عوامی مزاحمت کی سیاست کا انتہائی مشکل راستہ اختیار کرنے اور مزاحمتی سیاست کی ایکٹنگ کرنے میں بڑا فرق ہے۔ بالکل اتنا ہی جتنا اٹک جیل اور سینٹرل پرزن اڈیالہ میں ہے یا یوں کہہ لیں جتنا ضمیر کے قید ی کی قید اور Plateletsکے VVIPکی جیل یاترامیں۔پرانے صدر ہائوس کے سامنے سے گیریژن ایریا شروع ہوتا ہے جسے کراس کر کے چونترا اور سواں میں داخل ہونے کے لیے اڈیالہ روڈ شروع ہوتی ہے۔ اڈیالہ اور کسالہ اس روڈ کے اہم گائوں ہیں۔ قیدی نمبر 804کو اٹک جیل سے نصف شب کے قریب اڈیالہ جیل میں ٹرانسفر کیا گیا‘جس کا مقصد عمران خان کو کوئی رو رعایت ہرگز نہیں تھا بلکہ سائفر کیس کا ٹرائل شروع کرنا مقصد تھا۔ سائفر کی گمشدگی کے الزام میں عمران خان کے مقدمے وال شاہ محمود قریشی جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی اس جیل میں سیاسی قیدی کی حیثیت سے بند ہیں۔
دو دن پہلے سپریم کورٹ کے بنچ نمبر پانچ میں ایک مقدمے میں پیش ہونے کے بعد میں مری روڈ والے شارٹ کٹ کے ذریعے سے اڈیالہ جیل کے باہر پہنچا۔ تھوڑے انتظار کے بعد میری گاڑی کے بجائے جیل کی گاڑی میں مجھے جیل کے اندرونی گیٹ تک پہنچایا گیا۔اس راستے کو گیٹ نمبر چارکہتے ہیں۔ میرے جیل کے اندر داخل ہونے سے پہلے اسلام آباد ڈسٹرکٹ ایسٹ‘ ڈسٹرکٹ ویسٹ اور راولپنڈی کے سیشن ججز قیدیوں کے حالات معلوم کرنے کے لیے جیل کے دورے پر پہنچے ہوئے تھے‘جن کے ساتھ راولپنڈی‘اسلا م آباد کی انتظامیہ کے افسر بھی موجود تھے۔ خواتین قیدیوں اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی طرف سے شناخت پریڈ منعقد کروانے کے لیے بھیجے گئے حوالا تیوں کے مسائل۔اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری کی زیرِ تعمیر جیل کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اڈیالہ جیل پر مالی‘ انتظامی اور چھوٹے جرائم کے ہزاروں حوالاتیوں کا بوجھ بھی زیر بحث آئے۔ جس پر قیدیوں‘ حوالاتیوں کے مسائل پر انتظامیہ کی بند آنکھیں کھولنے کے لیے علیحدہ سے وکالت نامہ لکھنا ہوگا۔
آپ کو یاد ہوگا شریفوں کے لیے پانامہ کیس کی وجہ سے جب اڈیالہ جیل کا دروازہ کھلا تب اُن سے ملاقاتیوں اور کھابوں کی ایک وڈیو لیک ہوئی تھی۔ اب اُس کمرے میں باندر کلّہ نما پھٹہ بردار کھوکھے بنائے گئے ہیں جہاں عمران خان کوبٹھانے کے بعد مجھے ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔ اور درخواست یہ کی گئی کہ براہِ مہربانی لکھنے‘ پڑھنے کی کوئی چیز آپ کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ Access to Justice اور مظلوم قیدیوں کے درمیان واحدپل کا کردار ادا کرنے والی بار ایسوسی ایشنز پر یہ نئی طرز کی پابندی لگی۔ اُسی روز چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے فیض آباد دھرنا کیس کی تاریخی سماعت کی۔ اس مقدمے کو جناب جسٹس اطہر من اللہ نے لینڈ مارک فیصلہ قرار دیا۔ چیف جسٹس صاحب نے سماعت کے دوران 'اوپر سے حکم آیا ہے‘ پر بڑے پُر معنی اورپُر مغز جملے بولے۔ بہرحال اوپر سے حکم آنے پر چالیس سالہ وکالت میں پہلی مرتبہ مجھےPen and writing Pad سے محروم کر دیا گیا۔ میں ملاقات گاہ میں داخل ہوا۔سامنے لال سرخ چہرے پر بکھری ہوئی مسکراہٹ اور اطمینان سے سرشار عمران خان کھڑے ہوئے پائے۔ یہ عمران خان کا اگلا مزاحمتی مورچہ ہے جہاں تمام مشکلات مخاصمت اورمخالفت کے درمیان روشنی کا سربلند مینار دکھائی دیا۔ اُن سے ملاقات اور گفتگو کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی سوچ کا پہلا حصہ: علیک سلیک اور خیریت دریافت کرنے کے بعد ہمیشہ ہماری گفتگو تازہ کتابوں میں سے کون کون سی پڑھی ہیں‘اُن سے شروع ہوتی ہے؛ چنانچہ چھوٹتے ہی عمران خان بتانے لگے کہ اُنہوں نے رسول اللہﷺ کی حیاتِ بابرکات کے بارے میں عیسائی خاتون سکالر Karen Armstrongکی کتاب: Muhammad (P.B.U.H): A Biography of the Prophet پڑھی ہے۔ ساتھ ہی مجھے دو کتابیں اور بھجوانے کا کہا: Biography of the Holy Prophet by Martin Lings, His life based on Earliest sources جبکہ دوسری کتاب مکہ مکرمہ میں دارالسلام نے انگریزی زبان میں پبلش کی ہے، یہ ہے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے بار ے میں Ali Bin Abu Talib۔ ریاستوں کے عروج و زوال کے بارے میں موجود لٹریچر پر بھی گفتگو ہوئی۔
عمران خان کی سوچ کا دوسرا حصہ: کپتان نے پاک افغان تعلقات‘ مغربی بارڈر اور صوبہ بلوچستان میں جاری insurgency پر تشویش ظاہر کی۔PTIحکومت کے دور میں شدید اشتعال کے باوجود بھی امن و امان قائم رکھنے کے اقدامات کا تذکرہ کیا اوراپنا Way Forward اور تجاویز بھی بتائیں۔
عمران خان کی سوچ کا تیسرا حصہ: رجیم چینج کے بعد ملک کو سرزمینِ بے آئین بنانے والے کرداروں پہ بھی بات کی۔ساتھ ہی الیکشن کو التوا میں ڈالنے کے پلان کو مسترد کیا۔یہ عزم دہرایا کہ میں خود الیکشن لڑوں گا۔ بلّا ہوگا۔پاکستان تحریک انصاف اور عوام کے درمیان جو دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی عوام نے وہ دیوار گرا دی ہے۔ الیکشن کے بجائے سلیکشن کی سازشوں کو وہ مسترد کرتے ہیں۔ پورے حوصلے کے ساتھ کھڑے رہنے والی پُر عزم خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ جبر اور مظالم کے نتیجے میں نوجوان نسل سے بہادر اور باہمت نئے لیڈر اُبھر کر سامنے آئے ہیں جس نے خاندانی سیاست کے Status Quo کو توڑ ڈالا۔
عمران خان کی سوچ کا چوتھا حصہ: Covid-19‘ٹڈی دَل‘ معاشی Slow Downکے باوجود پاکستان تحریک انصاف حکومت نے جس طرح عوام کی قوتِ خریدمیں اضافے‘ برسوں سے رُکی ہوئی صنعتی مشینوں کو دوڑانے اورعام آدمی کو ریلیف دینے کے تاریخی اقدامات کیے تھے اُن کے حوالے سے میں نے پہلے سے زیادہ بدلا ہوا عمران خان دیکھاجو اپنے اگلے مزاحمتی مورچے میں بیٹھ کر عام آدمی کے لیے سوچ رہا ہے‘ پلاننگ کر رہا ہے۔کپتان کا کہنا ہے کہ چین‘ بنگلہ دیشن‘بھوٹان‘ افغانستان ترقی کی راہ پر چل سکتے ہیں تو سب سے زیادہ وسائل رکھنے والی پاکستانی قوم کا کیا قصور ہے کہ اسے غربت کی چکی میں پسنے دیا جائے۔ وہ ایک بیدار مغز‘ پوری طرح سے فِٹ اور مستعد آئیکون نظر آئے۔
میری وَن آن وَن ملاقات کے بعدتین اور وکلا سمیت مشترکہ ملاقات بھی ہوئی۔عمران خان کو جیل کے مسائل اور بدسلوکی‘ آئینی جمہوریت کی واپسی کی سوچ سے Derailنہ کر سکی۔ فیک نیوز ماسٹرز نے از خودجعلی اردو معافی نامہ لکھ کر ایسے وائرل کیا جیسے نواز شریف کا دستخطی اصلی معافی نامہ پرنس مقرن بن عبدالعزیز نے خود پاکستان آکرمیڈیا کے سامنے وائرل کیا تھا۔ اگلے مزاحمتی مورچے کا قیدی نمبر804 ڈیل مانگتا ہے نہ ڈھیل۔ اُس کی سوچ کا محور ہے رول آف لاء اور آئین کی بالادستی۔