جگ ہنسائی اور رسوائی کوئی کسی کے لیے ڈیزائن/ انجینئر نہیں کر سکتا‘ خواہ وہ فرد ہو یا ادارہ‘ قوم ہو یا سماج۔ جگ ہنسائی اور رسوائی اس کی اپنی محنت کی کمائی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 2آئین ساز اسمبلیاں معرضِ وجود میں آئیں۔ پہلی کا بنایا ہوا آئین چند برسوں کے اندر اندر پورے قومی اعزاز کے ساتھ ہم نے سپردِ خاک کر دیا۔ دوسری اسمبلی کا بنایا ہوا آئین بھی Undertakers نے ایک عشرے سے بھی کم عرصے میں اندھے کنویں کی نذرکر ڈالا۔
1977ء کا مارشل لا شروع ہوا تو اس کے بانیوں نے مغربی میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں 3 باتیں انتہائی پُراعتماد لہجے اور مقدس لفظوں میں لپیٹ کر بیان کی تھیں۔ پہلی یہ کہ We are not here for years. Its a matter of few months. مطلب یہ ہوا کہ مارشل لا سال ہا سال کے لیے نہیں لگایا گیا‘ ہم یہاں بہت عارضی عرصے کے لیے آئے ہیں جو چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوگا۔
دوسرے نمبر پر یہ کہا گیا کہ ہم ملک کو استحکام دینا چاہتے ہیں۔ ایسا نظامِ حکومت ہونا چاہیے جس پر لوگ اعتماد کر سکیں۔ یہ بیان نہ بلیک تھا نہ ہی مؤقف وائٹ بلکہ یہیں سے گرے ایریا شروع ہو گیا۔ تیسرا یہ بتایا گیا کہ ہم (یعنی مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز) یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن اس طرح سے منعقد کرایا جائے کہ اس کے ''مثبت نتائج‘‘ سامنے آسکیں۔
پارلیمنٹ کے لیے یہیں سے رسوائی والی بات آگے بڑھتی ہے۔ نہ تو حسبِ وعدہ 90دن کی آئینی میعاد کے اندر الیکشن منعقد کرائے گئے اور نہ ہی مارشل لا نے تین ماہ کی میعاد پہ اکتفا کیا۔ پھر ملک بھر سے اسلامی نظام کے نام پر ایسے ایسے ماہرین ڈھونڈے گئے جن کی اولادیں اب ارب پتی ہیں۔
وہ اتالیق‘ جو سائیکل پر سوار ہو کر 1977ء کے مارشل لا کی حکومت کی بینڈ ویگن پر چڑھے تھے‘ آج ان کی تین نسلیں خاندانی امیر کہلانے پر فخر کرتی ہیں۔ بزنس‘ پلازے‘ پٹرول کمپنیاں‘ گیس سٹیشنز اور کئی کئی ملکوں میں جائیدادیں۔ اس دور کو صحیح معنوں میں پاکستان کے وسائل پر گِدھوں (Vultures ) کے پے درپے نزول کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں ایک دلچسپ حقیقت جان لیتے ہیں۔ ان دنوں پاکستان میں آپ کو جتنے بزرگ سیاست کار نظر آتے ہیں‘ جن کے پاس عالیشان محلات‘ اَن گنت اثاثے اور لامحدود دولت ہے‘ وہ اُسی دور کی لوئر مڈل کلاس کے لوگ تھے۔ اکثر دوستوں کی مانگی ہوئی موٹر سائیکل اور GTSکی بسوں پر سفر کرنے والے۔ اس زمانے کے سب سے بڑے مارشلائی Beneficiary بزنس مین اور اس کے دو بھائیوں کے پاس اہلِ خانہ سمیت ایک Morrisگاڑی تھی۔ جو اس دور کی مشہور ٹیکسی گنی جاتی ہے۔ تب ٹیکسی کو Yellow Cabکوئی نہیں کہتا تھا بلکہ وہ والی ٹیکسی دو رنگی تھی۔
سال 1985ء میں پارلیمنٹ کے بجائے شورے کی مجلس تیار کی گئی۔ سیاسی جماعتیں غیرمؤثر کرکے مثبت نتائج نکالنے کیلئے سماجی یتیم اور سیاسی لاوارث اس کے ممبرز بنائے گئے۔ اسی شورے میں آئین کے آرٹیکل 270 میں پہلی تباہ کن ترمیم کا اضافہ ہوا۔ وہ بھی بذریعہP.O. No. 14 of 1985 پاکستان کے نظامِ عدل پر اتفاقات کی فائونڈری کے تالے مارنے کا عمل شروع ہو گیا۔ آئین میں اس ترمیم کے ذریعے سے آرٹیکل 270میں ذیلی شق (2) ڈالی گئی جس کی رسوا کن زبان یہ ہے:
Article 270(2)
Notwithstanding a judgment of any court, a law made by Majlis-e-Shoora (Parliament) under clause (1) shall not be questioned in any court on any ground whatsoever.
اس دور میں یہ خطرہ پیدا ہو چلا تھا کہ انصاف نامی بٹیرہ کہیں ہاتھ سے نہ پھسل جائے۔ اس لیے اعلیٰ عدلیہ کے جس بھی جج سے ذرا بھر منصفی کی توقع تھی اس پر لیگل فریم ورک آرڈر کا کلہاڑا چلاد یا گیا۔ اسی آرٹیکل کی ذیلی شق (4) میں پچھلے مارشل لائوں کو بھی مکمل تحفظ دیا گیا۔ چنانچہ مارشل لا کے سارے آرڈرز‘ ہر طرح کی کارروائیاں اور All Acts doneکہہ کے مارشل لا کی قید‘ پھانسی‘ کوڑے‘ جلا وطنیاں‘ حبسِ بے جا اس دور کی جس بھی اتھارٹی یا پھر اور Any other personیا پھر اتھارٹی کے نام پر کسی دوسرے شخص نے بھی ایسی کارروائی کر دی تو اسے بھی تحفظ مل گیا۔ اس کے لیے 25مارچ 1969ء سے شروع کرکے 19دسمبر 1971ء تک (دونوں دِن شامل کرکے) سارے آئین شکن اور ماورائے قانون اقدامات پارلیمنٹ نے محفوظ بنا دیے۔
اسی تسلسل میں پارلیمنٹ نے رسوائی کے ریکارڈ قائم کرنے کے لیے ایک نیا آرٹیکل 270-Aدریافت کیا۔ جس میں 5جولائی سال 1977ء کے مارشل لا کے نفاذ کے حکم نامے اور ریفرنڈم آرڈر 1984ء بھی عدلیہ کی پہنچ سے دور ہوگیا۔ 270-Aکی ذیلی شق 4میں پاکستان کے آئینی و قانونی نظامِ انصاف کے خلاف سول جج سے لے کر سپریم کورٹ تک ان لفظوں میں پابندی لگا دی گئی:
No Suit, prosecution or other proceedings shall lie in any court against any authourity or any person. جبکہ ذیلی آرٹیکل(5) میں کہا گیا کہ مارشل لا کے نیچے جو کچھ بھی ہوا‘ اسے Good faithیعنی نیک نیتی اور آگے لکھے گئے اچھے مقاصد کے لیے سمجھا جائے۔ اس کے بعد آئین شکنی کا اگلا جنکشن آگیا۔ جسے Proclamation of emergency of 14th day of October 1999کا ٹائٹل ملا۔ اسی کے تحت اعلیٰ عدلیہ کی رخصتی اور ججز کے لیے مارشل لاء سے وفاداری کے حلف سمیت LFOآرڈر نمبر 32 آف 2002ء تک تمام ماورائے آئین اقدامات کو پارلیمانی تحفظ ملا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پارلیمنٹ کے اندر شروع ہونے والی بات ہے رسوائی کی‘ کہیں رکی بھی یا نہیں؟ اس کا جواب آئین کی کتاب نفی میں دیتی ہے۔ ثبوت کے لیے ملاحظہ ہو آرٹیکل 270-AAA۔ جس میں 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی سمیت PCO-No.1 of 2007سب بدبودار اقدامات پر آئین کی جنم جنم والی چادر ایک بار پھر استعمال ہوئی۔
1973ء کے آئین کے Authorفیڈرل لاء منسٹر مرحوم عبدالحفیظ پیر زادہ تھے۔ اس آئین کو ازسرِ نو مرتب کرتے وقت Co-Authorکے طور پر میں فیڈرل لا منسٹر تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے جن لوگوں کی حکومتیں اسکندر مرزا‘ ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے گرائیں‘ ان کی اسمبلیاں توڑیں اور وہ جنہوں نے مجھے کیوں نکالا کے بین کیے‘ ان سب نے اپنے متفقہ آئین سے کوفیوں والا سلوک برتا۔ شاید محسنِ پاکستان ڈاکٹر اے کیو خان‘ جن کا کہوٹہ سے لافانی تعلق ہے‘ انہی پارلیمنٹیرینز کے خلاف اور آئین کے حق میں یہ فیصلہ صادر کرنے پر مجبور ہوئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیرؔ
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
(ختم شد)