"SBA" (space) message & send to 7575

جسٹس اطہر من اللہ کا مؤقف اور سنگین غداری کیسز

آئین کے آرٹیکل 6کا تذکرہ اکثر سیاسی بیانات میں چلتا رہتا ہے۔ جو آئین توڑنے ‘ اسے معطل رکھنے یا سبو تاژ کرنے والوں یا پھر ایسی شدید آئین شکنی کو تحفظ دینے والوں کو سزا دینے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ مگر بہت کم لوگ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 12ذیلی آرٹیکل(2)کے بارے میں جانتے ہیں۔ جس میں واضح طور پر درج ہے‘ آئین کی Abrogationیا Subversionکا مقدمہ بغیر کسی قانونیs Limitationکے 23مارچ 1956ء سے شروع کر کے آئینی شکنی کے ملزم /ملزمان کے خلاف کسی بھی وقت چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن آج تک آئین شکنوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف کوئی بامعنی اور نتیجہ خیز مقدمہ نہ چل سکا ۔ ہاں البتہ مرحوم پرویز مشرف کے خلاف جج ہٹانے کا مقدمہ سنگین غداری (High Treason)کے جرم میں چلایا گیا‘ جس میں مشرف کو مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ مشرف کی وفات کے بعد یہ کیس اب سپریم کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے فِکس ہوا ہے۔
آپ یقیناحیران ہوئے ہوں گے کہ پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کے دن مارشل لاء نافذ کیا تھا جبکہ ججز کو ہٹانے کے لیے لیگل فریم ورک آرڈر المعروف LFOتو بعد میں آیا۔اس لیے 12اکتوبر 1999ء والی سنگین آئین شکنی پر کوئی مقدمہ کسی عدالت میں چلا‘ یا نہیں چلا؟اس اہم ترین سوال کا جواب PLDسال2000ء سپریم کورٹ کے صفحہ نمبر869سے شروع کر کے صفحہ نمبر1223 پر تفصیل سے درج ہے۔ صرف اسی PLDمیں نہیں بلکہ یہ فیصلہ آنے کے بعد عدالت نے اسے علیحدہ بُک بائنڈنگ بھی کروائی تھی۔یہ فیصلہ صادرکرنے والے اُس وقت کے چیف جسٹس سمیت 12جج صاحبان تھے۔فیصلے کا ٹائٹل ہے :سید ظفر علی شاہ وغیرہ بنام جنرل پرویز مشرف وغیرہ۔ ان 12جج صاحبان میں سے چار جج حضرات پاکستان کے چیف جسٹس رہے۔ظفر علی شاہ کیس کیا تھا اور اس میں کیا فیصلہ ہوا ‘ادھر بعد میں چلتے ہیں‘ لیکن یہ تاریخی بحث سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے دوران جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے ریماکس سے شروع ہوئی ‘ جسے عدالتی زبا ن میں Obiter Dicta (بہ سلسلہ کلام دعویٰ )کہا جاتا ہے۔جس کے بارے میں عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ یہ ایک مضبوط جوڈیشل معاملہ ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ میں High Treason Actکے نیچے بنائی گئی خصوصی عدالت کی سزا اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پرویز مشرف مرحوم کی اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کے قومی میڈیا پر رپورٹ شدہ مؤقف سے یہ اہم نکات سامنے آئے۔
پہلا نکتہ: 12اکتوبر 1999ء کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا‘ مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔
دوسرا نکتہ: صرف 3نومبر 2007ء کے اقدام پر کارروائی کیوں کی گئی‘ کیا ججوں پر حملہ منتخب اسمبلیاں توڑنے ‘ ملک کے آئین کومعطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟
تیسرا نکتہ: صرف ججوں پر کارروائی ہوگی تو فیئر ٹرائل کا سوال اُٹھے گا؟اس موقع پر سندھ ہائی کورٹ بار کے وکیل نے جسٹس اطہر من اللہ کے مؤقف کی تائید میں کہا: پرویز مشرف کے اقدام کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف لازماًکارروائی ہونی چاہیے۔ اس مرحلے پر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جانا چاہیے‘مگر سبق سیکھنے کے لیے تا کہ مستقبل ٹھیک ہو۔
چوتھا نکتہ: مارشل لاء کا راستہ دکھانے والے ججز کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا ‘ ہماری تاریخ یہ ہے کہ اگر طاقتور کمزور پڑتا ہے تو پھرعاصمہ جیلانی والا فیصلہ آتا ہے۔
یہ صحیح معنوں میں ایک پُر مغز سماعت تھی ۔ جس میں پاکستا ن کی جوڈیشل ہسٹری کے ماضی ‘ حال اور مستقبل کا بھی ذکر آیا‘ وہ بھی بڑے بامعنی طریقے سے۔ وطن ِ عزیز کی سب سے کالے سیاہ اور تباہ کن اس باب کا آغاز سال1958ء میں ہوا جب Dossoکیس میں ایک لائق جج نے اپنی ساری لیاقت جمع کر کے قوم کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔چیف جسٹس منیر کے اس فیصلے نے پاکستان کو ایک عشرے کے اندر اندرنہ صرف قانون کی بالادستی سے محروم کیا بلکہ ڈی ریل کر کے اسے ماضی ٔ مرحوم کے دائرے کے سفر میں ڈال دیا۔آج 65سال گزر جانے کے بعد بھی آئین کو بے توقیر کرنے والے وہی دلائل دہرا رہے ہیں۔ظاہر ہے جب تک پاکستان کے نظامِ قانون و انصاف میں سے جسٹس منیرکا ڈالا ہوا گند صاف نہیں ہو جاتا‘ قانون کی بالادستی والے اُس صاف ستھرے وقت تک ساری گندگی کے گناہ میں جسٹس منیر کو شریک ملزم ٹھہرایا جا تا رہے گا۔ یہ تاریخ کاجبر نہیں بلکہ ایک منصف کی اپنی چوائس تھی‘ جب اُس نے آئین توڑنے والوں کو ہیرو بنا کر کروڑوں لوگوں کو زیرو کر دکھایا۔یہی آئین کے آرٹیکل12 ذیلی آرٹیکل (2) کی وجۂ تخلیق بنی۔
اس وقت PLD سال 1958ء سپریم کورٹ صفحہ نمبر533 پر درج فیصلہ میرے سامنے ہے، جس میں پاکستان کی تاریخ نہیں بلکہ Global Rule of Law اور Islamic Jurisprudence کو بھی ملوکیت یا آمریت کے حق میں جاہلانہ توضیحات کے طور پر استعمال کیاگیا۔Han's Kelsen وہ پہلا شخص ہے جس نے نظریۂ ضرورت یعنی ڈاکٹرائن آف نسیسٹی کو ان الفاظ میں ایجاد کیا تھا:(Han's Kelsen "General Theory of Law and State Translated by Anders Wedberg; 20th Century legal Philosphy) کیلسن کی قانونی تھیوری کے مطابق اگر کسی خطے یا سماج میں لوگوں کی اکثریت اکٹھے ہو کر انقلاب برپا کر دے اور ملک کے اقتدار پر انقلابیوں کا قبضہ ہو جائے ۔ تو ایسی صورتحال میں چونکہ ملک کا مروجہ دستور اس مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرتا۔ اس لیے ایسی ریاست میں ضروری ہوگا‘ انقلابی اقدامات اور انقلابیوں کو نظریۂ ضرورت کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔Dosso کے کیس‘The Stateبنام Dosso and Anotherکے وقت نہ تو پاکستانی سماج میں کوئی انقلاب برپا ہور ہا تھا نہ ہی عام آدمی اس انقلاب میں شریک تھا‘ بلکہ Essential Serviceاور Civil Serviceکے کچھ لوگوں نے آپس میں ساز باز کرکے 1956ء کے دستور کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ یوں قوم کے تنخواہ دار ‘ قوم کے تاجدار بن بیٹھے‘جن میں اُس وقت کی عساکر کے سربراہ کو وزیر دفاع بنا یا گیا۔ یہ مقدمہ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس پہنچا تو ایک غیر مسلم جج جسٹس اے آر کار نیلیس نے مارشل لاء کو غیر آئینی قرار دیا ۔ آئین توڑ کر مسندِ اقتدار پر چڑھ دوڑنے والوں کو سنگین غداری کا مجرم کہا‘جبکہ چیف جسٹس منیر نے اپنے ایک اور حامی جج کے ہمراہ کیلسن کے نظریے کو بدل کر اسے ریاست کی ضرورت یعنی State necessity قرار دیا۔ اُس کے شاہ کالے الفاظ یہ تھے:(A Victorious revolution or a successful coup d' E'tat is an internationally recognised legal method of changing a Constitution)۔
قومے فروخــتند چہ ارزاں فروختند

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں