والیٔ میسور حیدر علی کے گھر ہندوستان کی تاریخ کا پہلا آزادی پسند شیر دل ہیرو پیدا ہوا۔حضرتِ ٹیپو سلطان (یکم دسمبر1751ء تا 4مئی 1799ء) بیرونی استعمار کے خلاف ڈٹ کر لڑنے والا جواں سال بہادری کی عظیم تاریخ اپنے خون سے لکھ گیا۔ماں دھرتی پر قربان ہونیوالے ٹیپو سلطان کے ایک جملے نے اُسے عالمی ادب میں بھی ابدی زندگی عطا کی۔''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ پھر غلامِ ہندوستان کی حقیقی آزادی کا انقلابی‘ نوخیز ہیروبھگت سنگھ(1907ء تا 23مارچ 1931ء) سامنے آیا۔بھگت سنگھ کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ اُس کیلئے بانی ٔپاکستان حضرتِ قائد اعظم نے نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد کو برملاجائز قرار دیا۔آزادی کے بعد المیہ یہ ہوا کہ جس بھگت سنگھ کو بانیٔ پاکستان نے تسلیم کیا‘اُسے مطالعہ پاکستان میں جگہ نہ دی گئی۔سرکاری تاریخ لکھنے والے درباری منشیوں نے رائے احمد خان کھرل ‘ دُلّا بھٹی اور راجہ پورس خان سے بھی یہی سلوک کیا۔جبکہ استعماری حملہ آور مقدونیہ کے الیگزینڈر کو عظیم فاتح بتایا اور آزاد پاک سرزمین پر اُس حملہ آور کی یادگاریں بنوائیں۔
یہ12ستمبر 1929ء کا دن تھاجب برصغیر کی آزادی کے عظیم ترین ہیرو حضرتِ قائداعظم محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے اجلاس منعقدہ ہماچل پردیش شملہ میں ان انقلابیوں کادفاع کیا۔ بیرسٹر محمد علی جناح بمبئی سے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔یہ تاریخی واقعہ اُس وقت پیش آیاجب بھگت سنگھ اور اُس کے دو انقلابی کامریڈ ساتھیوں ‘ سکھ دیو اور راج گرو نے اپنے خلاف مقدمے کی سماعت میں فیئر ٹرائل کا حق نہ ملنے پر احتجاجی بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔12ستمبر1929ء کو شملہ اجلاس میں بیرسٹرکرم چند موہن داس گاندھی اور اُن کے ساتھی خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ گاندھی بھگت سنگھ کی تحریک کے کھل کر مخالف تھے اورہمیشہ نوجوان انقلابیوں کی سیاسی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری رہے۔اُس وقت کے ہوم منسٹر نے اسمبلی میں ایک ترمیمی قانون کا بِل پیش کیا جس کے مطابق ملزم کی غیر حاضری میں مقدمے کا ٹرائل چلا کر اُسے سزا دی جاسکتی تھی۔ اسمبلی پر سکوت ِ مرگ طاری تھا۔ بِل ٹیبل کرکے اُس پرپہلی خواندگی کے لیے ارکانِ اسمبلی کی رائے پوچھی گئی۔ایک انتہائی بارعب اور پُر تاثیر آواز نے سب کو چونکا دیا۔مسٹر ہوم منسٹر I strongly reject this bill۔ یہ قائداعظم کی آواز تھی۔اُنہوں نے دلائل دینا شروع کیے۔''کیا بھوک ہڑتال سے بدتر تشدد کسی بھی اور چیز کو سمجھتے ہیں؟ لیکن آپ پر اس کا رَتی بھر اثر نہیں ہو رہا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی بھی ملزم کے بنیادی قانونی حقوق کس طرح چھین سکتے ہیں؟آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ آپ کرمنل جوریس پرُوڈنس کا اہم ترین اصول اپنے مفاد کے لیے تبدیل کر سکتے ہیں‘‘۔قائداعظم جلال میں آگئے۔کہنے لگے: ہر شخص بھوک ہڑتال کی اذیت برداشت نہیں کر سکتا...اگر یہ اس قدر آسان ہے تو ہوم منسٹر آپ خود بھوک ہڑتال کر کے دیکھ لیں... چاہے مختصر وقت کے لیے ہی سہی۔لیکن آپ ایسا نہیں کر سکیں گے‘ کیونکہ آپ کے اندر ارادے کی وہ مضبوطی اور عزم نہیں جو بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں میں ہے۔ قائداعظم نے انقلابیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے گرجدار آواز میں کہاکہ آج ہندوستان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ 30کروڑ لوگ اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے‘کیونکہ آپ دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ کے پاس آپ کی اپنی ہی ظالمانہ منطق ہے۔یہ کہہ کر قائداعظم رُکے اور اگلا جملہ بولا...سفاک منطق۔آج اگر ہندوستانی حقوق چاہتے ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ آپ اسے جرم کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
