کیکڑا ہمارا انتظار کر رہا ۔ آیئے اُس کی طرف واپس چلتے ہیں۔ یہ ایک آف شور آئل ڈرلنگ فیلڈ ہے‘ جس کا فاصلہ شہرِ کراچی سے زیادہ نہیں ۔ جہاں کسی پیشگی تشہیر کے بغیرتیل تلاش کرنے والی دو امریکن کمپنیوں‘ Exxon Mobil اور انٹر نیشنل آئل ایکسپلوریشن کمپنی (ENI) کے کنسورشیم کو سال2019ء کے جنوری میں کام پر لگا دیا گیا۔ اُن کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ سمندر کے اندر 230کلو میٹر Ultra Deepتیل کی تلاش کے لیے کھدائی کریں۔ پاکستان نے تین عشروں بعد اپنے حصے میں آنے والے بحیرہ عرب میں اس طرح کا جیک پاٹ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سارے سرویز اور ابتدائی تحقیق نے بتایا کہ کیکڑا میں تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہونے کے واضح امکانات ہیں۔
اس بارے میں Exxon Mobilکمپنی نے اپنے 10سال پُرانے اِسی علاقے کے سروے کو بنیاد بنایا اور کہا کہ پاکستان کے ان پانیوں میں Bigآئل ریزروز موجود ہیں ۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑی خوشخبری تھی ۔ عمران خان کو اُس وقت کی متعلقہ وزارتوں نے یہ خوشخبری سنائی اور بتایا کہ تیل نکلنے کے بعدپاکستان معاشی بدحالی کے اس چُنگل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جائے گا۔ پھر وہ حلقے حرکت میں آگئے جنہوں نے آج تک پاکستان کی سینکڑوں میل لمبی کوسٹ لائن آباد نہ کرنے دی جس پر کئی دبئی‘کئی دوحہ اور لاتعداد کویت جیسے پروجیکٹس چل سکتے ہیں۔ دنیامیں کسی ملک کی کوئی بھی کوسٹ لائن خالی نہیں پڑی ہوئی۔ اسی دوران ایک انگریزی اخبار آگے ہوا اور ایک مخصوص میڈیا ہائوس بھی؛ چنانچہ کیکڑا1-انڈس G بلاک پر 5500 میٹر سمندرمیں نیچے جانے کے بعد اس پروجیکٹ کو بند کروانے کے لیے اندرونی اور بیرونی مہربان اکٹھے ہو گئے۔
تیل دریافت کرنے والی ایک اور اٹالین فرم نے کراچی شہر سے 280 کلو میٹر کے فاصلے پر تیل اور گیس کے اس ذخیرے کو نکالنے کے لیے5660میٹر ز کی گہرائی تک جانے کا مشورہ دیا‘ جو تیل دریافت کرنے والے کنسورشیم کا حصہ تھی۔ مگر اس کھدائی کو ٹارگٹ پر پہنچنے سے صرف 110میٹر پہلے بند کروا دیا گیا۔ جہاں پہ بھاری تعداد میں کاربونیٹس ریزروائر پڑے ہوئے تھے۔
ہم سب جاتے ہیں کہ کراچی کی دوسری جانب بمبئی کھڑاہے۔ بہت سے سرویئرز اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ تیل کے اس جیک پاٹ ذخیرے کے بلاک Indus-Gمیں انڈین بمبئی ہائی آئل فیلڈ جتنے ذخائر موجود ہیں۔ جہاں سے انڈیا 3 لاکھ 50 ہزار بیرل روزانہ کے حساب سے کروڈ آئل نکال رہا ہے۔ دوسرے بہت سے آئل سرویئرز نے جو اندازے اپنے سرویز کے ذریعے اکٹھے کئے اُن میں بتایا گیا کہ اسی انڈس بلا ک میں تیل اور گیس کے اتنے بڑے ذخائر موجود ہیں جتنے گیس کے سب سے بڑے ایکسپورٹر کویت کے پاس موجود ہیں۔ اس دوران ایک لوکل اخبار نے یہ رپورٹس شائع بھی کیں۔ ایسی ایک رپورٹ ملک کے ایک انگریزی روزنامے میں بھی شائع ہوئی جس میں ماہرین کا مؤقف بھی شامل کیا گیا تھا۔
ان ماہرین کا کہناتھا کہ تیل کی تلاش کا کام ''ہائی رسک ہائی ریوارڈ‘‘ کا بزنس ہے۔ ساتھ ہی انڈیا کی مثال بھی سامنے رکھی جا سکتی ہے جس نے اپنے آف شور تیل اور گیس کے ذخیرے کو بمبئی ہائی ویل آئل فیلڈ پر 40کوششوں کے بعد مطلوبہ مقصد حاصل کیا تھا۔ اُس وقت کے OGDCLکے سپوکس مین احمد لَک بھی اس سلسلے میں آن ریکارڈ آئے اور کہا کہ پاکستان کے حصے والے بحیرہ عرب میں ہائیڈرو کاربن ریزروز کے بارے میں ایکسپرٹس کہتے ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں یہاں محفوظ پڑے ہیں۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جنہیں اپنی زمین سے اپنا تیل نکالنے کی بھی اجازت نہیں ۔ صوبہ KPکے ضلع کرک‘ جہاں کے کئی لوگ میرے سٹاف میں رہ چکے ہیں‘ وہاں عوام پلاسٹک کے بڑے بڑے شاپروںمیں غباروں کی طرح جنگلوں اور نالوں سے قدرتی گیس بھر کر گھر لے جاتے ہوئے ٹِک ٹاک بنانے کی اجازت رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہمیں یہ بھی اجازت ہے کہ ہم ٹِک ٹاک پر اپنی پوری قومی غیرت اور ملّی جذبے سے کمنٹ کر سکتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ہمیں اس پر قہقہہ لگانے کی بھی اجازت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیکڑا‘انڈس اور کرک سے گیس اور آئل کے معاملے پر انکوائری کا مطالبہ کروں گا یا کوئی ہائی پاور کمیشن بنانے کی تجویز دوں گا۔ جہاں سانحہ مشرقی پاکستان سے لے کر سانحہ APS تک کوئی کمیشن نہ بنے اور حمود الرحمن کمیشن کی طرح بنے بھی تو اُس کی رپورٹ صرف بھارت میں چھپ سکے‘ بہتر ہے کہ منہ کا ذائقہ درست کرنے کے لیے ابنِ انشاسے رجوع کر لیا جائے۔
آنکھیں موند کنارے بیٹھو‘ مند کے رکھو بند کواڑ
انشاؔ جی لو دھاگہ لو‘ اور لب سی لو‘ خاموش!
یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں75 سال 11 مہینے میں جو 85 فیصد کروڈ آئل ہمیں امپورٹ کرنا پڑا ہے‘ اس 85 فیصد میں ''کھلے کھابے‘‘ ہیں۔ یہی 85فیصد آئل اور گیس سے بجلی بنانے والے جنریٹروں سے لے کر ہر دوسرے دن گلی گلی میں پھٹنے والے جنریٹروں تک ہماری معیشت کا اصل مسئلہ بھی ہے۔ 24 کروڑ لوگوں کے وطن میں اُن کی بہتری کے لیے پلاننگ کرنے والے مسلسل کوشش اور محنت کرنے کے بعد بھی پلاننگ میں ہی مصروف ہیں۔ جس معیشت کے پاس نہ تیل ہے‘نہ بجلی ہے‘ نہ گیس ہے نہ ہی کوئی اورآلٹرنیٹ فیول ہے اُس کے منیجرز14 فٹ اونچی دیواروں کے پیچھے ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر اُس سرکاری ٹی وی کے ذریعے اپیل کر رہے ہیں جسے پاکستان میں بھی کوئی نہیں دیکھتا کہ آئو! پاکستان میں سرمایہ کاری کرو۔
اس معاملے میں وہ دنیا کا کوئی معاشی ترقی کا ماڈل نہ سٹڈی کرنا چاہتے ہیں‘نہ اُسے دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اُسے فالو کرنے پر تیار ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے FBRنے پاکستان کی تاریخ کا سب سے میگا منی لانڈرنگ کیس ٹریس کیا ہے۔ رپورٹ شدہ تفصیلات کے مطابق سولر پینل خریدنے کے لیے تھرڈ پارٹی‘ حوالہ‘ ہنڈی اورا ٓف شوراکائونٹس کے ذریعے سے69.5ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔
پہلے ایک کیکڑے کا ذکر آیا تھا اب چوہے کی بات کر لیتے ہیں۔ یہ کون نہیں جانتا کہ چوہے کو انگریزی میں Mouse کہتے ہیں۔ دنیا پچھلے 45 سال سے کمپیوٹر بنا کر استعمال کررہی ہے اور ہم آج تک ایک مائوس نہیں بنا سکے۔ پورا گلوبل ویلیج پچھلے 30سال سے موبائل فون کا ایک سے ایک اگلاماڈل نکال رہا ہے اور ہم آج تک ایک لوکل ڈڈُّو چارجر تک نہیں بنا سکے۔ افغانستان کے ساتھ 30سال سے ریلوے لائن بچھانے کی گپیں لگ رہی تھیں‘ ایران ہمیں دنیا کا سستا ترین تیل دینے پر تیار ہے مگرہم یہ ایرانی تیل سمگلنگ کے ذریعے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُس میں کھلا کھابہ ہے۔ ایران‘ازبکستان‘ تاجکستان‘ترکمانستان اور افغانستان آپس میں جڑی ہوئی ریلوے لائن بچھا بھی چکے ہیں۔
موزانہ کرتے دِل دُکھتا ہے‘ پرانا پاکستان کہاں تھا، درمیانہ پاکستان ہمیں کدھر لے گیا اور نیا افغانستان کہاں آن کھڑا ہوا۔ اقبالؔ کا پیغام نیا افغانستان سمجھ گیا:
اپنی خودی پہچان‘ اے غافل افغان