عمران خان کو الیکشن کمیشن کے ذریعے بے بنیاد الزام میں دلوائی گئی سزا معطل۔ نااہلی ختم‘ کپتان ایک بار پھر اِن۔ اسلام آبادہائی کورٹ میں اپیل کی حتمی سماعت تک خان کے حاسدین چُپ سادھ چکے۔ توشہ خانہ سزا کے نام پر کپتان کے خلاف چھوڑا گیا پہلا ٹرائل بیلون ٹُھس ہو گیا۔ ایہہ غبارے نئیں اُڈ سکدے۔ دوسرا غبارہ اُڑنے سے پہلے پنکچر ہو گیا‘ پھر تیسرا اور پھر سارے کے سارے غبارے نئیں اُڈ سکدے۔ ہم اتحاد اور تنظیم پر یقین رکھنے والی دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جن کو پہلے فقط بسنت کے موسم میں ''گڈی‘‘ اُڑانے کی اجازت نہیں تھی‘ عزیز ہم وطنو! اب آپ کی سہولت کے لیے ملک کے طول و عرض میں غبارے اُڑانے پر بھی پابندی لگ چکی ہے۔ اسی لیے پاکستان کے 76ویں یومِ آزادی کے موقع پر غبارے اُڑانے کے گھناؤنے جرم میں عورتیں‘ مرد اور نوجوان لڑکیاں‘ لڑکے پھڑے گئے۔ چاروں صوبوں کی پولیس نے متفقہ طور پر ایک بار پھر ثابت کر دکھایا کہ کم از کم پاکستانیوں سے حسنِ سلوک کے معاملے میں چاروں صوبوں میں رہنے والے عام آدمی سے یکساں برتاؤ ہوتا رہے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا‘ 13اگست کی رات اور 14اگست کے دن‘ صرف پنڈی اور اسلام آباد میں 300سے زیادہ لوگوں کو غبارے اُڑانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس کے اس حسنِ سلوک کے مزے لینے والوں میں کوئی صوبہ اور کوئی علاقہ پیچھے نہیں رہا۔ اب تو خیر سے پولیس کی بھی بہت ساری قسمیں ہیں۔ سپیشل برانچ‘ اینٹی Roits‘ ڈولفن‘ ایلیٹ‘ سی ٹی ڈی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مِل کر بہت سے نامعلوم ملزمان تلاش کر رہے ہیں تاکہ غبارہ پسندی پر پابندی کو مؤثر بنایا جا سکے۔ خدمت کے اسی جذبے سے سرشار ہو کر اسلام آباد پولیس نے اگلے روز گیس والے چمکیلے غبارے بیچنے والی ایک خاتون کے سارے غبارے پولیس کی گاڑی میں ڈالے اور اُنہیں اُڑا لے گئی۔ ظاہر ہے یہ غبارے کسی ایف آئی آر کا مال مقدمہ یا مال مسروقہ نہیں ہیں۔ اس لیے انہیں صرف چھاپہ ماروں کے گھروں میں ہی بند کیا جا سکتا ہے۔ تھانے کا مال ہو تو وہ مال خانے میں جاتا ہے۔ چونکہ یہ مال غباراتی کمائی سمجھ کر بالا خانے میں جا رہا ہے‘ آئیے کچھ دیگر غباروں کا پیچھا کرتے ہیں جو پی ڈی ایم کے سائنس دانوں نے 16ماہ میں بڑی محنت سے تیار کیے تھے اور اب وہ تقریباً ہر چھت پر اُڑ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کا دوسرا غبارہ: اس غبارے کو گلوبل اصطلاح میں Diplomatic Cable اور مقامی اصطلاح میں سائفر شریف کہا جاتا ہے۔ یہ وہی سائفر ہے جس کے بارے میں مریم نواز صاحبہ نے بار بار کہا کہ باہر سے کوئی خط نہیں آیا‘ ایک سادہ کاغذ کی پرچی خان نے پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں لہرائی تھی۔ شہبازی راج کے وزیر داخلہ نے اس سے بھی بڑھ کر تاریخی انکشاف کیا‘ فرمایا: کوئی سائفر چوری نہیں ہوا اور میں جانتا ہوں کہ سائفر اس وقت بھی وزارتِ خارجہ میں محفوظ ہے۔ ان دونوں تقریروں کے وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ پھر ان کی تصدیقِ مزید کے لیے ایک انتہائی معتبر شخصیت نے ان الفاظ میں سائفر کے غبارے سے ہوا نکالی ''ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سابق وزیراعظم نے 27تاریخ کے جلسے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا‘ جس کی بنیاد پہ جھوٹا بیانیہ بنایا گیا‘‘۔
