برصغیرمیں تقسیمِ بنگال کے بعد سب سے بڑی تقسیم پنجاب کی ہوئی۔ بلکہ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ پنجاب کی ہی ہوئی۔ جو صدیوں سے ایک ملک چلا آتا تھا۔جس کی سرحدیں ہمالہ سے باغِ بالا تک تاریخ میں پائی جاتی ہیں۔ اس تقسیم کا نقطہ آغاز انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 کے پاس ہونے کے دن 18جولائی 1947ء سے ہوا۔ اس تقسیمِ پنجاب کو کئی مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘لیکن اس مرحلے پہ ضروری ہوگا کہ اس ایکٹ کا Preambleدیکھ لیا جائے‘ جس میں اسے پاس کرنے کی وجہ ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
Be it enacted by the King's most Excellent Majesty, by and with the advice and consent of the Lords Spiritual and Temporal, and Commons, in this present Parliament assembled, and by the authority of the same, as follows
یعنی اس ایکٹ کو بادشاہ انگلستان جو کہ ارفع ترین اور سب سے عالی شان بادشاہ ہے کی طرف سے پاس کیا جارہا ہے۔ لارڈز‘ روحانی اور دنیاوی‘ اور کامنز کے مشورے اور رضامندی سے‘ اس موجودہ پارلیمنٹ میں‘ اور اسی کے اختیار سے‘اسے درج ذیل بنایا گیا۔
انڈیا انڈیپنڈنس ایکٹ1947کے Chapterنمبر30میں جانے سے پہلے اوپر درج انگریزی عبارت کا غور سے جائزہ لیا جائے تو اس میں سے دو طرح کے تعصب کی بُو آتی ہے۔ پہلا تعصب ہندوستانی غلاموں کے بارے میں ظاہر ہوتا ہے جن کی جدوجہد اور تاجِ برطانیہ سے آزادی کے لیے قربانیوں کا سِرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ دوسرے نمبر پرہندوستان کی آزادی کے لیے ہونے والے مذاکرات‘ مختلف سیاسی قوتوں سے معاہدوں اور اُن سارے مراحل کو جو غلام ہندوستان کے لیے بڑے کٹھن تھے‘ اس ایکٹ کے بننے کی وجہ تسلیم نہیں کیا گیا۔بلکہ اسے زمینی حقائق کے برعکس عالی شان شہنشاہ انگلستان وہندوستان کی عالی ظرفی اور مہربانی بتایا گیا ہے۔انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ1947کے باب 30کے ذریعے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935کومؤثر کر دیا گیا۔جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انڈیا کو دو آزاد اور خود مختار(Independent Dominions) میں تشکیل دیا جا رہا ہے۔ 18جولائی 1947ء کے روزاس ایکٹ آف برٹش پارلیمنٹ کے سیکشن نمبر 1کی ذیلی دفعہ نمبر1 میں برصغیر ہندوستان کو 2آزاد اور خود مختارریاستوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ساتھ ہی اسی سیکشن میں تاجِ برطانیہ نے پہلی دفعہ لفظ ''پاکستان‘‘ کو اپنے قانون میں بھی استعمال کیا۔جسے انڈیپینڈنس آف انڈیا ایکٹ میں ان الفاظ سے شامل کیا گیا۔
1.(I) As from the fifteenth day of August, nineteen hundred and forty-seven, two independent Dominions shall be set up in India, to be known respectively as India and Pakistan.
