"SBA" (space) message & send to 7575

ٹرمپ کارڈ کے خوف کی لہر… (2)

حکمران اشرافیہ جہاں جہاں بھی اپنے لوگوں سے پُر تشدد‘ زور آزمائی پہ اُتر آئے‘ آپ سمجھ لیں وہ سیاسی طاقت کے اصل سرچشمے سے خوفزدہ ہے۔ اس صدی میں بھی پاکستان کے پڑوس میں ایسے ممالک ہیں جہاں دکھاوے کا آئین ہے۔ سنگل پارٹی سسٹم سے بھی محدود سلیکشن کو الیکشن کہا جاتا ہے۔ پاپائیت کو جمہوریت کہنے پر اصرار ہے۔ یقین نہیں آتا کہ کسی کو احتجاج کے نام پر موت کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہے۔ مورخہ یکم دسمبر 2022ء کو اسی صفحے پر چھپنے والے وکالت نامہ کا ایک جملہ قَندِ مُکرَّر کے طور پر دہراتا ہوں؛
''اِسی لیے غیر سرکاری تاریخ لکھنے والے کہتے ہیں انسانی تاریخ کی بڑی نا انصافیاں جنگ کے میدانوں میں نہیں بلکہ عدالت کے کمروں میں ہوتی ہیں‘‘۔
کسی زمانے میں خوف ہوتا تھا‘ خوف کا حصار نہیں ہوتا تھا۔ ڈکٹیٹر شپ ہوتی تھی لیکن ڈکٹیٹر خود سامنے آتا تھا۔ اب سیاست میں بھی 5th Generation War در آئی ہے۔ ریاستی تشدد سے زیادہ مافیاز کو عوامی بیداری کی لہر سے ڈر لگتا ہے۔ عرب سپرنگ ماضی قریب کی مثال ہے جبکہ برادر اسلامی ممالک بنگلہ دیش اور ایران آج آپ کے سامنے ہیں۔ ذکر ہو رہا تھا خوف کا۔ خوف کی دو لہریں اُبھر کر ملکی سیاست کے منظر نامے پر چھائی ہیں۔
خوف کی پہلی لہر: پنجاب میں حکومت کے توڑنے کی ہے۔ پہلے ہمیشہ مخالف پارٹی کی حکومت ٹوٹنے پر پٹاخے پھٹتے‘ مٹھائی بٹتی اور ڈھول بجتے تھے۔ اب حکومت توڑنے کے لیے ترلے سے بھی اگلی منت سماجت کے بعد گیم آخری فیز میں داخل ہو گئی ہے۔
کہتے ہیں کسی گائوں کے باہر گئی ہوئی بُڑھیا کو واپس آنے میں رات ہو گئی۔ راستے میں اُسے احساس ہوا کہ کوئی اُس کا بہت قریب سے پیچھا کر رہا ہے۔ بزرگ خاتون نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ ایک مچھندر آہٹ پیدا کیے بغیر بُڑھیاکے پائوں کے فٹ پرنٹس پر چلتا ہوا اُس کے پیچھے آرہا تھا۔ بُڑھیا نے کہا: آگے ہو جائو‘ میرے پیچھے چھپ کے کیوں چلتے ہو؟ پھر بُڑھیا بولی: یہ بتائو‘ تمہارا نام کیا ہے اور کہاں سے آرہے ہو؟ مچھندر نے جواب دیا میرا نام شیر خان ہے‘ ساتھ والے گائوں سے آیا ہوں۔ رات کو مجھے بہت ڈر لگتا ہے‘ اس لیے آپ کے پیچھے چھپ کے چل رہا تھا۔
پنجاب میں پی ڈی ایم نے پیچھے چھپنے کے لیے جس بُڑھیا کا انتخاب کیا تھا وہ بستی چھوڑ گئی ہے۔ اُس کے قدموں کے نشان خیالی ہیں۔ اور اُس کی رہبری کی فاختہ اُڑ گئی ہے۔
خوف کی دوسری لہر: یہ ایک نہیں‘ دو خوف ہیں۔ پہلا خوف یہ کہ 66 فیصد ممبرز اسمبلیوں سے نکل گئے تو جنرل الیکشن کو کون روک سکے گا۔ جنرل الیکشن آگیا تو وہ مقدمے جن کو نیب کا قانون ختم کرکے داخلِ دفتر کرایا گیا‘ اُن کو پھر سے چلنے اور زیرِ سماعت آنے سے کون روک سکے گا؟ جسے شک ہو وہ آئین کا آرٹیکل 264 نکال کر پڑھ لے۔ خاص طور پر آرٹیکل 264کی ذیلی شقیں (d) اور (e) دیکھ لیں جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگر قانون تبدیل یا کالعدم ہو جائے تو بھی اُس کے نیچے ہونے والے جرمانے (Penalty)‘ مال کی بحقِ سرکار ضبطگی (Forfeiture) یا پھر کوئی بھی سزا (Punishment) جو کالعدم قرار دیے جانے والے قانون کے نیچے سنائی گئی ہو‘ وہ قائم رہے گی۔
جن لوگوں کو نواز شریف کی واپسی کی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہے وہ آرٹیکل 264 کو غور سے دیکھیں بلکہ سمجھیں بھی۔ یوں لگتا ہے ہمارے کسی دوست وکیل نے اُنہیں صحیح مشورہ دیا ہے۔ یہی کہ این آر و ٹواپنی جگہ لیکن جب بھی وہ واپس جائیں گے‘ سیدھا اڈیالہ ہی جائیں گے۔
اِسی 264کا ذیلی آرٹیکل (e)یہ کمانڈ بھی دیتا ہے کہ قانون تبدیل ہونے سے کسی تفتیش پر کوئی اثر نہیں پڑے گا (Shall not affect any investigation) یا کوئی بھی قانونی کارروائی (legal Proceeding) جو چل رہی ہو یا اب کے بنائے ہوئے تبدیل شدہ قانون میں اُن کی پچھلی سزا معاف کرنا آئین کے آرٹیکل 264کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ جو جرمانہ کیا گیا ہو‘ کوئی اثاثے ضبط کیے گئے ہوں یا جو سزا سنا دی گئی ہو‘ اُس کی حد تک یہ سمجھا جائے گا کہ پچھلا قانون تبدیل ہی نہیں ہوا۔ یعنی وہ قانون اپنی جگہ ایسے مقدمات کی حد تک موجود/ مؤثر رہے گا۔
آئین کے علاوہ ایک اور پاکستانی قانون بھی اسی تصورِ سزا و جزا کو آگے بڑھاتا ہے۔ یہ ہے General Clauses Act 1897 جس کا Section-6 ان لفظوں میں آئین کی مزید تائید کرتا ہے؛
"And any such investigation, legal proceeding or remedy may be instituted, continued or enforced, any such penalty, forfeiture or punishment may be imposed as if the repealing Act or Regulation had not been passed."
اُوپر درج ساری سزا‘ کارروائی‘ جرمانے اسی طرح نافذ رہیں گے جیسا کہ پچھلے قانون کو ختم کرنے والا کوئی Actیا ریگولیشن سرے سے پاس ہی نہیں ہوا۔
میں نے اپنے پارلیمانی Careerمیں جو استعفے دیے‘ ان کی بات بھی بتا دیتا ہوں۔ پہلا استعفیٰ اپریل 2011ء میں بھٹو ریفرنس کے ذریعے عدالتی قتل کا مقدمہ لڑنے کے لیے دیا۔ میرا عہدہ تھا وفاقی وزیرِ قانون و انصاف کا۔ پھر سال 2017ء میں سات سال بعد پاکستان تحریک انصاف جوائن کرنے کے لیے میں نے Senate کی سیٹ چھوڑی۔ اس دوران چودھری شجاعت صاحب نے مجھے کہا کہ سیٹ چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے‘ بے شمار لوگ سیٹ چھوڑے بغیر دوسری پارٹی میں چلے گئے ہیں۔
میں نے شجاعت صاحب کی شفقت کی تعریف کی اور کہا جن کی مدد سے سیٹ ملی تھی‘ اُنہیں سیٹ واپس کرکے ہی میں کوئی نیا فیصلہ کر سکتا ہوں۔ میرے پاس اڑھائی سال کا عرصہ تھا‘ میں نے استعفیٰ دے دیا۔ تیسری مرتبہ سال 2018ء میں مجھے Advisor to PMاور انچارج وزیر‘ وزارتِ پارلیمانی امور کا کیبنٹ عہدہ ملا۔ میرے مہربان آٹھ سال پرانا الزام بصورت ریفرنس لے کر آگئے۔ وزارت سنبھالنے کے 17ویں دن عمران خان کے اصرار کے باوجود میں نے مقدمہ لڑنے کے لیے وزارت چھوڑ دی۔
چوتھا استعفیٰ تب دیا جب رات کوعدالتیں کھلیں اور عمران خان نے میرا نام لے کر کہا: آپ ہماری طرف سے پیش ہوں۔ میں نے اسی رات استعفیٰ دیا اور بار کونسل کو اطلاع دی کہ میں پبلک آفس چھوڑ کر وکالت Resumeکر رہا ہوں۔
عمران خان کے پاس چار ٹرمپ کارڈ ابھی باقی ہیں‘ عوامی تائید والی خوف کی لہر رکنے والی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں