پچھلی صدی میں ایران کے عوام نے اپنی بادشاہت کا تخت الٹ ڈالا۔ عوامی انقلاب کے رہبر امام خمینی‘ایرانی انقلاب کے بعد ایک بڑے گلوبل آئیکون کے طور پر سامنے آئے اس لیے اُن کی انقلابی سیاست کا حوالہ سیاسیات ِعالم میں آتا ہی رہتا ہے۔ خمینی انقلاب کا تازہ حوالہ قاسم کے ابّا کی پاکستانی جدوجہد کے تناظر میں بھی سامنے آیا ہے۔جس طرح ایران میں امام خمینی روحانی پیشوا مانے جاتے ہیں اسی طرح سے افغانستان میں غیر ملکی قبضہ چھڑانے کی جدوجہد میں حقانی اہم نام سمجھا جاتا ہے۔امریکہ کے معروف نشریاتی ادارے CNNکی اینکر پرسن Christiane Amanpourنے حال ہی میں ایک انٹرویو کیا۔ انٹرویو دینے والا امریکی حقانی ہے‘ افغانی نہیں جس سے میرے تعارف کی کہانی لوٹ کر 1990ء کے عشر ے میں جاتی ہے۔
صحافت کی دنیا میں خلیل ملک مرحوم بڑا اہم نام تھا جو اپنے عروج کے دور میں ایک اندوہناک حادثے میں جان گنوا بیٹھے۔ خلیل ملک کو کرتا پہننے کا بڑا شوق تھا اور اسی لباس میں وہ تقریباً ہر آٹھ‘دس دن بعد شام کے وقت بلیو ایریا اسلام آباد میرے لاء آفس ملنے آتے۔ اس حادثے سے چند دن پہلے وہ آئے اور کہنے لگے کہ چھوٹے ملکوں‘ عبداللہ‘ عبدالرحمن سے ملاقات کروائو۔ تب دونوں سکول کے طالب علم تھے۔ میں نے انہیں گھر سے بلوایا اور ہم چاروں کھانا کھانے نکل گئے۔ خلیل ملک نے مجھے شہید بی بی کے خلاف بنائے گئے چاررکنی میڈیا سیل کی کہانی سنائی۔ جس میں حسین حقانی کا مرکزی کردار تھا۔ بی بی کی کردا رکشی کے لیے اس میڈیا سیل نے ہوائی جہاز سے جو مکروہ پمفلٹ گرائے گئے تھے وہ پوری کہانی مجھے سننے کو ملی۔پھر حقانی نے بی بی کی ایک پولیٹکل سیکرٹری کی بہن سے شادی کر لی اور اس طرح اُسے پیپلز پارٹی کے کیمپ میں بڑی انٹری مل گئی۔ میڈیا سیل کے باقی دوکردار پاکستان میں ہی ہیں مگر ایک نے صحافت چھوڑ دی ہے۔ میڈیا سیل والی دستاویزات اور خلیل ملک والی کہانی پھر سہی۔
سال 1997ء میں اس کہانی کا اگلا باب کھلتا ہے۔ حسین حقانی کی طرف سے بی بی شہید کی پولیٹکل سیکرٹری میرے پاس آئیں‘ وہ شدید پریشان تھیں اور کہنے لگیں کہ گزشتہ رات نواز شریف کے بنائے ہوئے سیف الرحمن احتساب سیل نے حقانی کو اُٹھا لیا ہے‘ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کی شدید پٹائی ہو رہی ہے۔ ہم نے کیس فائل تیار کی اور اگلے دن اسلام آباد کی ایک عدالت میں ملزم کی پیشی کے وقت زیرِ حراست حسین حقانی سے میری ملاقات ہوئی۔ اُن دنوں جہلم کی راجپوت فیملی سے تعلق رکھنے والے سیشن جج اسلام آباد میں تعینات تھے۔بعدازاں وہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس بھی رہے۔ حسین حقانی سے کورٹ کے بینچ پر بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کی بیک اور لوئر بیک شدید زخمی ہیں۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو میں نے سیشن جج صاحب کی اجازت سے اُس کی شرٹ اوپر کروائی‘ اُس کا جسم زخموں سے چُور تھا۔ جج صاحب نے میڈیکل معائنہ کی درخواست منظور کر لی اور اُس کا جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا۔
