ریکارڈ پر موجود مواد کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد‘ہمیں پتہ چلاہے کہ اس مرحلے پرہمارے سامنے کوئی مناسب ''مجرمانہ مواد‘‘ موجود نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ درخواست گزار عمران احمد خان نیازی نے سائفر ٹیلی گرام میں موجود معلومات کو‘ جو واشنگٹن سے موصول ہوئی تھیں‘ ان معلومات کو بڑے پیمانے پر عوام تک کسی خاص نیت (Intention)یا حساب کتاب (calculation) کے ساتھ براہ راست پہنچا کر ظاہر کیا تھا۔یا پھر بالواسطہ طور پر ‘ کس غیر ملکی طاقت کے مفادمیں یا غیر ملکی طاقت کے فائدے کے لیے ایسا کیا گیا۔ اور نہ ہی اس حوالے سے ظاہر کی گئی معلومات کا کسی دفاعی تنصیبات یا دفاعی معاملات سے کوئی تعلق ہے۔ اور نہ ہی عمران خان نے عوام کے سامنے کوئی خفیہ codeظاہر کیا ہے۔ لہٰذا ہماری Tentative Opinionیہ بنی ہے کہ اس مرحلے پر ‘ ہمارے سامنے یہ الزامات مان لینے کے لیے کوئی معقول گرائونڈز نہیں ہیں جن سے ظاہر ہو سکے کہ درخواست گزاروں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن نمبر5کی ذیلی دفعہ(3)کی ذیلی شق (b) کے تحت قابلِ سزا جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
قارئینِ وکالت نامہ! اوپر درج پیراگراف سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل بینچ کا صادر کردہ تازہ فیصلہ ہے۔ جس کوقائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان‘ مسٹرجسٹس سردار طارق مسعود‘مسٹر جسٹس منصور علی شاہ‘ مسٹر جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل نے کرمنل پٹیشن نمبر1276اور کرمنل پٹیشن نمبر1320آف 2023ء پر جاری کیا گیا۔مقدمے میں دوفریق سائل تھے ‘ عمران احمد خان نیازی اور شاہ محمود قریشی۔ اس فیصلے کے آتھر جج سیدمنصور علی شاہ صاحب ہیں جبکہ اوپر درج فیصلے کا ایک حصہ‘22دسمبر2023ء کے انگریزی فیصلے کے پیراگراف نمبر6کا اُردو ترجمہ ہے۔
یہ سپریم کورٹ فل بینچ کے تینوں فاضل ارکان کا متفقہ فیصلہ ہے جسے قانون کی کتابوں میں رپورٹنگ کے لیے منظور بھی کیا گیا تاکہ یہ اصولِ قانون پورے پاکستان کے عدل و انصاف سے متعلقہ لوگوں تک پہنچ سکے۔اس فیصلے کی خاص بات مسٹر جسٹس اطہرمن اللہ صاحب کا ایک ایڈیشنل نوٹ بھی ہے جس کے ذریعے ''عمران خان وغیرہ بنام سرکار‘‘ والی فوجداری درخواست کو فوجداری اپیل میں کنورٹ کیا گیا۔ فاضل جسٹس اطہر من اللہ لکھتے ہیں:
''درخواست گزار عمران احمد خان نیازی اور شاہ محمود قریشی نے ضمانت کی درخواست کی تھی لیکن اسے بالترتیب ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے مسترد کردیا۔ اب انہوں نے ضمانت کی رعایت کے تحت اپنی رہائی کا حکم دے کر اپنی آزادی بحال کرنے کے لیے اس عدالت سے رخصت مانگی ہے۔ دونوں درخواست گزار آئندہ انتخابات لڑنے کاارادہ رکھتے ہیں جوکہ 08 فروری 2024ء کو ہونے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت عطا کردہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے (2017ء کا ایکٹ ) انتخابی شیڈول کا اعلان اور باضابطہ طور پر مطلع کیا ہے۔ جناب عمران احمد خان نیازی نے سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بنائی تھی اور 2018ء میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات کے بعد وہ قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے اس عہدے پر کام کیا تھا۔ ملک کا وزیر اعظم۔ جناب شاہ محمود قریشی کا شمار پارٹی کے سینئر ترین عہدیداروں میں ہوتا ہے۔ عوامی اہمیت کے جو سوالات اس عدالت میں زیر غور آئے ہیں وہ ہیں ‘چاہے‘ انتخابی مدت کے دوران وہ امیدوار جو الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں اور سیاسی عمل میں ان کی شرکت رجسٹرڈ ووٹروں کیلئے اہم ہو‘ انہیں قید میں رہنا چاہیے‘ یا چاہے ایسی صورت میں ضمانت دے دی جائے۔ اسے ایک اصول کے طور پر حالات کے موافق سمجھا جانا چاہیے اور صرف غیر معمولی صورتحال میں ضمانت دینے سے انکار کیا جانا چاہیے ۔جیسے کہ جب سائل کے فرار ہونے کا امکان ہو یا وہ معاشرے کیلئے خطرہ ہو یا پھر اس بات پر یقین کرنے کی بنیادیں موجود ہوں کہ ملزم جرم کو دہرا سکتا ہے۔ سوالات کے جوابات کیلئے ضروری ہے کہ اس طرح کے عجیب و غریب حالات میں ملوث سٹیک ہولڈرز کے حقوق کا تعین کیا جائے اور گزشتہ سات دہائیوں کے دوران انتخابی عمل کیcheckered تاریخ کی اہمیت کا بھی جائزہ لیا جائے‘‘۔
جسٹس اطہر من اللہ صاحب کے علیحدہ نوٹ میں مرکز برائے انسانی حقوق و انتخابات جو کہ UNOکاایک ذیلی ادارہ ہے‘ کی ہینڈ بُک چارٹر کا حوالہ دیا‘جو پاکستان کے موجودہ انتخابات کے تناظر میں پوری طرح سے فٹ آتا ہے۔انسانی حقوق اور انتخابات کا آرٹیکل 87آف UNO ڈسکس کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے لکھا ''حقیقی انتخابات صرف اسی صورت میں یقینی بنائے جا سکتے ہیں جب وہ باخبر ووٹر کوحقیقی اور آزاد انتخابی عمل پیش کریں۔سیاسی رائے کی بنیاد پر امتیازی سلوک یا دھمکیاں ‘حقیقی انتخابات کے تصور کیلئے اجنبی ہیں‘ لہٰذا ایسی سوچ بھی انتخابی عمل کی سالمیت پر سمجھوتا کرنے اور اسے جعلی انتخابات کی حیثیت دینے کیلئے کافی ہوگی۔ ہر امیدوار اور سیاسی جماعت کوشہریوں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت عوامی وسائل تک رسائی کا یکساں اور مساوی موقع ہونا چاہیے۔UNOکے انسانی حقوق اورانتخابات والے چارٹر کے آرٹیکل 77کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے اپنے تاریخ ساز فیصلے میں مزید لکھا‘ ایک حقیقی انتخابات کی ضروری خصوصیات کو ایک اہم سیاسی عمل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔جو عوام کی آزادانہ طور پر رائے کے اظہار کو ظاہر کرے گااور اُس پر اثر انداز ہوگا۔اندرونی اختلافات کو روندنے یا بین الاقوامی جانچ پڑتال کی توجہ ہٹانے کیلئے عارضی طور پر تیار کئے گئے غیر قانونی انتخابات بین الااقوامی معیار کے پیمانوں پر پورا نہیں اُترتے۔اپنے لینڈمارک فیصلے کے اضافی نوٹ کے پیراگراف نمبر 4میں جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل کا بے لاگ اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیا۔یہ فیصلہ کہتا ہے کہ ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پرپاکستان کے قیام کے ساتھ ہی جمہوریت اور جمہوری عمل برُی طرح سے مجروح ہوا۔ پاکستا ن میں جمہوری عمل پر غیر جمہوری اشرافیہ نے پہلی بار اُس وقت حملہ کیا تھاجب پہلی آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا گیا۔جس کے بعد...(جاری)