"SBA" (space) message & send to 7575

آرٹیکل 254 لمز کے سٹوڈنٹس اور بڑھتی گمبھیرتا

آنے والے الیکشن کا پہلا غیر سرکاری‘ حتمی نتیجہ سامنے آگیا۔ یہ نتیجہ آنا ہی تھا سو آ کے رہا۔ جس دن جو جو NROزدہ نئی نسل کے ہتھے چڑھے گا وہ اُسے نتیجہ دے کر ہی واپس بھجیں گے۔ جن لوگوں نے اربوں روپے کی اشتہاری مہم کے ذریعے اشتہاری سزایافتہ کو مسیحا نمبر4بنانے کی کوشش کی‘ اُن کوخاص طور سے یہ نتیجہ مبارک ہو۔ اگر آپ نے منو بھائی کا ڈرامہ سونا چاندی دیکھا ہے تو آپ کو اُن کے‘ اُن کو‘ کِن کے‘ کِن کو کا مطلب خوب پتہ ہے۔ لیکن اگر آپ نے منو بھائی کا سونا اور چاندی دونوں مس کر دیے ہیں تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ ان دنوں سونے کے منہ اور چاندی کے پیٹ والوں کوہی دیکھ لیں۔ جن کو لاہور کی لمز یونیورسٹی کے چھ لڑکے‘ لڑکیوں کے اُٹھائے ہوئے آدھا درجن سوال 'سلامتی‘ کے لیے خطرہ محسوس ہو رہے ہیں۔ آپ ان کا چیخنا‘ چنگھاڑنا دیکھیں اور ساتھ ساتھ برادرم حسن نثار کے سرجیکل تبصرے۔ آپ کو صاف پتہ چل جائے گا Status Quoکی انعامی سکیم کا Gift Hamperلینے والے ہذیان میں کیوں مبتلا ہیں۔یہ مافیا بردوش ہرکارے محض بچوں کے معصومانہ سوال سے آزردہ خاطر اور پریشان نہیں ہوئے بلکہ انہیں ان سوالوں میں 65فیصد نوجوان ووٹروں کی طرف سے اگلے قومی اور صوبائی الیکشن کا غیر سرکاری حتمی نتیجہ نظر آرہا ہے۔ویسے داد دینی پڑتی ہے۔ اس ہذیان کے بدتمیزی والے طوفان میں بھی حسن نثار کس اطمینان کے ساتھ نوجوان نسل کے ڈسپلن کو سراہتے ہوئے دکھائی دیے۔
اب ذرا چلتے ہیں نائی کے ٹھیلے اوردرزی کی دکان کی طرف۔ دونوں جگہ اُسترے‘قینچیاں اور کپڑے‘ناخن کاٹنے والے تیز دھار آلات سمیت موجود ہوتے ہیں۔ مگر آپ کبھی کسی درزی کو پیٹ کی سرجری میں مصروف یا پھر کسی نائی کو گلے کا آپریشن کرتا ہوا نہیں دیکھیں گے۔ہزاروں وکیلوں میں سے گنتی کے محض چند وکلا آئین کی تشریح کر سکتے ہیں‘ جنہیں آئینی ماہر کہا جاتا ہے۔مگر ان دنوں آنٹیGoogle نے شعبہ ٔطب اور شعبہ ٔقانون‘دونوں کے اَن گنت ماہر پیدا کر چھوڑے ہیں۔ ایسے‘ ایسے ماہر جن کے لیے متعلقہ شعبے کی تعلیم حاصل کرنا ضروری نہیں رہا۔ ایسی ہی مہارت کا مظاہرہ کیئر ٹیکر پرائم منسٹر نے اپنے مشہورِزمانہ لمز مقابلے میں کر دکھایا۔ مجھے کیئر ٹیکر PMکی ماضی قریب والی کچھ نشستیں یاد آگئیں جو عمران خان کی زیر صدارت بیٹھنے والے میڈیا پرسنز جنہیں عرف ِ عام میں سپوکس پرسن کہتے ہیں کے اجلاس میں برپاہوئیں۔ کاکڑ صاحب اُن اجلاسوں میں بڑی تاکید کر کے شرکت کو یقینی بنایا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ شرکا کو اپنے انقلابی خیالات سے متاثر کرنے کی کوشش بھی کرتے۔
آئین اور عمران سے Allegianceکے یہ قابلِ رشک مناظراور مظاہر میں نے اکیلے نہیں دیکھے بلکہ درجنوں سرکاری کارندوں کے علاوہ PTIکے 35‘40لوگوں نے ان سے اکثر شرفِ دیدار حاصل کیا۔ اب اُن کی پبلک ریلیشننگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے‘جس کے لیے وہ لمز یونیورسٹی میں جا گھسے۔جہاں اُن سے سٹوڈنٹس نے سوال یہ کر ڈالاکہ ملک کے آئین میں درج الیکشن کروانے کی 90روزہ مدت کو آپ کیوں بھول بیٹھے ہیں؟
