"SBA" (space) message & send to 7575

مسائل حل ہو گئے کیا؟

اگلے روز احمد فراز کے ایک قریبی کا فون آیا۔ بے ادبی کی انتہا کے اس دور میں مگر پھر بھی سرپھرا ادب کہیں نہ کہیں سر اٹھاتا رہتا ہے‘ اس گفتگو میں بھی ایسے ہی ہوا۔ پھر میری پانچویں کتاب جو حال ہی میں جمہوری پبلی کیشنز نے چھاپی ہے‘ اس کا ذکر آ گیا۔ کہنے لگے کہ احمد فراز دوستوں سے ہمیشہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ حرفِ نوشتہ میں اصل طاقت ہے‘ باقی سب کہانیاں ہیں۔ کل لا آفس میں پہنچا تو سامنے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور قرآنِ مجید کے طالب علم فضل الرحمن بن محمد کی خود نوشت رکھی تھی۔ ساتھ کچھ قرآنی موضوعات پر ان کی انگلش ہینڈ بُک بھی۔ ان دونوں پہ سرسری نظر ڈالی اور کتابیں بھجوانے پہ اظہارِ تشکر کے ساتھ رسید لکھ بھیجی۔
ان دنوں ہر جانب سرکاری گزٹ چل رہے ہیں کیونکہ حزبِ اختلاف کو حرفِ غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیے اس کا نام‘ تصویر اور خبر شجرِ ممنوعہ ٹھہری جبکہ ٹی وی سکرین اصلی اپوزیشن لیڈر کے لیے شہرِ ممنوعہ۔ یہ سرکاری گزٹ اور اسے رپورٹ کرنے والے سرکاری خزانوں کے منہ کھولنے کے باوجود بھی سوائے للکارے مارنے کے اور لفظوں کی ہوائی فائرنگ کرنے کے کہیں بھی بااعتبار یا باآبرو نہیں ٹھہر سکے۔ سندھ ہاؤس اور مال روڈ لاہور پر ضمیروں کی منڈیوں سے جو ماہرینِ معاشیات و سیاسیات جمع کیے گئے تھے‘ ان کا تازہ گزٹ یہ ہے کہ ہم نے سوا سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کو صحیح راستے پر ڈال دیا۔ چونکہ اپوزیشن کو بولنے کی اجازت ہی نہیں ہے‘ اس لیے اس سرکاری گزٹ کی پذیرائی اتنی سی ہی ہوئی ہے جتنی اپنے ہاں خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہارکو ملتی ہے۔
یادش بخیر! اسحاق ڈار کے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بڑی معتبر آوازیں کہہ رہی تھیں کہ ڈار پاکستان کے سوئے ہوئے ''بھاگ‘‘ جگاوَن کو واپس آئے ہیں۔ ساتھ قوم کو یہ جاں فزا خبر بھی سنائی گئی کہ ڈار کی اڈاری نے ایک دن میں ڈالر کو مستحکم کر دیا‘ باقی رہی مہنگائی تو وہ صرف چند دنوں کی مار ہے اور ڈار معیشت اٹھائیں گے ہی نہیں بلکہ بھگائیں گے بھی۔ اور پھر واقعی مہنگائی بھاگ گئی۔ بالکل اس جنم جلی کی طرح جو آشنا کے ساتھ فرار ہونے سے ایک رات پہلے گھر والوں کو کہہ رہی تھی کہ دیکھ لینا کل اس گھر کا ایک آدمی موجود نہیں ہوگا۔ رات گئے جب وہ واقعی بھاگ گئی تو صبح اڑوس پڑوس والے اظہارِ افسوس اور اظہارِ تشویش کے لیے اکٹھے ہونے لگے۔ گھر والوں نے اہلِ محلہ کو ماموں بنانے کے لیے اس کے ماہر ماموں کو آگے کر دیا۔ جا کر بیٹھک میں بیٹھا اور جو کوئی بھی آتا‘ ماموں اس کی بات سننے کے بجائے اسے پہلے ہی بتانا شروع کر دیتا کہ یہ گھرانا کس قدر خوش نصیب ہے۔ جس میں ایک ولی صفت نے جنم لیا۔ ابھی 24گھنٹے پہلے ہی جس کی تازہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ کل اس گھر کا ایک فرد کم ہو جائے گا۔
اسی تسلسل میں شہباز شریف نے سعودی عرب کی طرف سے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں تقریباً دو ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم جمع کرانے پر بغلیں بجائیں۔ دراصل یہ بھوک اور افلاس کے مارے ہم وطنوں کو یہ بتانے کی ناکام کوشش تھی کہ اس ڈپازٹ سے پاکستان کے غیرملکی ذرائع کو فروغ ملے گا ۔ ڈیفالٹ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹل گئی ہے اور ہم نے ملک بچا کر دکھا دیا ہے۔اس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو دو ارب ڈالر کے سعودی ڈپازٹ‘ متحدہ عرب امارات کے ایک ارب ڈالر کے ڈپازٹ‘ ایک ارب ڈالر کے عوامی جمہوریہ چین کے ڈپازٹ اور تین ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرضے نے ڈوبنے سے بچا لیا ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ معاشی‘ سیاسی اور قومی حلقوں میں بہت اہم سوال یوں اٹھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر:
پہلا سوال‘ بے حیثیت‘ غیر مقبول حکومت پر: ادھر اُدھر جانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ سوال براہِ راست شہباز شریف کے ٹویٹ نے خود اٹھا دیا جس میں انہوں نے سپہ سالار کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی مدد کے بغیر انہیں یہ قرض اور ڈپازٹ کبھی نہ ملتے۔ کیا موجود کامیاب معیشتوں میں سے کسی حکومت کا کوئی سربراہ اپنی بے حیثیتی کا اتنا بڑا اعلان کر سکتا ہے؟ ساتھ ہی ان کا اس سے بھی اگلے درجے کا اعتراف یہ ہے کہ انہیں مغربی دنیا تو دور کی بات ہے‘ ایشیا میں اور خاص طور سے مسلم ممالک میں بھی کوئی مقتدر نہیں سمجھتا اور ان کی حیثیت ''نام کا نواب‘‘ والی ہے۔
اب چلئے اسی سوال کے تیسرے حصے کی جانب کہ کیا آئی ایم ایف کے عارضی بیل آؤٹ پیکیج نے پاکستانی معیشت کو ترقی کی راہ پر دوڑا چھوڑا ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب معیشت کی بین الااقومی ریٹنگ ایجنسی فِچ (Fitch) سے ملتا ہے جس نے ہماری معیشت کی پہلے سے طے شدہ درجہ بندی منفی سی سی سی (-CCC) سے اب سی سی سی (CCC) کر دی ہے۔ جس کا مطلب ہے اب ہمیں ان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے جن کی معیشتیں کافی سنجیدہ قسم کے ''کریڈٹ رِسک‘‘ کا شکار ہیں۔ملک میں ریکارڈ شدہ مہنگائی تقریباً 38فیصد گنی جاتی ہے مگر اصلی مہنگائی سری لنکا سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
دوسرا سوال‘ بے حیثیت‘ غیرمقبول حکومت پر: پاکستان میں خزانے کے منیجر کوئی عجیب مخلوق ہیں۔ وہ قوم کو درپیش مالی خسارے کے بارے میں بھی صحیح بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان پچھلے 15ماہ سے بحیثیت اکانومی کیا کمائی کر رہا ہے۔ اسی سوال کی ریورس سائیڈ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور امیر اداروں کا طرزِ زندگی کہاں سے بدلا ہے۔ ان کے ضرورت سے زیادہ خرچے مالی خسارے کو‘ بین الااقوامی معاشی ماہرین کے مطابق 7.6 فیصد تک پہنچا سکتے ہیں جبکہ اس کی گزارہ کرنے والی سطح پانچ فیصد سے نیچے ہے۔
اسی ہفتے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے حکومت کو خط لکھ کر بتایا ہے کہ بجلی میں قیمتوں کے بے رحمانہ اضافے نے 75 فیصد انڈسٹری کو معطل کر دیا ہے اور 25 فیصد باقی انڈسٹری لڑکھڑا رہی ہے۔ آپ آئی ایم ایف کے عارضی ریلیف پیکیج کی ایگزیکٹو سمری پڑھ کر دیکھ لیں‘ آخری سات لائنوں میں قرض دینے والے کو بھی سمجھ ہے کہ آئینی طور پر یہ پاکستان میں انتخابی سال ہے۔ شوبازی کے نظام کی نوسربازی کے صرف 20دن باقی رہ گئے ہیں۔ ایسے میں معیشت کی بحالی کے لیے جدید تاریخ کا سب سے بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ وہ ہے ٹک ٹاک پر پابندی! باقی مسائل حل ہو گئے کیا؟
دل شکستہ ہے! کوئی ایسا ہنرمند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں