تھوڑی دیر پہلے مجھے کسی نے دو چیزیں بھیجیں‘ واٹس ایپ کے ذریعے۔ ان میں سے ایک میں آپ کے ساتھ شیئر کر دیتا ہوں‘ جبکہ دوسری شیئر نہیں کر سکتا۔ اس لیے نہیں کے اُس کا کنٹینٹ شر پسند ی پر مبنی ہے یاحب الوطنی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ شیئر اس لیے نہیں کر سکتاکیونکہ وہ ایک ایسا وڈیو کلپ ہے جس میں کوئی بھی منظر قابلِ اعتراض نہیں ۔ظاہر ہے جو قابلِ اعتراض نہ ہواُسے دیکھتا کون ہے۔ اُسے دل پھینکنے والے لائیکس کہاں سے ملیں گے۔ یہ کلپ شہرِ اقتدارکی سابقہ کانسٹیٹیوشن ایونیو پر یونانی بادشاہوں کے محلات سے بڑی پارلیمنٹ کے اندر بنا ہے۔ ایک نوجوان صحافی جو اپنے خزانے کے انچارج وزیر سے سوال کرنا چاہ رہا تھا ‘اُسے پڑنے والے زناٹے دارتھپڑ کی تکبر اور رعونت سے بھرپور کلپ ہے۔ جس میں ریکارڈ شدہ گفتگو اس طرح ہوئی:
صحافی :ڈار صاحب آج بات کریں گے؟
اسحاق ڈار: بڑی بات کر کے آئے ہیں یار۔
صحافی: نہیں IMFپیکیج ہو رہاہے ادھر ‘ یہ جو گئے ہوئے ہیں ہمارے PM صاحب؟سر یہ ناکامی کیوں ہو رہی ہے ‘ ڈار صاحب؟
اسحاق ڈار: جب تک تم جیسے لوگ ہیں نا اس سسٹم میں۔
صحافی : سر ہم سسٹم میں تو نہیں ہیں ۔ہم تو صرف سوال کرتے ہیں نا سر۔
(صحافی کو تھپڑ پڑتا ہے اور پولیس یونیفارم میں موجود ہمرائی گارڈ بھی صحافی پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں)
اسحاق ڈار: کیا چاہتے ہو یار؟
صحافی : لڑتے کیوں ہیں سر؟
اسحاق ڈار: کوئی خدا کا خوف کرو ۔
یہ ایک امیر ملک کے بہت امیر وزیرخزانہ کا اپنے ہی وطن میں ''غریب الوطن ‘‘صحافی کے ساتھ سلوک ہے۔ ظاہر ہے اس کی وڈیو میں وکالت نامے میں شیئر نہیں کر سکتا لیکن اتنا غرور تو شاید فرعون میں بھی نہ ہو۔ ویسے آپس کی بات ہے عید کے دوسرے دن IMFکا پروگرام ختم ہورہا ہے۔ جس کا حل ہماری شہبا ز سپیڈ والی کابینہ نے دو حصوں میں نکال کر قوم کے سامنے رکھ دیا۔پہلا حصہ یہ کہ جس ملک میں سوال پوچھنے والے صحافی سسٹم کے اندر موجود ہوں وہاں IMF سے مذاکرات کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں؟
ویسے بھی منسٹر کوئی مسٹر ہو یا پھر مولانا۔ اگر وہ پاکستانی وزیر ہے تو اُس کے ساتھ انڈیا ‘ برطانیہ ‘ امریکہ‘ چین ‘ کینیڈا وغیرہ کے منسٹر نہ پروٹوکول میں مقابلہ کر سکتے ہیں‘ نہ سرکاری خرچے پرعیاشی میں کوئی مقابلہ ہے۔لیکن اگر آپ نے صرف منسٹرکالونی دیکھ رکھی ہے یا GOR میں منسٹرز کے گھر دیکھ رکھے ہیں تو پھر آپ کو امیتابھ بچن یاد آئیں گے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک آرٹ فلم بنائی تھی جس کا نام رکھا ''بڈھا ہوگا تیرا باپ‘‘۔ اب اگر کوئی مینگو مین یعنی عام آدمی سرکار دربار کے کسی وزیر شزیر سے غریبانہ لہجے میں ملک کی غریبی پر سوال کرے تو منسٹر کا جواب یقیناامیتابھ بچن والا ہوگا۔ غریبی دور کرنے کے لیے یہ بڑا نایاب نسخہ وزیر خزانہ نے امیتابھ بچن سے اُدھار میں لیا ہے۔ملک میں غریبی پر سوال اُٹھانے والے پر پہلے ہاتھ اُٹھائو اور پھر آواز اُونچی سُر میں اُٹھا کر کہو: غریب ہوگا تیرا باپ ۔اسی طرح کی ایک آواز پاکستان کے ایک اور اونچے ایوان میں اُٹھی ہے۔