اُن کا جواب تھا‘1973ء کے دستورِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر254میں عرصے یا مقررہ وقت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر الیکشن 90دن کے اندراندر نہیں کروائے جاتے تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہاں میں آئین کے آرٹیکل 254 کی بڑی سادہ سے تفہیم پیش کرتا ہوں۔ اس نکتے کوسمجھنے کے لیے دو عام سی مثالیں کافی رہیں گی۔ پہلی یہ کہ کل کو اگر کوئی چیف جسٹس‘کوئی بیوروکریٹ یا عسکری ادارے کا چیف اپنی ڈیٹ آف ریٹائرمنٹ پر چارج کسی اور کے حوالے کرنے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 254کا سہارا لے کر کہے کہ میری ریٹائرمنٹ میں تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے میں طے شدہ تاریخ پہ ریٹائر ہونے سے انکار کرتا ہوں۔کیا کوئی ذی شعور شخص ریٹائر ہونے والے کی ریٹائرمنٹ سے انکار والی تشریح کو مانے گا؟اسی سلسلے کی دوسری مثال یہ ہے‘ اگر 90دن کے لیے آنے والی حکومت صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی طرح چلتی ہی جائے اور کہے کہ آئین کا آرٹیکل254 مجھے سہارا دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ اسلامی جمہوریہ کو کنگڈم آف پاکستان بنا کر رکھ دے گا۔ویسے بھی کسی ذمہ دار سرکاری عہدیدار کو نہ آئین سے کھلواڑ زیب دیتا ہے اور نہ ہی آرٹیکل 6کے نتائج سے فرار کا کوئی راستہ۔ ملک میں اس کی سب سے بڑی مثال ایک جج کو ہٹانے پر سزائے موت دینے والی موجود ہے۔جسے شک ہو وہ آئین کھول کر دیکھ لے۔ جس کسی نے آئین توڑا‘ اُسے غیر مؤثر‘ معطل رکھا یا آئین سے انحراف میں معاونت کی وہ چاہے کوئی جج یا کوئی بھی اور۔ اس مرحلے پر آرٹیکل 6کے ذیلی آرٹیکل(1) اور ذیلی آرٹیکل (2) کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 12کا ذیلی آرٹیکل (2) دیکھ لیناضروری ہوگا۔
ان دنوں وطن ِ عزیز کے جمہوریہ اور اسلامی ہر دو تشخص کا حوالہ مباحث کے گمبھیرتا میں گھر گیا ہے۔جس کا پہلا حصہ IMF کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات سے سامنے آنے والے نتائج ہیں۔مشکل معاشی حالات کا اندازہ لگانے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا رپورٹ شدہ معاشی منظر نامے کا ایک پہلو خطرے کا گھنٹہ گھر بن کر سامنے آیا۔اس سال ہم نے 6.5بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کا بندوبست کرنا ہے۔ کہاں سے ؟یہ پریشان کن سوال ہے کیونکہ IMF پروگرام سے مذاکرات کرنے والے پاکستانی وزارتِ خزانہ کے حکام نے IMFسے External Debt Servicingکو پورا کرنے کے لیے مدد کی درخواست کر دی ہے۔ ٹیکنیکل لیول کے مذاکرات کے دوسرے دنIMFنے پاکستان کے بجٹ خسارے کو اندازوں سے کہیں زیادہ گنوایا۔
دوسرا گمبھیر مسئلہ بڑھتی ہوئی بد امنی اوردہشت گردی کے واقعات کا ہے۔جن کی وجہ سے ہمارے جوانوں کی شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی افغان مہاجرین کی واپسی کی ہینڈلنگ سے اُٹھنے والے سوالات ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے لکھوا لیا‘عام انتخابات 8فروری کو ہوں گے۔ اگر الیکشن مائنس عمران ہوا تو کیا بحران ٹلے گا؟یاپھر دھاندلی کی خلاف نیا ہنگامہ چلے گا؟
پاکستان سے ابھی تک دلچسپی رکھنے والے سارے ادارے اور ممالک کہہ رہے ہیں‘فیئر اینڈ فری الیکشن کروائیں۔بوسیدہ پرانے گملے کا ڈھیلا مرجھایا ہوا پودا''اُمید‘‘کیسے کہلائے گا؟ گزرے18ماہ کو پاکستانی ووٹر نظر انداز کرنے پر تیار نہیں۔
ہزار حیلہ و تدبیر ہو قبائے حیات
کہیں کہیں سے تو پھر بھی رفو نہیں ہوتی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں