آخری دفعہ 2017ء میں برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ وقت کی رفتار اس قدر تیز اور ہنگامہ خیز ہے کہ چھ سات سال یوں گزر گئے جیسے کوئی گزرتے گزرتے پلُو سے دیا بجھا دیتا ہے۔ 2017ء والے الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی پر مختلف گفتگوئوں اور انتخابی حلقوں میں بطور MNA جانے جیسے ''سنگین جرائم‘‘ میں توہینِ عدالت کے درجن بھر کیس بنائے تھے۔
اُن دنوں میں فیملی کے ساتھ چھٹیاں گزارنے لندن پہنچا تو عین تیسرے دن جہانگیر خان ترین کی ٹیلی فون کال آنا شروع ہو گئی۔ معصومانہ مطالبہ یہ تھا کہ چھٹیاں چھوڑ دیں‘ واپس آجائیں اور الیکشن کمیشن میں خان صاحب کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں۔ دو دن میرے مسلسل انکار کے بعد خود خان صاحب کی کال آ گئی۔ میں نے باقی فیملی وہیں چھوڑی اور چھوٹے بیٹے عبدالرحمن کو ساتھ لے کر واپس پاکستان پہنچ گیا۔
عمران خان کی کابینہ کا میں واحد رُکن تھا جس نے کوئی بیرونِ ملک دورہ نہ کیا۔ اس سال UK جانا ناگزیر ٹھہرا۔ جہاں لندن‘ برمنگھم‘ مانچسٹر اور کچھ دیگر جگہوں پہ نجی مصروفیات کافی عرصے سے طے تھیں۔ جہاں بیگم صاحبہ‘ دو بچے اور 3گرینڈ چلڈرن بھی میرے ساتھ رہے۔ تقریباً 6ہفتے کا ٹائم میں نے غیروں کے درمیان گزارا۔ جن میں سے پہلے غیر وہ اپنے ہیں جو IMFکے آدھی صدی میں دیے گئے قرضوں سے زیادہ ڈالر‘ پائونڈ‘ ریال یا درہم ہر سال پاکستان بھیجتے ہیں۔ پردیس اور ہجرت کاٹتے ہیں۔ دور دیس کی سرزمینوں پر کبھی اپنوں کی رخصتی اور کبھی اپنوں کو کندھا دینے کو ترستے ہیں۔ ملک کوئی بھی ہو‘ آپ اسے جمہوری مملکت کہیں‘ فلاحی ریاست کہیں‘ برادر مسلم ملک کہیں‘ فرسٹ ورلڈ کہہ لیں‘ ایک بات طے ہے کہ ہر جگہ بے روزگاری سے مجبور مہاجرتِ خود اختیار‘ اختیار کرنے والا تیسرے یا پانچویں درجے کا شہری ہوتا ہے۔ بات چل نکلی ہے اس لیے لیپا پوتی والا میک اَپ کرنے کے بجائے کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ امریکی ساری دنیا میں فرسٹ کلاس شہری مانے جاتے ہیں۔ انگلستان‘ جو ہمیں اپنی تہذیب کے لیے باقی بہت سے مغربی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ قبول کرتا ہے اور ہمارے لیے بھی قابلِ قبول ہے‘ وہاں بھی پہلے درجے پر انگریز ہے‘ دوسرے پر امریکن‘ تیسرے پر یورپین‘ چوتھے پر اربستان کے لوگ۔ آگے آپ سیانے ہیں جن حالات میں ہمارے اسلامی جمہوریہ کو پہنچا دیا گیا ہے وہاں ہمارا کیا مقام ہوگا۔ ان حالات میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی جوانیاں غرق کرکے اندرونی اور بیرونی بے رحم قرضے چکاتے چکاتے کمر ٹیڑھی کر بیٹھتے ہیں۔ ان محنت کار اور پاکستان کے محسن بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو سال 2019ء میں سات عشرے گزرنے کے بعد رائٹ آف ووٹ ملا تھا۔ ہمارے نظام اور اس کے گماشتوں کو خطرہ یہ پیدا ہو گیا کہ بیرونِ ملک پاکستانی 85سے 95فیصد کے درمیان قاسم کے ابا کی طرزِ سیاست کے دیوانے ہیں۔PDMحکومت نے اقتدار میں آتے ہی سارے ذرائع ابلاغ کو ان اپنوں کو غیر بنانے کی مشقت پر لگا دیا۔ آج ان کے لیے پاکستان ارضِ ممنوع بن گیا۔ اپنوں سے زیادہ ان اپنوں کے لیے پاکستان میں تین طرح سے راستے روکے گئے۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے پہلا بند راستہ: یہ راستہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں بڑی لمبی مشقت کے بعد کھولا گیا۔ جس کے لیے میں وزارتِ پارلیمانی امور کے سارے کارکنوں اور افسران کو شاباش دینا چاہتا ہوں۔ PDMکی جماعتوں نے اس بل کو سینیٹ میں لے جانے کا وعدہ کیا۔ پھر ان کے کان میں کسی نے کانا پھوسی کر دی کہ یہ کروڑ سے زیادہ ووٹ تحریک انصاف کو پڑیں گے۔ بیرونِ ملک پاکستانی انٹرنیشنل شہری ہیں۔ شہری آزادیوں اور رول آف لاء کا مطلب سمجھتے ہیں۔ اس لیے PDMکی جماعتوں نے سینیٹ سے بل مسترد کروا دیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اقلیت میں تھی۔ اس کے لیے میں نے سابق وزیراعظم کو آلٹرنیٹ روٹ سمجھایا اور ہم اس بل کو آئین کی منشا کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں لے گئے۔ بل قانون بنا اور یہ کوئی احسان نہیں تھا۔ USAسے لے کر افغانستان تک ہر ملک نے اپنے شہریوں کو وطن سے باہر ہونے کے باوجود قومی الیکشن میں حصہ لینے کا حق دے رکھا ہے۔آج ڈالروں کے لیے ہم دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں مگر وہ جو ڈالر دینے والے تھے انہیں PDMنے ووٹ کے حق سے محروم کر دیا۔ جس کا ایک نتیجہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے اعداد و شمار دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ایک انتقامی قدم نے وہ اکائونٹ گھٹنوں پر گرا دیا جس میں چیئرمین تحریک انصاف کے کہنے پر ایک سال کے اندر 5بلین ڈالر جمع کروائے گئے۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے دوسرا بند راستہ: یہ المیوں سے بھی بڑا المیہ ہے‘ جسے لکھنے کے لیے آتشیں قلم درکار ہے۔ ہوا یہ کہ پاکستان کی وزارتِ داخلہ‘ وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کے وزیروں نے اسمبلی کے فلور اور بیرونِ ملک سفارتی اہلکاروں کو یہ یقین دلا دیا کہ سات سمندر پار کارکن ہمارے لیے غیر ہیں‘ اپنے نہیں۔ ہر ملک میں سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے ایسی فہرستیں بنانے کی خبریں چلائی گئیں جن کا مقصد ان بیرونِ ملک مقیم شہریوں کے ویزے ختم کرنا بتایا گیا۔محنت کش دشمنی کی حد دیکھیے کہ USA امیگریشن سے کہا گیا کہ اگر کوئی شخص امریکی شہریت رکھتا ہے اور اسی شہریت پر ویزا لے گا تب ہم پاکستان میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری لیں گے۔ USAامیگریشن کو اس بارے میں باقاعدہ الرٹ جاری کرنا پڑا۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے تیسرابند راستہ: کسی بھی سماج یا مملکت کے لیے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ لوگ اس سے اپنے مستقبل کی امید اور آس لگانا چھوڑ دیں۔ آج دنیا کے ہر کیپٹل اور ہر بڑے شہر میں پاکستانی رپوٹرز موجود ہیں۔ کوئی فون اٹھائے اور اپنے کسی جاننے والے کو فون کرے تو وہ تین سوالوں کے علاوہ آپ سے کچھ بھی نہیں پوچھے گا۔ یہ میرا تازہ ترین ذاتی تجربہ بھی ہے۔ پہلا سوال: پاکستان کا کیا بنے گا؟ دوسرا سوال: کیا مہنگائی کنٹرول ہوگی یا لوگ اجتماعی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں گے؟ تیسرا سوال: بھارت‘ بنگلہ دیش اور افغانستان کے پاس ہمارے جتنے وسائل موجود نہیں پھر بھی موجیں کر رہے ہیں‘ سستا ڈالر‘ سستے موٹر سائیکل‘ سستا تیل‘ سستا آٹا‘ سستا گھی۔ ایسے میں ہمارے بچوں کا کیا بنے گا؟
دوسری قسم کے کافی غیرذمہ داروں سے بھی ملاقات ہوئی جو پاکستانی نہیں۔ واپسی کے سفر میں 45امریکن سٹوڈنٹ ٹورسٹ کے ایک گروپ سے گفتگو ہوئی۔ میں نے پوچھا امریکہ کی نوجوان نسل آج کل کیا پڑھ رہی ہے؟ جواب ملا: Finance and Business۔ کچھ دن غیروں کے درمیان گزار کر واپسی پر اپنوں کا خیال آیا جو اپنوں کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر مزدوری کرتے ہیں اور کچھ ان کی کمائی ہوئی دولت پر سیون سٹار عیاشی۔ دو نظام‘ دو سماج‘ دو معیار‘ دو اخلاق‘ ریاست کے دہرے معیار۔ سمجھنا مشکل ہے اپنے غیر ہیں یا غیر اپنے؟