پہلے مجھے تھوڑا سا ہنس لینے دیں۔ اس ہنسی میں یقینا چی گویرا‘ چیئرمین مائوزے تُنگ‘ فیڈل کاسترو اور لینن بھی شامل ہوں گے۔ ظاہر ہے انقلاب کا ذکر آئے اور ان انقلابیوں کو خوشی نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ مزدوروں کا انقلاب شِکاگو میں اپنے لہو کی قربانی دینے سے شروع ہوا تھا جبکہ انقلاب ِفرانس کی ابتدا لاڈلی ملکہ کاایک جملہ سن کر مہمیز پکڑ گیا۔وہی جب اُس نے روٹی سے محروم عوام کو کیک کھانے کا مشورہ دیا۔ اسی کے نتیجے میں فرانس کے بھوکے سرفروشوں نے لاڈلی ملکہ سمیت پورے شاہی خاندان کے سر کاٹ ڈالے تھے۔
دوسری جانب پاکستان میں اصلی تے وڈّے انقلاب کے واحد ہول سیل ڈیلرکا ذاتی انقلاب مٹھائی کے ٹوکروں سے شروع ہوا تھا۔چشم دید راوی نے ان ٹوکروں کی تعداد چھ بتائی ہے۔جن کی قربانی کے نتیجے میں ہمارے اسلامی جمہوریہ کے سب سے بڑے صوبے کا خزانہ انقلابیوں کے ہاتھ آگیا۔اس انقلاب کی وجہ سے ٹوکروں نے بھی خوب ترقی کی۔اب تو ٹوکرے‘ ٹوکریوں کو شامل کر کے سینچری سے بھی آگے نکل گئے۔1980ء کے عشرے میں پنجاب کے بیت المال کی چابی نے انقلابیوں کی لمیٹڈ کمپنی کو مالا مال کر دیا۔اس مال کے نتیجے میں ملک کے کونے کونے میں انقلاب تیزی کے ساتھ پھیلتا چلا گیا‘جس سے خوش ہوکر انقلاب کے ہول سیل ڈیلرز نے ہر جگہ انقلاب کی برانچیں کھول دیں۔چونکہ یہ کمرشل مارکیٹنگ کا نیا نیا دور تھا اس لیے انقلاب نے پہلے مڈل ایسٹ کا رُخ کیا اور پھر مے فیئر تک جا پہنچا۔ اس کے بعد کی بقیہ انقلابی تاریخ سے کون واقف نہیں۔ البتہ ایک بات جو کہنے کے قابل ہے وہ یہ کہ باقی براعظموں میں غریب طبقات نے اکٹھے ہو کے برپا کیاجبکہ اپنے ہاں انقلاب کے ہول سیل ڈیلرز کی ٹیم نے انویسٹر‘ اے ٹی ایم‘ سہولت کار اکٹھے کر کے اُن کے دستِ مبارک سے انقلاب کی پہلی اینٹ پورے استقلال سے لگائی۔اسی دوران انقلاب کے ہول سیل ڈیلروں کو حضرت قائد اعظم کا خیال آگیا؛چنانچہ اُنہوں نے اسلام آباد کے اوّلین لینڈ مافیا کے گھر محمد خان جو نیجو کے حمام سے اُٹھائے گئے لوٹوں پر مشتمل پاکستان بنانے والی مسلم لیگ عشروں بعداپنے ہاتھوں سے از سرِ نوبنا ڈالی۔یہیں سے لاڈو سیاست کا آغاز ہوتا ہے۔اس کارِ خیر کے لیے دل و جاں سے خدمت گزاری کاعہد نبھانے والے کو اُس کے مالکان اور بڑے ڈسٹری بیوٹرز نے پیار سے لاڈلاکہنا شروع کر دیا۔لاڈو سیاست کے اس لاڈلے نے لاڈلاڈ ہی میں پنجاب کی ساری تاریخ بدل ڈالی۔
کسی زمانے میں پنجاب کی تاریخ انقلابیوں نے غیر سرکاری طور پر اپنے خون سے خود لکھی۔ سکندر اعظم کے زمانے میں دریائے جہلم کے کنارے تاریخ لکھنے والا راجہ پورس تھا۔مغلِ اعظم کے شاہی دور میں راوی کے کنارے اپنے پانچ دریائوں کے دیس کی تاریخ لکھنے والا رائے عبداللہ خان عرف دُلا بھٹی تھا۔یہ تاریخ آگے بڑھتی ہے تو کہیں چڑھدے پنجاب کا نظام لوہار اور کہیں لہندے پنجاب کا بھگت سنگھ ملتا ہے۔ اسی تاریخ کا ایک تسلسل مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی رہا‘ جس نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر کابل پر بھی راج کر دکھایا۔لاڈو سیاست کے لاڈلے انقلابی کو سیاست کے لیے مرجانے والے غیر دانش مند لیڈروں سے ہمیشہ چِڑ رہی۔ جس کی ایک مثال عدالتی شہید ذوالفقار علی بھٹوہیں۔ لاڈلے کی بدنامی جب بھی عروج پر پہنچی اُسے پتلی گلی سے نکالا گیا اور چارٹر جہاز پر واپس منگوایا گیا۔ان دنوں لاڈو سیاست کے لاڈلے انقلابی کے تین معرکے زبانِ زد عام ہیں۔ چونکہ آج الیکشن میں 90 سے بھی کم دن باقی رہ گئے ہیں ا س لیے بہتر ہوگا کہ ان تین معرکوں کو انتخابی لب و لہجے میں بیان کیا جائے۔
لاڈو سیاست کے لاڈلے کا پرِی پول معرکہ: قارئین وکالت نامہ! آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ لاڈلے نے اپنے امراض اور فرنگی ڈاکٹر وں کی طرف سے بحالی ٔصحت میں تاخیر اور غفلت سامنے رکھ کر اپنے بنائے ہوئے کسی دیسی ہسپتال میں داخل کرنے کا مطالبہ کیا ہوگا۔پھر اس مطالبے کا نام لیول پلینگ فیلڈ رکھا ہوگا‘ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ لندن پلان کی اوّلین شرط قاسم کے ابّا کو گرفتار کرنے‘ دوسری شرط اُسے سزا دینے اور تیسری شرط جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھنے کی تھی تاکہ اُسے بیوی اور بہنوں کی گرفتاری کا ڈراوا دے کر توڑا جا سکے۔لیکن سُن لیجئے اُس کا کہنا ہے‘ جو کر سکتے ہو کر تے جائو میں اپنے ہم وطنوں کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ساتھ ہی ایک اور شرط ملک کی سب سے مقبول اور بڑی پارلیمانی طاقت کو فتنہ سمجھ کر اُسے دھر رگڑا لگانے والی تھی۔ جوں ہی یہ فیلڈ لیول ہوا لاڈو سیاست کے لاڈلے کی فلائٹ واپس لینڈ کر گئی۔ نہ ڈاکٹر کی ضرورت‘ نہ ہسپتال جانے کا کشٹ‘ نہ علاج کرانے کی خواہش۔
لاڈو سیاست کے لاڈلے کا پولنگ پلان معرکہ: پچھلے چند ہفتے سے لاڈلے کا مطالبہ چلتا آیا ہے کہ میرے مقابلے میں میری مرضی کی شاپر پارٹیاں اور لفافہ امیدوار کھڑے کیے جائیں۔ میری خواہش کے مطابق میری مہم چلے اور میری ضرورت کے مطابق مدِ مقابل امیدوار آئوٹ آف فیلڈ کرنے کی گارنٹی دی جائے۔ لاڈو سیاست کے لاڈلے کا یہ لاڈ اپنی جگہ لیکن عام عوام کے موڈ پر مبنی تازہ سروے کو جواز خود لاڈو سیاسی پارٹی کے ڈیجیٹل میڈیا نے شروع کیا‘ اُس میں لاڈلے کی مقبولیت 15فیصد اور اُس لاڈلے کی فرمائش پر زندان میں ڈالے گئے قیدی کی مقبولیت 85فیصد نکل آئی۔ سروے کا یہ نتیجہ دیکھ کر طے شدہ وقت سے پہلے سوشل میڈیا سائٹ سے اسے ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ جسے معروف صحافی کامران خان نے بروقت پرنٹ کر کے اپنے اکائونٹ سے ٹویٹ کر ڈالا۔الیکشن کمیشن کی تازہ انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں 70فیصد ووٹرز 18سے39سال کی عمر کے ہیں۔ بلّے کے نشان پر ٹھپہ لگاتے ہوئے‘ووٹ ڈالتے وقت نہ کوئی اُن کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے نہ ہی عمران کے لیے ووٹ مانگتے وقت اُن کے منہ پر کوئی ہاتھ رکھ سکتا ہے۔مگر کچھ لوگ لاڈلے کو پنجاب کا مقبول اور پاکستان کی آنکھ کا تارا ثابت کرنے کے لیے زورِ شکم لگا رہے ہیں۔
لاڈو سیاست کے لاڈلے کا آلٹرنیٹ روٹ معرکہ: شہرِ اقتدار میں گزشتہ چار دن سے نگران حکومت میں شامل چار عدد لاڈلے بیورو کریٹس نے دن رات گریڈ16‘گریڈ17اور گریڈ18کے قریب از ریٹائرمنٹ سرکاری ملازموں کی فہرستیں بنانے میں لگائے۔ انتہائی قابلِ بھروسا ذرائع کا کہنا ہے ان میں پٹواری‘ گرداور‘ قانون گو‘ نائب تحصیل دار اور تحصیل دار کے رینک سے ترقی کر کے گریڈ 16‘17اور 18تک پہنچنے والے ترجیح نمبر1پر شامل ہیں۔پٹوارانہ ذہن کے ایسے لوگ DRO‘ RO اور AROلگائے جائیں گے۔الیکشن کمیشن سیاست کا حصہ بننے کی بجائے ریٹرننگ افسران عدلیہ سے مانگے۔ ملک‘ قوم‘ سلطنت بھرتی والی سلیکشن کو الیکشن نہیں مانے گی۔ایسا لاڈصرف فساد برپا کر سکتا ہے۔8فروری کیلئے قوم کا عہد یہ ہے۔
ابھی کچھ قرض باقی ہیں
ابھی کچھ فرض باقی ہیں
مری مٹی کے آنگن میں
ابھی کچھ مرض باقی ہیں
جنہیں میں نے چُکانا ہے
جنہیں میں نے بھگانا ہے