جی ہاں! آئین اور سلور میں سخت مقابلہ جاری ہے۔ جبکہ جوبلی بیچاری محض تماشائی ہے۔ سلور آپ جانتے ہی ہیں چاندی کو کہتے ہیں‘اس لیے یہ آئین اُن کے تحفظ کے لیے ہے جن کی اس ملک میں چاندی ہے۔
ایک تھے پروفیسر صاحب جو گرفتار ہوئے۔ مجھے اُ ن کی گرفتاری کا پتا تھا نہ یہ معلوم کہ اُن پر الزام کیا ہے؟اُنہیں خود بھی پتا نہیں تھا کہ اُن پہ الزام کیا ہے۔ میں ایک دوسرے مقدمے میں دلائل دینے کے لیے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچا۔ دلائل ختم ہوئے تو پاکستان کے سب سے سینئر سیشن جج جناب راجہ جواد عباس‘ جن کا تعلق بلوچستان سے ہے‘کہنے لگے: ذرا بات سن کر جائیں۔ میں رُک گیا۔ جج صاحب نے فرمایا: میری عدالت میں دوروز قبل ایک ایسا ملزم پیش کیا گیا جو یونیورسٹی پروفیسر ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معصوم۔
پولیس پروفیسر صاحب کو کچھ دوسرے ملزموں کے ساتھ شناخت پریڈ کروانے کے لیے عدالت میں لائی تھی۔ میری نظر پروفیسر صاحب پر پڑی تو میں نے اُن سے سوال کیاآپ کس جرم میں گرفتار ہوئے ہیں؟ پروفیسر صاحب کا معصومانہ جواب حیران کردینے والا تھا۔ کہا: سیکٹر H-8میں سڑک پر پیدل جا رہا تھاپولیس کی گاڑی آئی اور مجھے گرفتار کر کے بند کر دیا۔(H-8اسلام آباد کا تعلیمی سیکٹر ہے رہائشی نہیں‘ جہاں لاتعداد کالجز اور یونیورسٹیاں بھی ہیں)۔
فاضل جج راجہ جواد عباس نے پروفیسر صاحب سے ایک اور سوال کیا۔جس کے جواب نے اُنہیں حیرتوں کے سمندر میں ڈبو دیا۔جج صاحب نے پروفیسر صاحب سے پوچھا: یہ جوڈیشل کمپلیکس کہاں ہے؟ پروفیسر صاحب بولے اُدھر ہی کہیں ہے۔ راجہ جواد عباس جو جوڈیشل کمپلیکس کے ایڈمنسٹریٹر جج بھی ہیں۔ مجھے کہنے لگے: جس شخص کو گرفتاری کے بعد بھی پتا نہیں تھا جوڈیشل کمپلیکس کہاں ہے۔ آپ اُس کی ضمانت دائر کر دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور پروفیسر صاحب جرمِ بے گناہی میں دو ہفتے کی اڈیالہ جیل کاٹ کر اب اپنے گھرواپس پہنچ چکے ہیں۔اُن کے پاس کوئی جائیداد یا زمین اسلام آباد میں نہیں تھی۔ اس لیے اُن کی ضمانت پر رہائی کا مچلکہ(Bail Bond)25ہزار روپے نقدی کی صورت میں میرے لاء آفس نے PDMسرکار کے خزانے میں جمع کروایا۔
یادش بخیر! پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس صاحب کو صاحبِ طرز جوڈیشل لکھاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نئے نئے چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو میں اُن کی عدالت میں ایک فریق کی طرف سے ایک پیچیدہ فوجداری مقدمے میں پیش ہونے کھڑا ہوا۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ آپ سے کچھ کہنا ہے‘ کیس کی سماعت کے بعد سُن کر جائیے گا۔ سماعت ختم ہوئی تو مجھ سمیت عدالت میں موجود دوسرے وکلا سے کہا :آپ کی معاونت عدالت کو درکارہے۔ میں چاہتا ہوں کہ سینئر وکیل کچھ فوجداری مقدمات بغیر فیس کے بھی لڑیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ سزائے موت کے سنگین جرم میں بھی ملزموں کی خاصی تعداد ایسی ہے جو سپریم کورٹ میں ماہر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مالی طاقت نہیں رکھتی‘ لہٰذا مجبوراًوہ جیل کے کسی منشی سے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپیل بذریعہ ڈاک بھجواتے ہیں جسے سپریم کورٹ رولز کے مطابق Criminal J.P کہا جاتا ہے؛ یعنی جیل سے آئی ہوئی اپیل۔ میں نے فاضل چیف جسٹس کی اس مثبت اور پیشہ ورانہ سوچ کی توصیف میں ایک جملہ کہا اور ساتھ عرض کیا سپریم کورٹ ایسے جتنے مقدمات میرے ذمے لگائے گی‘ میری خدمات بخوشی اس طرح کے بے آسرا قیدیوں کے لیے حاضر ہیں۔
بے آسرا سے یاد آیا‘اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پورے پاکستان میں 3100سے زائد کارکن‘ سوشل میڈیا کے ارکان‘ میڈیا انفلوئنسر لڑکیاں لڑکے‘ رپورٹرز‘ وی لاگرز اور بلاگرز گرفتار ہیں۔دوسری جانب سینیٹ میں عین اس وقت آئینی نظام کی سلور جوبلی منائی گئی۔ ایسی سلور والی جوبلی جس میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ مقررین لائے گئے جن میں سے اکثر جابر حکمران سے پوچھ کر کلمۂ حق کہنے کے گُرو سمجھے جاتے ہیں۔ میں نے سینیٹ میں ایک عشرے سے زیادہ عرصہ گزارا مگر‘مجھے اس سلوروالی جوبلی میں نہیں بلایا گیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں اُن لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی جو اس طرح کی تقریبات میں ''مثبت نتائج‘‘نہ دے سکیں یا جن کے آئو ٹ آف کنٹرول ہونے کا ٹریک ریکارڈ پایا جاتا ہو۔
بہر حال میں نے ایک بڑے کو ٹیلی فون ملوایا۔ گفتگو کا لبِ لباب یہ تھا ''سرجی! ہم تو آپ کی راہ دیکھتے رہ گئے‘ آپ کے خیالات سننے کا موقع ہی نہیں ملا‘‘۔ اس پہ میرا بے اختیار قہقہہ نکل آیا۔ جس کے بعد میں نے کہا کہ مجھے آنے کی کوئی دعوت نہیں ملی تھی۔ فوراًجواب آیا: دراصل ہم نے اخبار میں اشتہارچھپوا دیا تھا کہ جو کوئی بھی تقریر کرنا چاہے وہ اپنا نام لکھوا دے۔ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ عرض کیا :میں آپ کی مجبوریاں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ آپ نے اشتہار پرستان سے نکلنے والے ہفت روزہ اُڑن کھٹولا میں دیا ہوگا۔ میں قائداعظم والے پاکستان میں رہتا ہوں۔ کہاں اُڑن کھٹولا اور کہاں میں۔
ان دنوں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو 1997ء جیسے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے ایک طویل اختلافی نوٹ تحریر کیا جس کے دو حصوں کا یہاں حوالہ دینا بنتا بھی ہے اورمناسب بھی رہے گا۔
پہلا حصہ: جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے اپنے نوٹ میں کہا‘ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے حوالے سے ازخود نوٹس لینا غلط تھا۔ فاضل جج صاحب نے سپریم کور ٹ کی اندرونی ورکنگ پر بے لاگ طریقے سے اپنا مؤقف تحریر کیا۔ جس پر مختلف الخیال تبصرے سامنے آرہے ہیں۔
دوسرا حصہ: جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے سپریم کورٹ کو سیاسی امور میں گھسیٹنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیااور ساتھ ہی کہا کہ سیاسی لوگ اپنے تنازعات عدالت کے متھے مارتے ہیں تو وہ جیت جاتے ہیں مگر عدالت ہار جاتی ہے۔ اس اختلافی نوٹ کا آنا تھا کہ( ن) لیگ کی دو خواتین نے 100 کہانیاں گھڑ کر چیف جسٹس پاکستان سے مستعفی ہونے کامطالبہ کر دیا۔ دونوں نے تقریریں کیں۔ ججز کے لیے Name and Shame والے ٹرینڈز سوشل میڈیا پر چلائے۔ ساتھ ہی اسلام آباد اور پوٹھوہار کے قدیمی گائوں ملپور کی ایک چھوٹی سی ڈھوک مانولہ کے رہنے والے (ن) لیگ کےUCکونسلر امیدوار سے چیف جسٹس کے خلاف ایک درخواست داغ دی۔ جس میں لکھا‘چیف جسٹس نے 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کا فیصلہ دے کر سخت مس کنڈکٹ کیا ہے۔اس لیے اُنہیں آئین کے آرٹیکل 209کے نیچے بھیج دیا جائے۔
غیر نمائندہ پھُس پُھسی پارلیمنٹ میں 13 جڑی بوٹیوں کو برسر اقتدار لانے والے ساحر فیصل آبادی نے آئین اور سلور سمیٹنے کے بعد اپنی جوبلی ان لفظوں میں بنائی۔
مطلب نکل گیا ہے تو ''پشانتے‘‘ نہیں
یوں جا رہے ہیں جیسے ہمیں ''یانتے‘‘ نہیں