مگر پاکستانی ایوان میں گھسنے سے پہلے آئیے میں آپ کو سویڈن لے چلتا ہوں جہاں کچھ عرصہ پہلے ایک منسٹر قتل کر دیا گیا تھا۔ وزرا اور ممبرانِ اسمبلی میں خوف کی وجہ سے سراسیمگی پھیل گئی جس کے نتیجے میں ایک ممبر پارلیمنٹ نے قرارداد پیش کر دی کہ حکومت سارے MP's کی سکیورٹی کیلئے پولیس باڈی گارڈ فراہم کرے۔ اس قرارداد پر بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی تو یہ بل کثرت ِرائے سے مسترد کر دیا گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت نے اپنے ہی تحفظ اور فائدے کے خلاف ووٹ کیوں دے ڈالا۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے لیکن اس سے بھی زیادہ اچنبھے کی بات بل کو مسترد کرتے ہوئے سپیکر کی رولنگ تھی۔ جس کا اُردو ترجمہ یہ ہے: '' اس میں کوئی شک نہیں کہ ممبرانِ پارلیمنٹ کی جان قیمتی ہے لیکن یہ اسی طرح قیمتی ہے جس طرح اس ہال میں کھڑے نائب قاصد کی‘ یہ اسی طرح قیمتی ہے جس طرح باہر چوک میں کھڑے گداگر کی۔ ہمارے معاشی حالات اجازت نہیں دیتے کہ ہم ہر ایک شہری کو انفرادی طور پر سکیورٹی اہلکار مہیا کر سکیں اور جب تک ہم اس قابل نہ ہو جائیں کہ ہر شہری کو سکیورٹی مہیا کر سکیں تب تک ہم ممبران کو یہ سہولت کیونکر دے سکتے ہیں‘ لہٰذا بل مسترد کیا جاتا ہے‘‘۔ ''آپ لوگ سیاست میں با امر مجبوری نہیں بلکہ بائی چوائس آئے ہیں۔ سیاست پُر خطر ہے۔ اس میں دشمنیاں ہونا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا کوئی انہونی بات نہیں‘ لہٰذا جسے اپنی جان زیادہ پیاری لگتی ہے وہ سیاست کے بجائے کسی اور شعبے کا انتخاب کر لے‘‘۔
اپنے وطن کے سارے سابقہ پرائم منسٹرز ‘ صدور اور سارے محکموں کے چیف ‘ اُن میں سے چاہے کوئی پانچ سال پورے کرے یا چند مہینے بعد اُس کا عہدہ ختم ہو جائے ۔ اُس کی مراعات ‘پروٹوکول اور سکیورٹی کا خرچہ ریاستِ پاکستان کے شہری برداشت کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ جج حضرات اور ہر رنگ کی بیوروکریسی ‘ خواہ اُنہوں نے ریاست اور عوام کے لیے ایک ٹکے کا فائدہ نہ کیا ہو۔ سروس میں بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُن کی مراعات جاری و ساری رہتی ہیں۔ایسی مراعات جو دنیا کے دوسرے کسی ملک میں بھی نہیں ہیں۔ اب آئیے ذرا پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر چلتے ہیں جس کے ایوانِ بالانے اپنے افسرانِ بالا کے لیے‘ قوم سے بالا بالا قانون پاس کیا۔ اس قانون کے ذریعے جب کوئی افسرِ بالا مرے گا تو صرف اُس کا کفن گھر والے پہنائیں گے باقی خرچہ ریاست کے شہری برداشت کرتے جائیں گے۔
مجھے تاریخ‘جغرافیے سمیت پڑھنے کا شوق ہے۔ ان دنوں انٹر نیشنل بیسٹ سیلرگریگوری ڈیوڈ رابٹس کی کتاب Shantaram میرے زیرمطالعہ ہے۔ جس پرڈیلی میل ‘ سنڈے ٹیلی گراف‘ گارڈین اور سنڈے ٹائمز جیسے اخباروں نے ''تحقیقی تھریلر ‘‘کا تبصرہ کر رکھا ہے۔اس کہانی میں تین براعظم آتے ہیں۔ میں نے مزید براعظموں کی تاریخ پر بھی ہاتھ مارا مگر کہیں کوئی تاحیات مفت بجلی‘ مفت گھر ‘ مفت گاڑی اور مفت عیاشی کرانے والا ملک نہ مل سکا‘حالانکہ پہلی ‘ دوسری اور تیسری دنیا کے اکثر ممالک ہم سے میلوں آگے نکل گئے ہیں۔ ایسے میں ہمیں کوئی غریبی کا طعنہ دے توجواب ہوگا غریب ہوگا تیرا باپ۔