سائفر کا مقدمہ ہے کیا؟ اُس کی کچھ تفصیلات پچھلی دو سماعتوں کی تاریخوں پر شاہ محمود قریشی کا کیس لڑتے ہوئے اور ایک پیشی پر عمران خان کے مقدمے میں ایف آئی اے نے خود پرچہ ریمانڈ کے ذریعے سے عدالت میں پبلک کر دیں۔ یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے کیونکہ پچھلی پانچ عدد تاریخِ سماعت پر دو مختلف عدالتوں سے شاہ محمود قریشی کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا تھا۔ اس جسمانی کسٹڈی کو آگے بڑھانے کے لیے عدالتی تحریر میں ایک ہی جواز ایف آئی اے نے لکھ کر پیش کیا کہ سائفر کو شاہ محمود قریشی کے گھر سے برآمد کرنا ہے۔ اس ریمانڈ کی 28 تاریخ اور 30تاریخ والی دو تاریخِ سماعت پر میں نے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت میں دلائل دیے۔ یہ عدالت تھی ATC اسلام آباد کے جج صاحب کی۔ جن کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت پورے پاکستان کے مقدمات کی سماعت کرنے کے لیے خصوصی عدالت کے طور پر نوٹیفائی کیا گیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے خلاف ایف آئی اے نے پرچۂ ریمانڈ میں سائفر کا ڈائر ی نمبر تک لکھ رکھا ہے جسے دیکھ اور پڑھ کر سب حیران و پریشان ہو گئے۔ حیران اس لیے کہ سائفر کا ڈائر ی کوڈ ضبطِ تحریر میں لا کر اُسے پبلک ریکارڈ میں ڈالنا سب سے بڑی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو میں وکیل کی حیثیت سے وہ ڈائری نمبر وکالت نامہ میں پبلک نہیں کر سکتا۔ حالانکہ اب وہ ڈائری نمبر پبلک ڈاکیومنٹ بن چکا ہے۔ جس کے ذریعے وزارتِ خارجہ کی سیکریسی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ کیونکہ پبلک ڈاکیومنٹ کی تصدیق شدہ کاپی عدالت کے ریکارڈ سے کوئی بھی لے سکتا ہے۔ ہمارے جوڈیشل سسٹم کی 76سالہ تاریخ میں ما سوائے پاناما سیکنڈل کیس کے والیم نمبر 10کے باقی سب ڈاکیومنٹ پبلک ڈاکیومنٹ ہی ہیں۔ کاش میں وہ وجہ ضبطِ تحریر میں لا سکتا جس نے والیم نمبر 10 کو خفیہ رکھا۔ اس کے مندرجات پر قوم اندھیرے میں رکھی گئی اور والیم نمبر 10 دراصل سقوطِ ڈھاکہ پر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح Forbidden Cityبنا کر رکھ دی گئی۔
جمعرات کے دن ٹرائل کورٹ کی اجازت سے میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرنے گیا۔ وہ اڈیالہ جیل کے قیدی سیل میں بند ہیں۔ یہ بھی ہماری تاریخِ جدید کا نیا باب ہے کہ کلائنٹ وکیل خفیہ مشاورت میں بھی اہلکار بیٹھتے ہیں۔ سائفر کی چوری کا دعویٰ اُتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا پی ڈی ایم کا یہ دعویٰ کہ ملک میں فوراً 90دن کے اندر الیکشن کرائے جائیں۔
پی ڈی ایم کا تیسرا غبارہ: پی ڈی ایم کے تخلیق شدہ اس غبارے کے کئی رنگ ہیں۔ پہلا ڈالر کا رنگ‘ دوسرا بجلی کے بِل کا رنگ‘ تیسرا گیس کے بِل کا رنگ‘ چوتھا چینی کی قیمت کا رنگ‘ پانچواں پٹرول کی قیمت کا رنگ‘ چھٹا ڈیزل اور ساتواں مٹی کے تیل کے نرخ کا رنگ‘ سٹاک ایکسچینج اور ایکسپورٹس کے غبارے علیحدہ ہیں۔ جمعرات کے دن تک اوپن مارکیٹ میں 350پر بھی ڈالر نہ ملنا رپورٹ ہوا ہے۔ معیشت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ کسان سسکیاں لے رہا ہے۔ تاجر نوحے پڑھ رہے ہیں۔ عفت مآب مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ دوسری جانب ایک حکمران خاندان کے صرف دو لوگوں کے ایک فرنٹ مین سے چھ ہزار ارب کرنسی کی برآمدگی کی خبریں چل رہی ہیں۔
فیصلہ سازو! عوام کے فیصلے سے ڈر کر الیکشن کے فیصلے سے نہ بھاگو۔ ملک میں مہنگائی کے طوفان نے عام آدمی کو سول نافرمانی کے دروازے تک پہنچا دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور قوم کے کپتان کو مائنس کرنے کے لیے پی ڈی ایم نے جو غبارے چھوڑے تھے‘ وہ پھٹ کر ان کے گلے میں سانپ کی طرح لٹک رہے ہیں۔ یاد رکھو انقلابِ فرانس روٹی پہ آیا تھا۔ یہاں لوگ روٹی سے محروم ہیں۔ قانونِ فطرت پکار رہا ہے۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں