پچھلے سال ماہِ اپریل کے اِسی ہفتے میں عمران خان کی پہلی منتخب حکومت کو گرایا گیا۔ جسے سافٹ کُو دیتا نت کا نام ملا‘ رجیم چینج براستہ سائفر کا بھی۔ بہر حال اس تبدیلی کے ''مثبت نتائج‘‘ کے ذریعے جو پارٹیاں اقتدار میں لائی گئیں‘ ان میں سے کم از کم چار معروف پارٹیاں ایسی ہیں جو تقریباً ہمیشہ سے اقتدار میں چلی آتی ہیں۔ (ن) لیگ اور ہائوس آف شریف 1980ء کے عشرے سے‘ سندھ کے موجودہ حکمران 1970ء کے عشرے سے‘ سیاسی مولانا کا جماعتی گروپ 1970ء کے عشرے سے‘ پختون سیاست کرنے والی جماعت کے قائد‘ اس سے پہلے رہبر اور اس سے بھی پہلے خدائی خدمت گار 1940ء کے عشرے سے مقتدر چلے آرہے ہیں۔ جبکہ کراچی کی لسانی پارٹی 1980ء کے عشرے سے پاورکوریڈور کی پارٹنر چلی آتی ہے۔ اس لیے ان قدیم پارٹیوں کا یہ جدید مرکب صحیح معنوں میں سٹیٹس کو کے طاقتور بروکرز کی ایسی حلیم ہے جس کی ریسپی کو عام آدمی بار بار چکھ کر بد مزہ قرار دے چکا ہے۔
اپریل 2022ء والا تجربہ مگرپاکستان کو پچھلے 75سال کے تجربات سے مہنگا پڑا ہے۔ خاص طور پر ملک کی دیہی اور کچی آبادیاں‘ فکسڈ انکم گروپس‘ سرکاری ملازمین‘ دیہاڑی دار‘ چھوٹے تاجر اور ہر ایسا گھر جس میں بجلی سے بلب جلتا ہے یا گیس سے چولہا چلتا ہے‘ اس کی آمدن مہنگائی اور افراطِ زر کو خاک میچ کرے گی۔
پٹرول اور ڈیزل استعمال کرنے والوں کا تو اس سے بھی برا حال ہے۔ ویسے بھی معاشی منصوبہ بندی اور معیشت موجودہ طرزِ حکمرانی کی سرے سے ترجیح ہی نہیں۔ اس لیے کھانے پینے کی اشیا سے متعلقہ افراطِ زر‘ جسے شماریاتی معیشت کی دنیا میں Consumers Price Indexکہتے ہیں‘ اس کو براہِ راست ڈیزل اور پٹرول کے ریٹ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادھر ڈیزل کی قیمت میں اضافہ ہوا اُدھر مہنگائی کا طوفانِ بدتمیزی کا برہنہ ناچ شروع ہوگیا۔ ہماری معیشت اور بجٹ کوئی راکٹ سائنس نہیں رہی۔ لوگوں کی قوتِ خرید اس قدر نیچے گر چکی ہے جس کی وجہ سے اپنا گھر چلانے والے افراد بھی بنیادی معیشت کے شعور سے واقف ہو چکے ہیں۔
یہ بھی جدید تاریخ کا ایک اہم ترین سبق ہے کہ جس ملک میں معیشت اور ذرائع آمدن میں زمین آسمان کا فرق پڑ جائے وہاں میجر کرائم‘ سنڈیکیٹڈ کرائم اور سٹریٹ کرائم قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ رجیم چینج کے صرف ایک سال بعد کا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے؟ اس کے چند سادہ نکات یہ ہیں:
پہلا نکتہ ڈالر: ماہِ اپریل سال 2022ء میں امریکی ڈالر جس سے ہماری معیشت جڑی ہوئی ہے‘ اس کا ریٹ 174روپے تھا‘ صرف ایک سال بعد کے پاکستان میں ڈالر 290روپے تک پہنچ چکا۔ کاروباری افراد‘ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرنے والے‘ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے کسی بھی شخص سے پوچھ لیں کہ اس قیمت پر بھی ڈالر کی کتنی بڑی شارٹیج ہے۔
دوسر ا نکتہ ڈیزل: گزرے سال 2022ء کے چوتھے مہینے میں ڈیزل کا ریٹ 144روپے فی لیٹر تھا۔ زبردستی کی رجیم چینج کے صرف ایک سال بعد کے پاکستان میں ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے علاوہ آج ڈیزل 297روپے فی لیٹر کے ریٹ پر بِک رہا ہے۔