بھگت سنگھ ضلع لائل پور کے موضع بنگہ میں پیدا ہوا۔بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ اور والد کِشن سنگھ دونوں بھائیوں نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انگریزی استعمار کے خلاف بغاوت کو تحریک دینے میں حصہ لیااور آزادی کی حامی انقلابی غدر پارٹی کے رکن بن گئے۔28ستمبر 1907ء کا دن بنگہ کے باسیوں اور ہندوستا ن کے آزادی پسندوں کیلئے دو خوشخبریاں لے کر آیا۔پہلی خوشخبری بھگت سنگھ کی پیدائش کی تھی۔جبکہ دوسری خوشخبری اُسی روز بھگت سنگھ کے والد اور چچا کی برطانوی جیل سے رہا ہونے کی تھی۔ بھگت سنگھ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ 1923ء میں بھگت سنگھ نے نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا ‘ بھگت پڑھائی میں بہت اچھے تھے۔ انہیں اُردو‘ ہندی‘ گُر مکھی ‘ انگریزی اور سنسکرت یعنی پانچ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
بھگت سنگھ نے جلیانوالہ باغ قتل ِعام اور عدم تعاون کی تحریک والے خونی واقعات سے گہرا اثر قبول کیا۔وہ مساوات پر مبنی ترقی پسند سماج قائم کرنے کے حامی تھے۔بھگت سنگھ کی پہلی گرفتاری سال1927ء میں لاہور دسہرا بم کیس کے الزام میں ہوئی اور انہیں شاہی قلعے میں قیدکر دیا گیا۔ضمانت پہ رہائی کے بعدبھگت سنگھ نے نوجوان بھارت سبھا کے نام سے پارٹی بنائی اور انقلاب پسندوں میں شامل ہوگئے۔بھگت سنگھ انقلاب کیلئے عملی جدوجہد اور استعماری طاقت کے خلاف جواب میں طاقت استعمال کرنے کے حامی تھے؛چنانچہ دہلی میں عین اس وقت جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا‘بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں بٹو کیشور دت (بی کے دت) وغیرہ نے اسمبلی ہال میں دھماکے کی آواز پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں کو برطانوی استعماری حکومت نے گرفتار کرلیا اوردونوں کو کینگرو کورٹ نے عمر قید کی سزا سنا دی۔اس عرصے میں بھگت سنگھ کی جدوجہد میں شیو ورما اور کانپورسے تعلق رکھنے والے بی کے سنہابھی شامل ہوگئے اور بھگت سنگھ نے مشہور انقلابی اور آزادی پسند گنیش شنکر ودیارتھی کے ہفتہ وار اخبار ''پرتاپ‘‘ میں کام شروع کیا۔ اس اخبار میں وہ بلونت سنگھ کے نام سے انقلابی تحریریں لکھتے رہے۔ان تحریروں میں سوشلسٹ انقلاب کی حمایت اور طبقات سے پاک برابری کی سطح پر ہندوستانی معاشرے کے قیام کے لیے پیغام رسانی تھی۔بھگت سنگھ کے افکارکابہت دُور رس اثر ہوا۔
بھگت سنگھ چڑھدے پنجاب کا وہ ہیرو ہے جس کی جدوجہد بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم کو نظر آگئی۔ لیکن پاکستان کے سرکاری ایوانوں میں بیٹھ کر درباری تاریخ لکھنے والوں کو یہ اول و آخر پاکستانی ہیرو کیوں نظر نہ آسکاجس نے پاکستان میں جنم لیا۔ جس کا گھر آج بھی پاکستان میں ہے۔جس کا مقدمہ پاکستان میں چلایا گیا۔ جس نے پاکستان میں جیل کاٹی۔ جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی کال کوٹھڑی میں آخری سانس لی ۔ پھانسی کے پھندے کو چوما۔
ستویندر سنگھ he Execution of Bhagat Singhمیں لکھتے ہیں: پھانسی کا پھندا بھگت سنگھ نے خود اپنے گلے میں ڈالااور انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا۔انگریز استعمار نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کے راوی کے کنارے ٹکڑے کیے۔فرنگی راج کو دیس نکالاملا مگر بھگت سنگھ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔بھگت سنگھ وفا کی اوّلین تصویروں میں سے ایک ہے‘جسے وطن کی ہوائیں سلام کہتی رہیں گی۔سوئے مقتل جاتے ہوئے بھگت سنگھ ماں دھرتی کا گیت گا رہے تھے:
دل سے نکلے گی مر کے بھی نہ وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی
سکھ دیو اور راج گرو اپنی آواز اُن کے ساتھ ملاتے چل رہے تھے۔بھگت سنگھ کا سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