تقسیم ِ ہند جو عملاً صرف تقسیمِ پنجاب تھی اس پہ عملدرآمد کے لیے تاجِ برطانیہ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو مسلمانوں سے دلی تعصب رکھتا تھا۔ یہ تھا Sir Cyril Radcliffe‘ جس کا تعلق برطانیہ کے شاہی خاندان سے تھا۔ اس فرنگی‘ اعلیٰ عہدیدار نے گرداسپور کا ضلع‘ تحصیل اجنالہ سمیت ابتدائی طور پر پاکستان میں شامل کیا‘جس کے ساتھ ہی امرتسر کے بھی کچھ حصے شامل تھے۔لیکن پھر Radcliffeکو ہندو بنیے نے خرید لیا۔ بائونڈری کمیشن نے تقسیمِ پنجاب کی ایک ایسی تبدیل شدہ ڈرائنگ اور فرمائشی نقشہ پھر سے بنایا جس کے نتیجے میں بھارت نے آزاد ریاستِ کشمیر پر قبضے کے لیے جموں کے راستے قابض فوجوں کوخطۂ جموں کشمیرمیں اتارا تھا۔
15اگست 1947ء کو بھارت نے پہلا یومِ آزادی منانے کے ساتھ ہی اپنا دستور بنانے کا کام شروع کر دیا۔ اس آئین کے دو بنیادی نکات اینٹی چڑھدا پنجاب تھے۔ جن میں سے پہلا نکتہ یہ تھا کہ بھارت نے سکھ مذہب کو ایک علیحدہ مذہب کے نام سے آئین میں شامل نہ کیا بلکہ خالصہ کوہندو مت کی ایک Sub Caste یعنی ذیلی قومیت کے طور پر دستور میں جگہ دی گئی۔
انڈیپنڈنس آف انڈیا ایکٹ1947کے اجرا تک سکھوں کی علیحدہ سے مذہبی شناخت برٹش راج کے زمانے میں بھی قائم رہی۔ جسے بھارت کی متعصب ہندو اسٹیبلشمنٹ نے 26جنوری 1950کے روز ختم کر ڈالا۔ دوسرا اینٹی پنجاب اقدام یہ ہوا کہ چڑھدا پنجاب کے علاقوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے مکروہ منصوبے کا آغاز کر دیا گیا۔ اس پلان کے ذریعے سٹیٹ آف ایسٹ پنجاب‘ سٹیٹ آف ہریانہ‘ سٹیٹ آف ہماچل پردیش‘ سٹیٹ آف اروناچل پردیش اور اُتر پردیش (UP)میں پنجاب کے علاقوں کو بانٹا جا چکا ہے۔ اسی کے نتیجے میں پنجاب کے اندر'' جاگ پنجابی جاگ‘ تیری پگ نُوں لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ بلند ہوا اور ساتھ ہی ''پنجاب نئیں جاگیراں ونڈّو‘‘ کی تحریک بھی چل نکلی۔ پنجاب میں سکھوں کو ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ سیکنڈ کلاس جنگجو قوم کو درجہ دیا۔ اس حوالے سے بھارت نے آئین ساز اسمبلی کے ذریعے 6نومبر 1949ء کو اپنا Constitutionپاس کیا جو 26جنوری سال 1950ء کو پورے بھارت میں نافذ ہوگیا۔ ثبوت کے لیے آئیے دیکھتے ہیں دی کانسٹیٹیوشن آف انڈیا‘ پارٹ 3‘بنیادی حقوق کے آرٹیکل نمبر25 کے ذیلی آرٹیکل نمبر2کی دفعہ Bمیں دی گئی Explanation(II)۔جس کے الفاظ یہ ہیں:
The reference to Hindus shall be construed as including a reference to persons professing the Sikh religion.
اوپر لکھی گئی مختصر سی عبارت کے ذریعے بھارت کے ہندو آئین سازوں کی اکثریت نے سکھ مذہب کی علیحدہ شناخت والی کئی سو سالہ تاریخ کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ جس کی بڑی وجہ سکھوں کے اندر علیحدہ وطن کے حصول کے لیے پائے جانے والی خالصتان تحریک ہے۔اس کی دوسری وجہ لہندا پنجاب کے شہروں‘ ننکانہ صاحب‘کرتارپور اور حسن ابدال میں سکھ مذہب کے وہ مقدس مقامات ہیں جن میں بابا گُرو نانک جی کی مکمل تاریخ‘ اُس تاریخ کی یادگاریں اور اُس کے جیتے جاگتے ثبوت آج بھی پاکستانی سرزمین پر پائے جاتے ہیں۔
تقسیمِ پنجاب کی آئینی تاریخ اس مرحلے تک پہنچی جس کے پیچھے کچھ ہاتھ فرنگیوں کا تھا اور پھرکچھ ہاتھ متعصب ہندوستانی لیڈروں کا۔ جبکہ تقسیمِ ہند کے بعد سے پنجاب وہ واحد پاکستانی صوبہ چلا آیا ہے جس میں قوم پرستی کے نام پر کبھی کوئی سیاسی تحریک نہیں چلی‘ ابھی تک۔ مگر سال 2023ء اور PDMکی حکومت نے اس حوالے سے پنجاب کیلئے ایک آئینی بحران کا دروازہ کھول دیا ہے۔ آدھی رات کو غیر نمائندہ اسمبلی کے ذریعے اقلیتی پارٹیوں کی حکومت نے ایک ایسا قدم اُٹھایا جس کے نتائج سوچ کر دردمند پاکستانی بولنا شروع ہو گیا۔ یہ ہے آئینِ پاکستان میں صوبائی خودمختاری کی عملی تنسیخ کا فیصلہ آئینی اور سیاسی طور پر ایک ایسی انڈر 19 ٹیم کے ذریعے سے کروایا گیا جسے تاریخ جغرافیے کا شعور ہے اور نہ ہی راج نیتی اور نیشن بلڈنگ اُن کا شعبہ ہے۔ آخر یہ لوگ ہیں کون؟