نہ تو ریاست کوئی شغل‘ نہ ہی گورننس کوئی مذاق۔ ریاست صرف اور صرف کمزور اور زیرِ دست افراد کو طاقتور اور بے رحم جتھوں سے بچانے کے لیے معرضِ وجود میں لائی گئی تھی۔ ایک خاص جغرافیائی علاقہ جس کے اندر رہنے والے لوگ بااختیار ہوں اور ان کے اختیار کی تحریری گارنٹی موجود ہو‘ کرۂ ارض کا ایسا جغرافیائی یونٹ آئینی ریاست کہلاتا ہے۔
پاکستان بھی ایسی ہی ریاست ہے جس نے 12اپریل 1973ء کے دن جمعرات کے روز قوم کو اختیار کی یہ گارنٹی دی تھی جو آئین کے افتتاحی دیباچے (Preamble) کے آغاز میں اِن لفظوں کے ساتھ شامل کی گئی: "And Whereas it is the will of people of Pakistan to establish an Order"۔
آئین میں کیے گئے قوم سے اس وعدے کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں موجود جو بھی نظام ہوگا‘ نظامِ ریاست‘ نظامِ حکومت‘ نظامِ سلطنت‘ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق ہی ہوگا۔ لمبی تفصیل میں جائے بغیر اس قدر جان لینا ضروری ہے کہ آئین نے صرف یہ زبانی وعدہ نہیں کیا بلکہ اس کے لیے وَن مین وَن ووٹ کے اصول کے تحت باقاعدہ نظام وضع کیا جس کی رُو سے وفاق اور وفاقی یونٹس میں عام انتخابات ہوتے ہیں۔
اگر چہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں انتخابات آزادانہ نہیں ہوئے‘ اس بات سے بھی مفر نہیں ہے کہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے والوں سے زیادہ ووٹ گننے والے یا گنوانے والے طاقت ور ہیں۔ نئے سال کا تازہ الیکشن جو کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی اداروں میں ہوا‘ اس کے وڈیو کلپس‘ آڈیوز اور اس کے نتائج اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آپ کسی بھی ووٹ ڈالنے والے پاکستانی سے پوچھ لیں۔ کسی بھی پاکستانی نے اس طرح کے پاکستان اور ایسی جمہوریت کا کوئی خواب کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جس میں اپنا کام کاج‘ کاروبار اور دیہاڑی چھوڑ کر ووٹر کی لائن میں لگنا پڑے‘ صبح سے لے کر شام تک الیکشن سٹاف کی جھڑکیاں‘ ووٹ گنوانے والوں کی دھمکیاں اور ووٹ باکس اٹھا لے جانے والوں کی گالیاں سہنی پڑیں۔ جبکہ شام کو اسے پتا چلے کہ ووٹ ڈالنے والے ہار گئے اور ووٹ گنوانے والے تو بڑی بھاری اکثریت سے جیت چکے۔ اس کا دوسرا ثبوت آر ٹی ایس(Result Transmission System)کا بیٹھ جانا۔ ڈسکہ الیکشن کے لیے ایک معیار اور کراچی الیکشن کے لیے دوسرا معیار بھی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے ڈسکہ اور کراچی دو علیحدہ علیحدہ ملکوں کے شہر ہیں جہاں پہ دو علیحدہ علیحدہ قانون نافذ ہیں۔ لیکن ووٹ گنوانے والے نامعلوم ہیں۔
آئینِ پاکستان 1973ء کے دیباچے کی طرف واپس چلیں تو اس کا دوسر ا حصہ یہ ہے:
"Wherein the State Shall Exercise its power and authority through the choosen representatives of the people".
