یہ انگریزوں کا ایجنٹ ہے۔ اسے نہ سیاست کی سمجھ ہے‘ نہ مذہب کی تفہیم۔ یہ صرف ملک توڑنا چاہتا ہے۔ ہم اس کو کچل کر رکھ دیں گے۔ یہ دھوکے باز اور فراڈیا ہے۔ جلد اس کو اٹھا کر ہم سات سمندر پار پھینک دیں گے۔
1930ء کے عشرے سے شروع کرکے 1940ء کے منٹو پارک میں قرادادِ پاکستان پاس ہونے تک‘ پھر رمضان کریم کی 27تاریخ‘ بمطابق 14اگست کی شب‘ عیسوی سال 1947ء تک۔ اوپر درج سارے فتوے اس قوم کے باپ کے خلاف لگائے گئے۔ فتویٰ باز کانگریسی مولوی بھی تھے اور دوسرے سیاستکار بھی جو سامنے مذہب کا بینر لگا کر پیچھے سے اپنے مفادات کی توپیں داغ رہے تھے۔
اس دور کے اخبارات‘ اگر باقی سارے چھوڑ بھی دیے جائیں‘ صرف زمیندار اور پیسہ اخبار لے لیں‘ کچھ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے جریدے‘ رسائل‘ مکتوب‘ بیانات‘ ہفت روزے یا ماہ نامے ہی دیکھ لیے جائیں تو پتا چل جائے گا کہ برما کے بارڈر سے لے کر ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور بنگال کی واٹر لینڈ سے شروع کرکے افغانستان کی سرحد تک‘ بیرسٹر محمد علی جناحؒ کے بارے میں وہ وہ کچھ لکھا‘ بولا اور چھاپا گیا جو تقریباً ناقابلِ اشاعت ہے۔ آج کے وکالت نامے کے اینٹرو میں علم الکلام کے بڑے بڑے ماہرین کی بدکلامیوں میں سے یہ مہذب ترین الفاظ ہیں جو محتاط ترین سمجھ کر یہاں پہ استعمال ہوئے۔
ویسے آپس کی بات ہے‘ دنیا اخبار کا جو بھی قاری ان الفاظ کو پڑھے گا‘ اس کا پہلا دھیان صرف اور صرف عمران خان کی طرف ہی جائے گا۔ اس لیے آپ اسے تاریخ کا وہ سبق کہہ لیں جو پاکستان کے عام آدمی کو معاشی‘ سیاسی اور مواقع (Opportunities) کی دنیا میں غلامی کی زنجیر ڈالے رکھنے کے خواہش مند‘ کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے سال 1930ء سے لے کر آج 2023ء تک‘ یہ روِش نہیں بدل سکی۔ ذہنیت بھی نہ تبدیل ہوئی۔ پری پارٹیشن اور پوسٹ پارٹیشن آف انڈیا صرف آقائوں کے رنگ بدلے اور نام بدلے۔ غلامی کی خو بدلنے کے خواہشمندوں کو ہمیشہ کچل کر رکھ دیا گیا۔ کبھی سیاسی جماعتوں پر EBDOلگا کر‘ کبھی وزیراعظموں کو قتل کر کے‘ کبھی غیرجماعتی مجلس کا شورا بنا کر۔
تبھی تو اسی غلامی پر اعلانِ بغاوت کرنے والے پچھلی صدی کے شاعرِ عوام حبیب جالب نے حقیقت حال یوں بیان کی؛
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دِن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
یہ المیاتی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں چھ‘ سات ماؤتھ پیس۔ چھ‘ سات ان کے سرپرست اور درجن بھر ڈھنڈورچی لوگوں کو 75 سال سے یہ یقین دلاتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو فری اینڈ فیئر الیکشن سے شدید خطرہ ہے۔ پچھلی تاریخ میں نہ بھی جائیں تو ابھی کل کی بات ہے‘ USSRوالے روس کا بارڈر درۂ واخان سے ہمارے بارڈر کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ روس کی سلامتی کا جس قدر سازو سامان اس نے جمع کر رکھا تھا‘ اس کے خوف سے دنیا آج بھی کانپ اٹھتی ہے۔ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والا کوئی الیکشن بھی نہیں ہوا۔ کال مارکس اور لینن کا انقلاب ایک ارفع سیاسی نظام کا ایسا تصور تھا جس میں مزدور کا راج تھا‘ کسان کے لیے ''جہیڑا واہوے‘ اُو ہو اِی کھاوے‘‘ کی پالیسیاں تھی۔ سب کچھ قوم کی ملکیت تھا مگر جوزف سٹالن کے جاتے جاتے دنیاکے سب سے عظیم معاشی اور اشتراکی انقلاب کو (اشتراکی سے میری مراد اور Understanding ریاست کے وسائل اور عوام کی اونرشپ والی پارٹنرشپ ہے) روس کی اپنی فوج نے ڈکٹیٹر شپ میں بدل ڈالا۔ الیکشن کے نام پر ووٹ ڈالنے والے عام آدمی کے بجائے‘ ووٹوں کی گنتی کرنے والے منیجرز جیتنے شروع ہوگئے۔ آخرِکار تازہ صدیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ جس نے دنیا کو ہاتھ پائوں سے باندھ کر عالمی ڈکٹیٹر شپ کے گِدھوں کے حوالے کر دیا۔ کون نہیں جانتا کہ ایک طرف روس کا گوربا چوف ہوگیا جبکہ دوسری جانب امریکہ بہادر کا نیو ورلڈ آرڈر انگڑائی لے کر کھڑا ہوگیا۔
یوکرین میں ہسپتال کم تھے اور نیوکلیئر ہتھیار کئی سو گنا زیادہ۔ پاپولر ووٹ سے منتخب ہونے والی خاتون صدر Yulia Tymoshenko پر طرح طرح کے مقدمات کی بھرمار کی گئی۔ بے چاری صدر کو اپنی فیملی سمیت کینگرو کورٹس سے سزائیں سنائی گئیں۔ پھر خاتون صدر کی جگہ پر سافٹ رجیم چینج کے ذریعے ٹی وی کے ایک ناکام کامیڈین Volodymyr Oleksandrovych Zelenskyy نامی مزاحیہ اداکار کو یوکرین کی تقدیر کا مالک بنا دیا۔ پورے مغرب بشمول امریکہ کی امداد کے باوجود آج یوکرین کے بڑے بڑے شہر 1979ء والے افغانستان کی تصویر بن چکے ہیں مگر یوکرین کا مزاحیہ اداکار مغرب کے مین سٹریم میڈیا اور وٹس ایپ پر جنگ لڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ دو دن پہلے جرمنی کے DWٹی وی نے ہمت کرکے ایک ڈاکیو منٹری چلائی جس میں یوکرین کے شہروں اور بستیوں کی دلخراش صورتحال دیکھنے کو ملی۔ تباہ کن!
اس ہفتے‘ اتوار کی درمیانی رات عمران خان نے اپنا مقدمہ لاہوریوں کی عدالت میں پیش کیا۔ وہاں کھڑے ہو کر جہاں اس کے محبوب لیڈر اور ہمارے فادر آف دی نیشن قائداعظم ؒ کے ان قدموں کے نشان ہیں جن پر چل کر ہم ایک قوم کی حیثیت سے علامہ اقبالؒ کے بتائے ہوئے نشانِ منزل تک پہنچ پائے۔ یہ صرف انگریزی استعمار سے آزادی نہیں تھی بلکہ متحدہ ہندوستان میں پائے جانے والے ہر طرح کے استعمار کی غلامی کے خلاف اعلانِ انکار بھی تھا۔ اس مقدمے کا عنوان پنجاب کے باسیوں نے لاہوریے بنام وغیرہ وغیرہ رکھ دیا۔
پہلا وغیرہ وہ تھا جس نے انتخابی مہم کا جلسہ روکنے کے لیے ظلِ شاہ کے یومِ شہادت والا حملہ کیا۔ دوسرا وغیرہ وہ جس نے عمران خان کے خلاف 148مقدمے درج کرائے جن میں سے 41پرچے دہشت گردی کے الزام میں کاٹے گئے اور ایک 302کا مقدمہ۔ ایک اور وغیرہ جو ملک کی سب سے بڑی عدالت کا حکم ماننے سے انکاری ہے‘ اس نے اسلام آباد کی ضلعی عدالت کے ایک سمن کی تعمیل کے لیے باوردی اور بے وردی 20 ہزار ہر طرح سے مسلح ریاستی اہلکاروں کا لشکر تیار کیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ ہم عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرانے آئے ہیں مگر عمران خان کے گھر کے درو دیوار پر گیس چارج‘ لاٹھی چارج کے بعد بلڈوزر چارج سے حملہ ہوا۔
لاہوریوں نے 25 مارچ کے محاصرے کو ہوا میں اڑا دیا۔ 5 ہزار جلوس والے سیاسی فنکار بھی اپنے آپ کو ملین مارچ کہتے ہیں۔ کل صحیح معنو میں لاکھوں کا مجمع تھا۔ کروڑوں لگا کر ہزاروں کنٹینرز سے راستے بند کیے گئے لیکن لاہوریے سارے وغیرہ وغیرہ سے بھاری اکثریت کے ساتھ جیت گئے۔
عمران خان نے جنرل باجوہ سے سوالات پوچھے۔ رجیم چینج والی آخری رات کی ڈھلتی شام میں وزیراعظم عمران خان کے آفس سے نکلا۔ باجوہ صاحب پنجابی انداز میں کھلے ڈلے ملے۔ پوچھا: بابر صاحب پارلیمنٹ وِچ کی کروگے۔ ان کے ساتھ تپاک سے ملنے والے پوٹھوہاریے بھی تھے۔ میں نے کہا: تُسی کُج نہ کیتا تے اَسی ہاراں گے نئی۔ جنرل باجوہ بولے: اے سُن لو‘ کر لو گَل۔ میں کوئی جوابی جملہ کہے بغیر پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