اس عیدِ قربان کی آمد پر ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہوں۔ ایسی کرب و الم کی آمیزش میں نے 29 سال پہلے اکتوبر کے مہینے میں بھگتی۔ جب میرا چھوٹا بھائی نصیر الدین ہمایوں‘ جو مجھ سے دراز قد وجیہ‘ شجاع اور دلنوازتھا‘ اچانک ہمیں چھوڑ گیا۔ تب سے اب تک عید آتی ہے تو ہمایوں کی یاد رُلاتی ہے۔ بہت سوں کے اصرار کے باوجود ہمایوں کے بعد میں کسی عید کے لباس کا اہتمام نہ کر سکا۔ موت ہر ذی روح پر آنی ہے۔ روح کی شکمِ مادر میں آمد کی طرح‘ جسدِ خاکی کی عالمِ ارواح کی طرف واپس روانگی امرِ ربی ہے۔ انسانی زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت بھی۔ جوانی کی موت میں چلے جانے والے کے شباب کی تصویر ہمیشہ تصور میں آویزاں رہتی ہے۔ اس لیے یہ صدمۂ ہجر ناگواری کے باوجود بھی اگرکوئی گوارا کر لے‘ تب بھی ایسی رحلت کی یاد بھلائے نہیں بھلائی جا سکتی۔ یہ ذاتی صدمے کی بات ہے۔ فلسطینیوں کے غزہ کا صدمہ ذاتی صدمات سے بہت آگے کی درد انگیز کیفیت میں مبتلا کر گیا۔ کئی حوالوں سے ایسا درد جو بہت کڑوا ہے‘ میٹھا درد نہیں۔ اسے برداشت کرنا کبھی بے بسی کا احساس دلاتا ہے اور کبھی سخت ذلت کا۔ اسی موضوع پر حضرت علامہ اقبال نے اپنی کیفیت یوں بیان کی:
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحتِ منزل سے ہے نشاطِ رحیل
اندھیری شب ہے‘جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا‘ قندیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اللہ رب العزت نے حضرت اسماعیلؑ کے جذبۂ قربانی کو ذبح عظیم کا فدیہ قرار دیا۔ آپ کے والد سیدنا ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیاء ہیں۔ حضرت محمد مصطفیﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ امامِ حسین بن علیؓ کی قربانی کو ایک نہیں‘ دو نسبتوں کی عظمت حاصل ہے۔ پہلی ابو الانبیاء کی ابراہیمی نسبت جبکہ دوسری خاتم الانبیاء کے پیارے نواسے کی حیثیت و محمدی نسبت۔ اسی لیے حضرت علامہ اقبالؒ نے حرمِ کعبہ میں دی گئی قربانی کو داستانِ حرم کی ابتدا اور کربلا میں دی گئی قربانی کو داستانِ حرم کی انتہا قرار دے کر قربانی کے موضوع پر ابلاغ کی انتہا کر دی۔ ایسی دل آویز انتہا جس کے با رے میں بلا شک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر لکھ کر اقبالؒ نے قلم توڑ دیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اور تاریخ بتاتی ہے کہ ہر پیغمبر کے دور میں وقت کا نمرود‘ شداد یا فرعون راہِ راست کے راہی مسافروں پر مظالم کے پہاڑ توڑتا آیا ہے۔ ساتھ ساتھ یہی تاریخ اس ازلی حقیقت کی گواہ بھی ہے تمام انبیاء کی ایک ہی روایت رہی۔ ان عظیم ہستیوں نے کبھی کسی ظالم کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔ اس روایتِ انبیاء کا اول و آخر‘ کلمہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔
