عشروں پرانی اُم الخبائث کے تازہ جام کا دور الیکشن 2023ء کے لیے گردش میں ہے۔ بھاڑ میں جائے قانون‘ دستور کی دھجیاں بکھریں شاہراہِ دستور پہ۔ وہ آئین جو 22کروڑ عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے‘ چند درجن طاقتوروں اور مفت بروں کے گھر کی لونڈی بنتا نظر آ رہا ہے۔ لونڈی سے نکاح کوئی نہیں کرتا‘ اس کی تکریم کون کرے گا؟
ہم 2023ء میں 1970ء ماڈل الیکشن کا ایکشن Replay کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ نشانہ عمران خان ہیں‘ جن کے خلاف مقدمات کی سنچری بننے والی ہے۔ اور وہ جو الیکشن ایکٹ کا سیکشن 230ہے‘ اس لاوارث کو پوچھتا کون ہے؟ مفت بر صرف زمان پارک پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس پر بار بار حملہ آور ہو رہے ہیں۔ قانون نے انہیں کہا کہ تم صرف روٹین کی سرگرمیاں کر سکتے ہو۔ مطلب واضح ہے‘ وہ سرگرمیاں جو آئین کی روٹین کے مطابق عارضی ہوں اور جن کا دائرہ اور مرکزِ نگاہ صرف جنرل الیکشن تک ہی محدود ہو۔ کوشش یہ ہو رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ملک کی سب سے مقبول ترین سیاسی پارٹی اور ملکِ عزیز کا وہ لیڈر‘ جو عالمی چہرہ اور شناخت رکھتا ہے‘ اسے انتخابی منظر نامے سے مائنس کر دیا جائے۔
ہماری انتخابی تاریخ میں کبھی بھی کوئی عارضی نگران حکومت اِس قدر متنازع نہیں رہی۔ جو نگران حکومتیں متنازع بھی ہوئیں‘ انہوں نے انتخابی عمل میں پولیٹکل انجینئرنگ کی‘ کسی نے 35پنکچر لگائے۔ کسی جگہ 1970ء والے عام انتخابات میں دھاندلی سیل کے سربراہ جنرل اکبر خان کی طرح اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی جھک ماری گئی۔ جس کا نتیجہ پاکستان کو تب بھی بھگتنا پڑا‘ اب بھی بھگتنا پڑرہا ہے اور نجانے کب تک الیکشن کے عمل کا سہاگ لٹتا رہے گا۔
الیکشن ایکٹ کا واضح سیکشن 230کہتا ہے‘ عارضی نگران سیٹ اَپ غیرمتنازع (Non-Controversial) کام کرے گا۔ الیکشن ایکٹ CHAPTER XIV، سیکشن 230‘ Functions of caretaker Government بتاتے ہوئے کہتا ہے:
A caretaker Government shall:
(c) restrict itself to activities that are of routine, non-controversial and urgent, in the public interest and reversible by the future Government elected after the elections; and
(d) be impartial to every person and political party.
خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جس قدر تنازعات موجودہ نگران حکومتوں کے دور میں سامنے آئے ہیں‘ اس کی کوئی دوسری مثال ہماری 75سالہ تاریخ سے نہیں مل سکتی۔
آلِ شریف ہمیشہ سے مقتدرہ کے کندھے پر چڑھ کر منصبِ اقتدار پر چڑھتے آئے ہیں۔ چار عشروں بعد پہلی مرتبہ انہیں ووٹ کے لیے عمران خان نے اس چڑھائی پر لگا دیا ہے جسے دیکھ کر ہی ان کی سانس پھول چکی ہے۔ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کا شاید ہی کوئی کارکن عہدہ‘ یوسی ایکٹوسٹ یا سوشل میڈیا انفلوئنسر لڑکی‘ لڑکا بچ رہا ہوگا جس پر حکومت کی طرف سے مقدمہ نہ بنوایا گیا ہو‘ جسے اٹھایا نہ گیا ہو‘ جسے دھمکایا نہ گیا ہو۔ کوئی ہے جو دو تین درجن مالکانِ اقتدار کو تاریخ کی تعلیمِ بالغاں کے کلاس روم میں بلائے۔
پچھلے منگل اور بدھ کے 28/30گھنٹے‘ سال 2023ء میں 1970ء ماڈل الیکشن بنانے والوں نے قیامت برپا کر رکھی۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی بھی لاہور پر اتنا بڑا حملہ نہیں ہوا۔ 1965ء کی جنگ میں بھی نہیں۔ جب دشمن کی ایک جیپ جم خانہ لاہور میں ریکی کرکے بھی چلی گئی۔ رَن آف کَچھ اور1971ء کی جنگوں میں بھی لاہور نے اتنا بڑا محاصرہ‘ دھویں اور بارود کی برسات نہیں دیکھی۔ ایکسپائرڈ شدہ آنسو گیس کے ہزاروں گولے۔