ہمارے تعارف کا تیسرا بابUSAبہادر میں کھلتا ہے جہاں مجھے بطور وزیر قانون پہلے اور آخری سرکاری دورے پر بھجوایا گیا‘ بلکہ بلوایا گیا۔تفصیل اس اجمال کی سوشل میڈیا پر بھی موجود ہے۔ ہوا یوں کہ اُس وقت کے وفاقی وزیروں کی ایک جوڑی امریکہ کے دورے پر گئی جہاں سے اُن کی وڈیولیک ہوئی‘ جس میں ڈالر کی ویلیں اُڑائی جا رہی تھیں۔ دونوں کو سرکار نے فوراً واپس بلا لیا اور ساتھ ہی میرا Dossier مانگا گیا۔ یوں میرا ہنگامی دورہ طے ہوا جس کے دوران میں نے میڈلین البرائٹ کے تھنک ٹینک سمیت مڈل ایسٹ اور کئی بڑے تھنکرز فورم میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا جس کا محور سوات اور پاکستان میں دہشت گردی سے پیدا ہونے والے سوالات رہے۔اس دوران پاکستان کا امریکہ میں سفیر حسین حقانی تھا جس نے دورے کے چوتھے دن مجھے بتایا کہ میں دبئی میں ہوں اور آپ کی ساری سرگرمیوں کی خبر پر نظر ہے۔مجھے یہ جملہ مزے کا لگا؛ چنانچہ میں نے جواباً کہا: Thanks U.S Ambassador۔
اس تعارف کا ایک اور باب ایسا ہے جس پر میرے نوٹس مکمل ہیں مگر اُس کتاب کی اشاعت سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔کتاب کا عنوان انگریزی میںA Night in the Presidency ہے۔ جس کے واقعات کے چھ گواہان میں سے پانچ حیات ہیں اور ایک راہیٔ ملکِ عدم ہوئے‘ میری مراد مرحوم رحمان ملک سے ہے۔ چشم دید گوا ہوں میں بقیدِ حیات‘ صدر آصف زرداری کے ملٹری سیکرٹری‘ صدر پاکستان کے ڈاکٹر جو میرے کارڈیالوجسٹ بھی ہیں‘ معروف صحافی رانا جواد‘ ایف آئی اے فیم شیخ ریاض‘ایک معروف پراپرٹی ٹائیکون۔ ٹیلی فون کالز کی حد تک بلاول اور ایک ایسے وفاقی وزیر جنہیں باقاعدہ دھول دھپا کھانا پڑا اور آج بھی کلیدی عہدے پر ہیں۔ یہ ایسی ہوش رُبا سچی داستان ہے جس طرح کی ہالی وڈ نے ایک بلاک بسٹر فکشن فلم بنائی اور اس کا نام Night at the Museum رکھا۔
ان دنوں Christiane Amanpour کو دیے گئے انٹر ویو میں امریکی حقانی نے امام خمینی کا جو تذکرہ کیا اس کا اردو ترجمہ حقانی کے اپنے الفاظ میں ان نکات پر مشتمل ہے۔
پہلا نکتہ : حسین حقانی: ''اب پتا چلے گا کہ وہ واقعی پاکستان کا خمینی ہے؟‘‘
دوسرا نکتہ: Christiane Amanpour ''wow! پاکستان کا خمینی؟ میں آپ کو یہیں روکتی ہوں کیونکہ یہ بہت سنجیدہ تبصرہ ہے۔ آپ بنیادی طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان یا عمران خان کی لیڈر شپ قوم کو مزید اسلامی جمہوریہ میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ کیا آپ یہی کہہ رہے ہیں؟
حسین حقانی: بالکل ایسا ہی ہے۔ میں نے ہر وہ وڈیو دیکھی جو اس نے ریلیز کی ہے جب سے اسے عہدے سے ہٹایا گیا ہے، ''اس نے قرآن کی آیات کا استعمال کیا ہے‘‘۔
خمینی بلاشبہ عوامی انقلاب کا ایک استعارہ ہیں جن کے ہاتھوں Status Quo سے بھی بڑا ایلیٹ قبضہ ٹوٹا۔ ایران کی پہلوی بادشاہت کا اب کوئی نام لیوا باقی نہیں۔ ہماری تاریخ کا اصل سبق ہمارے دستور کے مختلف ابواب سے ظاہر ہے۔ آسان ترین لفظوں میں رب کی دھرتی پر اللہ کی مخلوق کی مرضی سے ملک کی مقتدرہ قائم ہو گی۔ وہ بھی ایک آدمی اور ایک ووٹ کے اصول کے تحت چنائو کر کے۔ 1973ء کا یہ دستور قیامِ پاکستان سے استحکامِ پاکستان تک کا راستہ ہے۔خلقِ خدا کے راج پر فیض احمد فیضؔ نے اسی دستورکی زبان بولی تھی‘ وہ بھی ماورائے دستور طرزِ حکمرانی میں۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے...جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے ... یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر ... جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے ... سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ صفا مردودِ حرم ... مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے ... سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا ... اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ... لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے