ ہسپتالوں کی راہداریوں میں یہ خدائی خدمت گار اپنے خرچے پر ہر طرح کے مشورے دیتے ہیں۔ ایسے مشوروں سے کسی کا بھلا ہو جائے تو اُس کی قسمت۔ کوئی بحث چِھڑ جائے تو اُ س کا مقدر۔
دوسرے مشورے باز: یہ ناراض لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جو کسی نوکری سے نکالے گئے یا پھر وہ جن کو اُن کی مطلوبہ اسامی پر بھرتی نہیں کیا گیا۔ وہ جن کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے عہدے سے ہٹا دیا گیا یا وہ جن کو جاندار کارکردگی کی وجہ سے عہدے پر لگایا ہی نہیں گیا۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے مفت مشوروں کی بیٹنگ وکٹ کے دونوں جانب ہوسکتی ہے۔ کچھ پنشن یافتہ مراعاتی مشیر بھی ہیں۔ ساٹھ سال کی بالی عمریا تک سرکاری کرسی سے رومانس کرنے کے بعد اُن کا ضمیر اچانک انہیں جھنجھوڑنے لگتاہے۔ وہ مشورے جو چالیس سال تک ان کے دل میں حسرت کی طرح چھپے رہے وہ اچانک طلوع ہوتے ہیں۔ اس قافلے میں معاشی مشیر‘ فوجی مشیر‘ انتخابی مشیر‘ اصلاحاتی مشیر ایسے ایسے انقلابی مشورے دیتے ہیں‘ خدا کی پناہ۔ کوئی لفٹ کرائے نہ کرائے یہ اپنے نہ ختم ہونے والے مشورے دیتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس امید پر کہ کبھی کہیں تو کوئی پڑھے گا۔ کہیں سے فون کی ٹلّی کھڑکے گی۔
تیسرے مشورے باز: مشیروں کی یہ قسم سدا بہار ہے۔ ایشیا سُرخ کرنے کے زمانے سے لے کر ووٹ کو عزت دو کے دورِ زریں تک۔ سادہ لوح عوام کو سبز ایشیا کے سبز باغ دکھانے کے بعد Enlightened Moderation تک۔ سیلاب سے شروع کر کے Covid-19 تک ان کے مشوروں کا بزنس ہمیشہ Bullish Trend پر چلتا رہتا ہے۔ ایسے ہی کسی مشورے باز سے بادشاہ نے پوچھا: خیر تو ہے تمہاری نظر ہمیشہ میرے کھڑائوں (جوتے) پر جمی رہتی ہے‘ اس کی وجہ بتا سکتے ہو؟ جواب آیا: جی بڑی ساد ہ وجہ ہے یہی کہ بختِ ماتخت‘ آباد‘ باد۔ حضور میرا مقدر تو تخت سے جڑا ہوا ہے جو سدا آباد رہے اور سونے کی یہ کھڑائوں بھی مستقل تخت پر ہی ہے۔ اوپر اس لیے نہیں دیکھتا کہ بادشاہ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ نام لینے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے ''بخت آور‘‘ کردار آپ کو لنڈے کے سویٹروں کی طرح ہر اسامی پرلٹکے نظر آجائیں گے۔
بات ہو رہی تھی میری ناقص رائے کے موضوع پر۔ کچھ رائے اس قدر ناقص ہوتی ہے کہ خد کی پناہ۔ جس کو دوفر لانگ دور سے دیکھ رکھا ہو‘اس پر بھی اندر کی خبر بتاتے ہیں۔ کون کتابیں نہیں پڑھتا‘ قائداعظم ثانی کون ہے اور شیر شاہ ثالث کس ملک کے اپارٹمنٹ میں رہتا ہے۔ کس ادارے کو کس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ مگر طے شدہ روشن حقیقتوں پر ان کی ناقص تو کیا انتہائی ناقص رائے بھی سامنے نہیں آتی۔ مثال کے طور پر کو ن نہیں جانتا پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔ الحمدللہ! اقوام متحدہ کے 193ملکوں کی 9بڑی فائر پاورز میں سے ایک ہم ہیں۔ اتنی مہان ریاست کے شاندار عہدوں کا مستقبل Central Londonمیں طے ہو رہا ہے۔ وہ بھی اُن اپارٹمنٹس میں بیٹھ کر جس کے مالک (Beneficial Owner) کا فیصلہ طے ہونا ابھی باقی ہے۔
کیا حال سنائیں اپنوں کا
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہنستی ہے
اک آنکھ میں رُت ہے ساون کی!