یعنی ریاستِ پاکستان میں‘ ریاست کے سارے اختیارات اور تمام تر اتھارٹی چناؤ کے ذریعے منتخب ہونے والے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی جن کو ووٹر نے اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا۔ اگر کسی بھی پاکستانی سے کہیں کہ نئے سال کے پہلے مہینے کے اختتام پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے اور دیانت داری سے سوچے کہ پاکستانی عوام کے منتخب کردہ لوگ کوئی طاقت رکھتے ہیں یا اتھارٹی؟ تو ہر دل سے اس کا جواب ایک ہی ہوگا اور وہ ہے Absolutely Not۔
پاکستان میں طاقت کے مراکز کو اس قدر زیادہ طاقت مل چکی ہے کہ اب انہیں عوام نہیں بلکہ خواص بھی نہیں‘ نجی گفتگو میں بھی نہیں بلکہ لائیو ٹی وی پر بیٹھ کر طاقتور حلقے اور طاقت کے مراکز کے نامِ نامی سے پکارتے ہیں۔ ایسے میں طاقتور حلقوں کی بے لگام طاقت کے تین نتیجے پاکستانی عوام کے ذہن پر نقش اور نوشتۂ دیوار بھی ہیں۔
پہلا نتیجہ: ملکی ادارے کمزوری سے آگے گزر کر نقاہت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ ریلوے جو ہر روز قوم کے کروڑوں نہیں اربوں روپے سالہا سال سے کھا رہا ہے۔ وہ ریلوے جو انڈیا اور پاکستان میں اکٹھا شروع ہوا تھا۔ جب ایسٹرن اور ویسٹرن ریلوے کے نام سے ہمارے غیرملکی آقاؤں نے ریل کو بلوچستان اور سرحد کے مشکل ترین پہاڑوں سے بھی گزار کر دکھا دیا تھا کہ یہ کتنا بڑا اثاثہ ہے۔ہمارے طاقتور منیجرز نے اس اثاثے کا جو حشر کیا ہے وہ نتیجہ ہے ریلوے کی لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضے کا۔ سٹیشن ویران‘ گجر خان سے چکوال جانے والی ریلوے لائن کی لکڑی ایک وزیر کے گھر گئی اور لوہا وزیراعظم کے گھر گیا مگر منیجرز کہتے ہیں ''سب اچھا ہے‘‘۔ PIA‘جس نے مالٹا ایئر‘ ایمرٹس ایئر لائنز اور بی مان ایئر لائنز بنگلہ دیش سمیت دنیا کے کئی ملکوں کو ایئر لائن بنانا اور چلانا سکھایا تھا‘ اس کے تنخواہ دار ملازموں کے تو ہوائی جہاز اور ایئر لائنز اڑ رہے ہیں لیکن PIAمیں صرف اربوں روپے ہی اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کسی بھی سماج کا سب سے بنیادی منصف ادارہ جو رول آف لاء کا ذمہ دار ہوتا ہے‘ وہ پولیس ہے جو ملک کا سب سے کرپٹ ادارہ بن چکا ہے اور کرپشن میں نمبر 1 پر آیا ہے۔ پولیس مقابلے‘ حکمرانوں کے سامنے غلاموں سے زیادہ جھک کر کورنش بجا لانے والے پبلک سرونٹس نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے؟بات ہو رہی تھی رول آف لاء کی۔ جس ملک میں نظامِ انصاف کو پولیس کے بعد سب سے کرپٹ ادارہ قرار دیا جائے اور اس سروے کو چیلنج کرنے والا کوئی موجود نہ ہو تو آپ سوچ لیں کہ ایسے ملک‘ قوم اور سلطنت کی منزلِ مراد کیا ہے؟
واپڈامیں بجلی چوری کوئی کرتا ہے‘ بِل کسی دوسرے کے کھاتے میں‘ لائن لاسز کی مد میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ڈاک کا محکمہ دنیا میں کہاں اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پبلک ہیلتھ‘ ٹریفک انجینئرنگ‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ بچوں کے لیے پرائمری ایجوکیشن‘ زچہ و بچہ‘ خصوصی افراد اور ملک کی 70/80فیصد سے زیادہ آبادی دیہات‘ کچی آبادیاں تو جیسے نہ کسی کی ترجیح میں شامل نہ ہی کسی کے ایجنڈے پر۔ چھوٹا موٹا برائے نام کام بھی پہیہ مانگتا ہے یا ریڑھا۔ جب سے ہمارا روپیہ ایک ایک دن میں 23/24فیصد گرنا شروع ہوا اور بنگلہ دیشی ٹکے کے مقابلے میں اس کی ذرا برابر ویلیو نہیں رہی تب سے پہیہ لگانے کی صلاحیت بھی ماند پڑ گئی ہے۔ ریڑھا صرف مضبوط کندھے والے چلا سکتے ہیں جسے Elite Captureکہا جاتا ہے۔
کامن ویلتھ کے دو غلام ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش کے ادارے دیکھ کر ہمیں فخر ہونا چاہیے یا شرم آنی چاہیے‘ یہ ہمارے ملک میں اداروں کے حوالے سے 2023ء میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ (جاری)