جس کرۂ ارض پرہم جی رہے ہیں وہاں 57‘ ہر اعتبار سے طاقتور اسلامی ممالک بستے ہیں۔ ان سب کی آنکھوں کے سامنے اکیلے اور بے بس مگر بلا کے بہادر اور غیور غزہ کے عوام پر 37 لاکھ 33 ہزار ٹن بارود برسایا جا چکا ہے۔ ہماری دنیا کی تاریخ میں اس سے پہلے اتنی بڑی آگ اور خون کی ہولی اتنے چھوٹے سے علاقے میں کبھی نہیں کھیلی گئی۔ ان سبھی اسلامی ممالک کے منیجرز اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ غزہ کے فلسطینی7 اکتوبر 2023ء سے 17جون 2024ء تک‘ صبح و مسا‘ رات دن شامِ غریباں میں کھڑ ے ہیں۔ جس پر ساری دنیا میں یہودی راہب‘ کرسچن لڑکیاں اور لڑکے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے سکالر مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم سب اُن 56 ممالک کے باسی ہیں جنہوں نے کارپٹڈ بمبارڈمنٹ اور فاسفورس آگ میں جھلستے ہوئے فلسطینی عوام کو پانی کی ایک بوتل اور زخم پر رکھنے کے لیے مرحم کا پھاہا یا چاول کا ایک دانہ تک کھانے کو نہیں پہنچایا۔ غزہ کے فلسطینیوں کی قربانی تاریخِ عالمِ اسلام میں تیسری سب سے بڑی قربانی ہے۔ 56 اسلامی ملکوں کے منیجرز امریکہ اور مغرب میں اپنے ذاتی مفادات اور خاندانی جائیدادوں کے تحفظ کے بدلے اپنے ہاں احتجاجی مظاہرہ بھی نہیں ہونے دیتے۔ ایٹمی اسلامی جمہوریہ کے شہرِ اقتدار میں سینیٹر مشتاق کے دھرنے میں دو لاشے گرائے گئے۔ اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی اور بغاوت کی دفعات لگا کر 24 گھنٹے پہلے پرچے درج ہوئے۔ ساتھ درجن بھر گرفتاریاں بھی۔ سوشل میڈیا پر ان 56 ملکوں کے منیجرز کی حکومتوںکو 56 بہنیں اور ایک ایران کو 56 بہنوں کا اکلوتا بھائی پکارا جا رہا ہے۔ مغرب میں کوئی ایسی تعلیمی درسگاہ‘ کوئی بڑا ادارہ‘ کوئی پبلک فورم یا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں Free Palestine کا بینر اور نعرہ روزانہ کی بنیاد پر نہیں گونجتا۔ ایران‘ شام‘ لبنان‘ یمن قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے فلسطینیوں کی عملی حمایت کر رہے ہیں۔ جس کے عوض 56 ملکوں سے انہیں ایران کی پراکسی کا طعنہ ملتا ہے۔ انسانی تاریخ کی کسی جنگ میں اتنے بچے‘ اس تعداد میں صحافی‘ عورتیں‘ ڈاکٹرز‘ نرسز اور اقوام متحدہ کے امدادی کارکن قتل نہیں ہوئے۔ جاری کربلائے عصر زبانِ حال سے یوں فریادکناں ہے:
کربلا‘ میں تو گنہگار ہوں لیکن وہ لوگ
جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی
جسم سے‘ روح سے‘ احساس سے عاری کیوں ہیں
ان کی مسمار جبیں‘ ان کے شکستہ تیور
گردشِ حسنِ شب و روز پر بھاری کیوں ہیں
تیری قبروں کے مجاور‘ترے منّبر کے خطیب
فِلس و دینار و توجہُّ کے بھکاری کیوں ہیں؟
روضۂ شاہِ شہیداں پر اک انبو ہِ عظیم
بل ائیر اور کرسلر کے نئے ماڈل کو
اُسی خاموش عقیدت سے تکا کرتا ہے
جس کو کہہ دوں تو کئی لوگ بُرا مانیں گے
غیر تو رمزِ غمِ کون و مکاں تک پہنچے
کر بلا تیرے یہ غمخوار کہاں تک پہنچے؟
آج عیدِ قربان کا دن ہے۔ قربانی کی عید منانے کے لیے ہمیں زندہ چھوڑ جانے والے غزہ کے عظیم شہدا اور مجاہدوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے۔ نجانے کیوں ایک سوال ذہن سے نکلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا 56 اسلامی ممالک میں بسنے والے کروڑوں امیر لوگوں میں سے کسی ایک ملک سے بکرے کی ایک بوٹی‘ کسی بیل کا ایک نوالہ‘ کسی نانِ جویں کا ایک ٹکڑا‘ کسی منیجر میں غزہ کے بچوں تک پہنچانے کی ہمت ہے؟ قرآنِ حکیم میں قربانی کی تشریح یوں ہے: اللہ تمہارے تیار کیے گوشت اور بہائے گئے خون سے کوئی غرض نہیں رکھتا لیکن تم سے اتقا کا تقاضا کرتا ہے۔
صَرصَر کی زَد میں آ کے بھی روشن ہے اک چراغ
بجھنے لگے ہیں ثابت و سیّار دیکھنا
شاید تمہیں نصیب ہو اے کشتگانِ شب
رُوئے افق پہ صبح کے آثار دیکھنا