سقوطِ ڈھاکہ پہ تین رپورٹیں بنی تھیں۔ ایک بنگلہ دیش نے بنائی‘ جسے وار کرائم کی کارروائی کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ دوسری بھارت نے‘ جو مشرقی پاکستان میں حملہ آور تھا اور المیہ یہ ہوا کہ اس حملہ آور کے سامنے پلٹن میدان میں ٹائیگر نیازی نے سرنڈر کیا۔ اس بارے میں بریگیڈیئر صدیق سالک نے کتاب لکھی ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘۔ قائداعظم کے پاکستان میں مشرقی پاکستان کی آبادی اکثریتی تھی‘ اس لیے جو مغربی پاکستان تھااسے نئے پاکستان کا نام دیا گیا اور یہیں تیسری رپورٹ ریاست نے بنوائی جسے جسٹس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کہتے ہیں۔ اسے آپ کرم کہیے یا ستم کہ بنگلہ دیش اور بھارت والی کوئی رپورٹ پاکستان میں کبھی پبلش نہ ہو سکی لیکن ہماری حمودالرحمن کمیشن رپورٹ‘ جو ہم نے ابھی تک اپنی قوم سے چھپا کر رکھی ہوئی ہے‘ وہ ٹاپ سیکرٹ رپورٹ پرویز مشرف کے دور میں بھارت میں پہنچ کر وہاں سے شائع بھی ہو گئی۔ کسی ملک کا ٹوٹنا محض ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی تاریخ مسلسل حقائق کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ویسے بھی تاریخ سچے واقعات کی تفصیلی رپورٹنگ جانی جاتی ہے۔ جسے لکھنے والا اپنے باپ کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال سلاطینِ ہند کے حالات پر مبنی ابوالقاسم ہندوکش فرشتہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے‘ جو عرفِ عام میں تاریخِ فرشتہ کہلاتی ہے۔ تاریخِ فرشتہ کے دیباچے میں ابوالقاسم نے سچ لکھنے کے حوالے سے اپنی آپ بیتی بیان کی۔ آئیے! اس دیباچے کا متعلقہ حصہ پڑھتے ہیں تاکہ ہمیں سچ اور تاریخ سے سبق سیکھنے کا حوصلہ ملے۔
فرشتہ کا آبائی وطن استر آباد تھا جہاں وہ 1552ء میں پیدا ہوا۔ بچپن (920ھ) ہی میں وہ احمد آباد آگیا جہاں اس نے شاہی خاندان کے افراد کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ جب وہ جوان ہوا تو مرتضیٰ نظام شاہ کے حلقۂ ملازمین میں شامل ہو گیا۔ حسین نظام شاہ ثانی کے قتل کے بعد وہ بیجا پور چلا گیا جہاں اُس نے ابراہیم عادل ثانی کی ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں اس نے سب سے پہلے ''اختیاراتِ قاسمی‘‘ کے نام سے طب کے متعلق ایک کتاب لکھی۔ فرشتہ اگرچہ ملکی مہمات میں زیادہ تر مشغول رہتا تھا لیکن لوگ اس کی علمی صلاحیتوں سے ناواقف نہ تھے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی بڑا علم دوست فرمانروا تھا۔ اسے جب فرشتہ کی علمی صلاحیتوں اور خاص کر علمِ تاریخ سے دلچسپی کا حال معلوم ہوا تو اس (ابراہیم) نے فرشتہ کو ہندوستان میں اسلامی عہدِ حکومت کی تاریخ لکھنے کا حکم دیا۔ فرشتہ نے پہلے تو انکساری سے کام لیا اور کہا کہ وہ اس خدمت کو بجالانے کا اہل نہیں لیکن ابراہیم نے اس عذر کو تسلیم نہ کیا اور برابر اصرار کرتا رہا۔
فرشتہ کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ اگر بادشاہ کے کہنے سے کوئی تاریخ لکھی گئی تو یقینا اس میں حالات و واقعات کو اس انداز سے لکھنا پڑے گا کہ جس سے بادشاہ کی ناراضی کا خطرہ پیدا نہ ہو۔ فرشتہ کو یہ بات کسی طرح قبول نہ تھی اس کے جذبۂ انکسار کے پس پردہ یہی امر کار فرما تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مورخ کی حیثیت سے وہ جو کچھ لکھے وہ حقیقت کی صحیح تصویر ہوا اور اس میں کسی مصلحت کو دخل نہ ہو۔ جب بادشاہ کا اصرار حد سے بڑھا تو اس نے مجبور ہو کر قلم اٹھایا اور نمونے کے چند اوراق لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیے۔ ان اوراق میں اس نے عمداً ابراہیم کے باپ علی عادل شاہ اول کے حالات لکھے اور اُس کے قتل کے شرمناک (واضح رہے علی عادل شاہ اول خوبصورت لڑکوں کی قربت کا شائق تھا۔ اسی رجحان کے باعث اسے ایک با غیرت صاحبِ جمال کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونے پڑے )واقعے کو بلا کم و کاست بیان کر دیا۔
فرشتہ کی یہ جسارت قابلِ صد ستائش تھی۔ ابراہیم اگر چاہتا تو وہ ان اوراق کو پڑھ کر فرشتہ کو قتل کروا سکتا تھا۔ کیونکہ اُس (فرشتہ) نے ان اوراق میں ابراہیم کے بارے میں وہ سب کچھ صاف صاف لکھ دیا تھا جسے سب جانتے تھے ، لیکن زبان پر کوئی نہ لاتا تھا۔ اور پھر یہ بات بھی ایسی تھی کہ جسے باپ سے محبت کرنے والا کوئی باغیرت بیٹا برداشت نہ کر سکتا تھا۔
ابراہیم نے ان اوراق کو پڑھا اور اپنے باپ کی محبت سے زیادہ فرشتہ کی حقیقت نگاری کو ملحوظ خاطر رکھا اور اس کی اس روش کو سراہا اور اسے حکم دیا کہ کہ وہ ایسی ہی جرأت سے تاریخ لکھنے کا کام شروع کر دے ۔ اس کام میں جہاں ایک طرف فرشتہ کی بیباکی اور حق گوئی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ابراہیم کی منصف مزاجی کا بھی پتا چلتا ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے عہدِحکومت کے واقعات اب فراموش ہو چکے ہیں لیکن اُس کا یہ کارنامہ کہ اس نے فرشتہ سے تاریخ لکھوائی‘ اس کے نام کو ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے ہاں تاریخ کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ اسے افسانوی نصاب بنا کر مطالعہ پاکستان کانام دیا گیا۔ جسے لکھنے والے خوشامدی‘ ابن الوقت اور موقع پرست تھے۔عمومی طور پر جن بچوں کو مطالعہ پاکستان پڑھایا جاتا ہے‘ اُن کے بالغ ہوتے ہی اُن پہ حقیقت کھلتی ہے یہ اصلی تاریخ نہیں بلکہ اکثر خود نمائی کی داستانیں ہیں اور حقیقت چھپائی گئی ۔ اس کی بڑی وجہ سینکڑوں سال کی اطلاعات کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہے‘ سوشل میڈیاانقلاب۔ حال ہی میں AIیعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس سمارٹ فون پر دستیاب ہو چکی جو آپ کو سارے حقائق بٹن دبانے سے بتا دیتی ہے۔ اگلے روز عمر ایوب کو FIAسائبر کرائم وِنگ کی طرف سے پہلا نوٹس ملا‘کل دوسرا۔ لکھا ہے عمران خان کے اکائونٹ سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اشتعال انگیز پوسٹ لگی۔ آپ اُس میں حاضر ہو کر مؤقف بیان کریں ۔ عمر ایوب مجھے ملے اور مشورہ طلب کیا۔ میں نے پوچھا: فال آف ڈھاکہ کے وقت آپ کی عمر کیا تھی ؟ عمر ایوب نے بتایا جی صرف ایک سال۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں FIAمیں نہ کوئی تاریخ دان ہے‘ نہ تاریخ نویس ۔ نہ ہی وفاقی پولیس کے ادارے کو تاریخ بدلنے یا تاریخ لکھنے کا قانونی اختیار ہے۔ ویسے پوچھنا یہ تھا تاریخ بیان کرنا یا اُس پہ تبصرہ کرنا کس تعزیرات میں جرم ہے؟
دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جج جسٹس حمود الرحمن کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے دو ججز نے سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ چار سال لگا کر مرتب کی۔ ہمارے فیصلہ ساز حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ فارم 47کے شوباز نے عدلیہ میں کالی بھیڑوں اور پولیس کی وردی پہننے والوں نے پولیس میں کالی بھیڑوں کی نشاندہی کی۔ اس سنگل سفید شوباز بھیڑ کو ہمت کر کے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ پبلک کرنی چاہیے۔ رپورٹ پبلک ہو گئی تو تاریخ ِفرشتہ کی تاریخ دہرائی جائے گی اور فرشتوں کی لکھی ہوئی تاریخ شرمائے گی۔