تیسرا نکتہ حج: کووڈ 19سے پہلے عمران خان کے دورِ حکومت میں ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن حج کی ادائیگی پر حاجیوں نے سرکاری خرچہ 4لاکھ روپے ادا کیا۔ پھر 2019ء کے بعد 2سال کے عرصے تک حج کی ادائیگی بند ہو گئی۔ سائفر زدہ حکومت کے آنے کے بعد حج کا ریٹ ڈبل سے زیادہ کرکے 9لاکھ 65ہزار روپے کر دیا گیا تھا۔ اب رواں سال کے حج میں یہ ریٹ بڑھ کر 14لاکھ روپے تک چلا گیا ہے۔
چوتھا نکتہ پٹرول: عمران خان کے دورِ حکومت میں اپریل 2022ء میں پٹرول کی سیل 149روپے فی لیٹر ہوتی تھی اور اب پٹرول کا نرخ 272روپے فی لیٹر تک پہنچا دیا گیا۔
پانچواں نکتہ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر: اپریل 2022ء میں امریکی ڈالر کے ذخائر 29بلین تک جا پہنچے تھے۔ آج پاکستان کے ڈالر ذخائر کم ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔
چھٹا نکتہ آٹا: ہمارے ملک میں آٹا بنیادی خوراک (Basic Food Item) سمجھا جاتا ہے جو ہر شخص اور ہر گھر کی سب سے ضروری آئٹم ہے۔ اپریل 2022ء‘ دورِ عمران میں آٹا 55روپے فی کلو گرام دستیاب تھا۔ آج صرف ایک سال بعد آٹا 160روپے فی کلو گرام سے بھی آگے نکل گیا۔ آٹے کی لائنوں میں بچے‘ خواتین‘ بزرگ اور نوجوان بے توقیر ہو کر جاں بحق ہوئے۔ انتہائی ناقص آٹے کی تقسیم کے ذریعے اربوں روپے ہوا میں اڑا دیے گئے۔
ساتواں نکتہ لاء اینڈ آرڈر: عمران خان کے دورِ حکومت میں لاء اینڈ آرڈر کا گراف 92 فیصد سکیورٹی کے درجے تک جا پہنچا تھا۔ انتہائی ٹربل والے چمن اور طورخم کے مغربی بارڈر سمیت صورتحال قابو میں تھی۔ اسی دور میں سب سے تیز رفتاری کے ساتھ افغانستان والے بارڈر پر باڑ لگائی گئی۔ اب وہ باڑ بے حال ہے اور امن و امان میں سکیورٹی 92 فیصد سے گِر کر 25 فیصد تک نیچے آگئی ہے۔
آٹھواں نکتہ شرحِ ترقی: اپریل 2022ء کے پاکستان میں شرحِ ترقی کی رفتار میں 6.76 فیصد تھی جو کہ استحکام والی (Sustainable) شرحِ ترقی تھی۔ آج یہ لکھتے ہوئے قلب اور قلم دونوں خون کے آنسو روتے ہیں کہ اپریل 2023ء میں یہ شرحِ ترقی 0.023فیصد پر کریش کر چکی ہے۔
آج کے پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جن کے ذمے ریاست کا سود وزیاں ہے‘ وہ زبردستی مسلط کردہ امپورٹڈ حکومت کا نتیجہ دیکھنے کے بعد بھی خود اپنے کارواں کو مزید لٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔ سب سے بڑا خوفناک بحران قومی اداروں کے باہمی تعلقات کا ہے۔ پوشیدہ اور نیم پوشیدہ‘ اب سب کچھ کھل چکا ہے۔ فارسی کی کہاوت ہے‘ لوٹے کے اندر جو گند تھا وہ باہر نکل آیا۔
ورلڈ بینک‘ IMF‘ ADB اور دوسرے ڈونر ممالک۔ یہ سن کر ہکے بکے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اپنی سپریم کورٹ کی اتھارٹی ماننے سے کھل کر انکاری ہے۔ دنیا کا کوئی چھوٹا موٹا سرمایہ کار ایسے ملک میں ٹیڈی پیسہ بھی نہیں لگائے گا جس کی حکومت اپنے Last Arbitrator کا اختیار ہی نہ مانے۔ یہ حقیقت طے ہے کہ قرضہ اندرونی ہو یا بیرونی‘ انویسٹمنٹ ملکی ہو یا غیر ملکی‘ فریقین میں تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ہر ایگریمنٹ میں Arbitration Clause رکھی جاتی ہے۔ کون پاگل ہے جو ایسی سرزمین میں ڈالر پھینکے جہاں ثالثی کلاز تو دور کی بات ہے‘ پارلیمان اور حکمران دونوں اپنے سب سے بڑے ثالث کے خلاف روزانہ اعلانِ جنگ کرتے ہیں۔ یہ ہے عمران خان کے صرف ایک سال بعد کا پاکستان۔