پاکستان کی جوڈیشل ہسٹری میں بھی پہلی مرتبہ کسی پرائیوٹ کمپلینٹ میں‘ جس کے لیے ضابطہ فوجداری‘ یعنی کریمنل پروسیجر ایکٹ مجریہ سال 1898ء کے چیپٹر (XVI) میں دفعہ200تا 203پڑھ کر دیکھ لیں‘ اس طرح کے وارنٹ‘ اتنی گاڑیاں‘ پولیس اور دوسرے لاء انفورسمنٹ اداروں کے اتنے دستے‘ اتنی ٹیمیں‘ اتنے ہتھیار‘ ایک وارنٹ بصورتِ نوٹس حاضری کی تعمیل کرانے کے لیے کبھی استعمال نہیں کیے گئے۔
یہ ایسا منظر نامہ تھا جس پر اقوامِ متحدہ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ ہیومن رائٹس واچ‘ امریکن کانگریس مین‘ بین الاقوامی تجزیہ کار اور صحافی‘ بینظیر بھٹو شہید کی پرانی دوست‘ جو میری بھی جاننے والی ہیں‘ Christina Lamb (جن سے میری تازہ ملاقات 2022ء کے پہلے ہاف میں ہوئی اور پاکستان پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ پاکستانی سیاست پر دو کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں سے ایک کتاب کا نام Waiting for Allah ہے)الغرض سبھی اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ عمران خان پر مسلسل جان لیوا‘ بے رحم اور سوچے سمجھے حملوں کے نتیجے میں ساری دنیا کے آزادی پسند سیاست کار چیخ پڑے ہیں۔
ان حملوں کے دوران پاکستان کے آئین پہ ایک اور حملہ ہو گیا۔ جس کے مطابق ٹاپ بیوروکریسی‘ پولیس اور دیگر‘ سب نے الیکشن کمیشن کو حکمیہ بتایا کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرانے کے لیے سکیورٹی مہیا نہیں کر سکتے۔ یہ وہی عناصر ہیں جو علی بلال عرف ظلِ شاہ کے کسٹوڈیل قتل سے پہلے اور اس کی شہادت کے بعد بھی اس وقت تک ملک کی واحد مقبول ترین سیاسی پارٹی کی الیکشن مہم روکنے کے لیے اتنے بڑے بڑے بندوبست کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ بندوبست جو آپ نے عمران خان کی گرفتاری پر ایک رات میں آنسو گیس کی بارشوں اور لائیو بندوقوں کی تڑتڑاہٹ کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ یہ بہانہ کون مانے گا‘ کیسے مانے گا کہ ان کے پاس الیکشن کرانے کے لیے سکیورٹی نہیں۔ آئین پہ ایک اور حملہ ایک وزارت نے بھی کر دیا۔
وزارتِ خزانہ الیکشن کمیشن سے بولی: میرے پاس الیکشن کرانے کے لیے پیسے نہیں۔ اسلام آباد کی بات میں آپ کو بتا دیتا ہوں‘ باقی ملک کا آپ بتا دیں۔ جہاں جہاں لاڈلے ٹھیکیدار ہیں‘ وہاں وہاں ہر صوبے‘ ہر شہر میں ترقیاتی پروجیکٹس جاری ہیں‘ دن رات۔ اسلام آباد میں آپ جس راستے سے داخل ہوں‘ آپ کو نئے انٹرچینج‘ نئے پروجیکٹس پر دن رات کام جاری ملے گا۔
2023ء میں 1970ء ماڈل الیکشن ممکن بنانے کے لیے وہ کچھ ہو رہا ہے جسے قلم و قرطاس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان پر یہ سطریں لکھتے وقت 85ویں ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ توہینِ ریاست‘ بغاوت‘ بلوہ‘ سازشِ مجرمانہ‘ توہینِ عدالت‘ توہینِ الیکشن کمیشن‘ توہینِ توشہ خانہ‘ توہینِ ادارہ جات‘ دہشت گردی‘ ظلِ شاہ کا قتل‘ قاتلانہ حملے‘ اقدامِ قتل‘ کارِ سرکار میں مداخلت سمیت شاید ہی کوئی جرم ایسا ہو جس میں ایف آئی آر عمران خان پر نہ کٹی ہو۔
اردوان کے ترکی کے بعد عمران خان کے پاکستان نے دو راتوں تک مسلسل جاگ کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ گردشِ ایام کو 2023ء سے 1970ء میں واپس نہیں لایا جا سکتا۔