خبر چھپی ہے کہ مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے والے زہریلے کیمیاوی اجزا سے خطرناک امراض میں دس سے پندرہ فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ تفصیل کے مطابق زہریلا کیمیکل ’’کیلشیم کاربائیڈ‘‘ اس وقت تقریباََ پچانوے فیصد پھلوں خاص طور پر آم، آڑواور کیلے کے پھل کو پکانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ کیمیکل گیس ویلڈنگ میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں اس کا استعمال ممنوع قرار دیا جا چکا ہے‘ لیکن حیرت ہے کہ ہمارے ہاں ایسی باتوں پر توجہ دینے اور پوچھنے والا کوئی نہیں ۔انسان فطرتاً جلد باز واقع ہوا ہے ۔وہ ہر چیز میں جلدی اور شارٹ کٹ چاہتا ہے ۔پھل پکنے کے اپنے مراحل ہوتے ہیںمگروقت سے پہلے اسے مصنوعی طریقے سے پکا کر کاروباری فائدہ اٹھانے والوں کو انسانی جانوں سے کوئی سروکار نہیں کہ زہریلے کیمیکل سے کیسی کیسی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔اور تو اور ہم لوگ تو بھینسوں کو انجیکشن لگا کر دودھ نکالنے سے بھی باز نہیں آتے حالانکہ اس کے بھی مضر اثرات ہوتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل جب ایک حکیم صاحب نے ہمیں بتایا کہ ان دنوں خواتین کے چہروں پر بال بہت زیادہ ہونے کی وجہ انجیکشن والا دودھ ہے تو ہم بہت حیران ہوئے ۔ حکیم صاحب کا خیال تھاکہ ہماری روزمرہ کی خوراک میں کئی اشیاء دودھ سے تیار ہوتی ہیں ،اس کے علاوہ پیکٹ والے دودھ کی اندرونی سطح پر بھی ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جو دودھ کو خراب ہونے سے بچاتا ہے ۔یہ وہی کیمیکل ہے جو لاشوں (مُردوں) کو خراب ہونے سے بچانے میں بھی مدد دیتا ہے ۔حکیم صاحب کی اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو کوئی فارماسسٹ ہی بتا سکتا ہے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ایسے کیمیکل انسانی صحت کے لیے یقینا نقصان دہ ہیں۔انسان ساری بھاگ دوڑ جینے کی لیے کرتا ہے مگر اسی بھاگ دوڑ میں وہ اپنی صحت اور تندرستی( خصوصاََ کھانے پینے پر )زیادہ توجہ نہیں دیتا۔ مصروف لوگوں کے پاس توناشتے کے لیے بھی وقت نہیں ہوتا ۔بھاگتے بھاگتے ایک سلائس یا چائے لے کر کام پر نکل پڑتے ہیں ۔حالانکہ یہ ساری ’’کھیچل‘‘ دو وقت کی روٹی اور سکون کے لیے ہے۔دوسری طرف کتنے بے رحم ہیں وہ لوگ جو اشیائے خورونوش میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتے۔ہماری ہاں مرچ مصالحوں سے لے کرادویات تک میں ’’دونمبری‘‘ کی جاتی ہے۔ جعلی ادویات کی روک تھام کرنے والا کوئی نہیں ۔برائیلر مرغیوں کی خوراک میں مردہ جانوروں کی انتڑیاں،خو ن اور چربی بھی استعمال میں لائی جاتی ہے جو کینسر جیسی بیماریوں کا موجب بنتی ہے۔اسی طرح کیمیائی کھاد کے استعمال سے ہم فصلیں تو زیادہ اٹھانے لگے ہیں مگر اس اناج میں شامل ہونے والے زہریلے مواد سے دھیرے دھیرے کئی بیماریوں کا شکار بھی ہو رہے ہیں ۔ پچھلے ہفتے ہری پور تکیہ شریف میں بابا جی کی محفل میں فقیر منش سائیں مسکین نے ہماری خوراک کے حوالے سے دلچسپ اور فکر انگیز باتیں بیان کیں۔سائیں مسکین کا تعلق سابقہ ریاست بہاولپور کے نوابین کے ’’بازگر‘‘ خاندان سے ہے۔اس نے کچھ عرصہ نوابوں کی ’’کیمل فورس‘‘ میں بھی گزارا ہے۔سائیں مسکین نے اپنی ملازمت کے دنوں کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک بارہمارے علاقے میں فوجی جوان اپنے تربیتی کیمپ لگائے ہوئے تھے۔انہوں نے گائوں کی ایک بڑھیاسے دودھ لینا شروع کیا۔استعمال سے قبل دودھ کو باقاعدہ لیبارٹری میں چیک کروایا گیا تو اس میں دو تولہ زہر شامل تھا۔بڑھیا سے باز پرس ہوئی تو اس نے اپنی بھینسوںکو پیش کر دیااورکہا کہ آپ خود دودھ نکال کر دیکھ لیں ہم نے دودھ میں کوئی ایسی شے نہیں ملائی۔اب دودھ نکال کر دوبارہ لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیالیکن زہر کی مقدار میں کوئی فرق نہ آیا۔مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ مصنوعی (کیمیائی) کھادکے استعمال سے زہریلا مواد ،نہ صرف فصلوں میں منتقل ہوتا ہے بلکہ جانوروں کے دودھ میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔سائیں مسکین نے دیسی گھی کے حوالے سے بھی اسی قسم کا واقعہ سنایا لیجئے انہی کی زبانی سنیں اور اندازہ لگائیں کہ انسان اپنے ماحول اور خوراک سے کیسے متاثر ہو رہا ہے۔ ’’ایک روز ہمارے صاحب(کمانڈر) کو خالص دیسی گھی کی ضرورت پڑی میرا تعلق چونکہ دیہاتی علاقے سے تھا سو دیسی گھی خریدنے کے لیے رقم دے کر میری ڈیوٹی لگا دی گئی بلکہ اس کے لیے مجھے چند روز کی چھٹی بھی دی گئی۔میں اپنے گائوں آگیا اور ارد گرد کے علاقوں سے دیسی گھی اکٹھا کرنے لگا ۔اس وقت دیسی گھی ساڑھے تین روپے کلو ہوا کرتا تھا۔میں نے ایک کنستر(تقریباََ سولہ کلو) گھی اکٹھا کر لیا اور مقررہ وقت پر گھی لے کر صاحب جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔گھی کا کنستر اندر بھیج کر میں برآمدے میں بیٹھ گیا۔اندر بیگم صاحبہ گھی کو چیک کر رہی تھیں۔کچھ ہی دیر میں اندر سے بیگم صاحبہ کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔بیگم صاحبہ گھی دیکھ کر سیخ پہ ہو رہی تھیں۔ ’’یہ کیسا گھی ہے اور کتنی عجیب سمیل ہے، اف توبہ توبہ سارے گھر میں عجیب و غریب بو پھیل گئی ہے‘‘ پھر کنستر زور سے گرنے کی آواز سنائی دی ،مجھے محسوس ہوا جیسے میں ٹھڈو ں کی زد میں آگیا ہوں۔کچھ دیر میں مجھے اندر طلب کر کے بتایاگیا کہ گھی میں نہ جانے کیسی ملاوٹ ہے ہم اسے چیک کروائیں گے۔تھوڑا سا گھی لیبارٹری میں چیک کرانے کے لیے نکال کر باقی مجھے واپس کر دیا گیا۔میں گھی اٹھا کر شہر لے گیا ۔ خالص دیسی گھی کے شوقین لوگ اس کی خوشبو پہچانتے ہیں ۔ایک سنار نے پانچ روپے فی کلو سارا گھی خرید لیا ۔چند روز بعد صاحب کے گھر سے پیغام ملا وہ گھی لے آئو،مگر اب گھی کہاں سے آتا؟میں نے صاف جواب دیا کہ وہ تو فروخت ہو چکا ہے ۔ صاحب نے بتایا کہ لیبارٹری میں ٹیسٹ کرانے پر پتا چلا کہ گھی میں کوئی ملاوٹ نہیں البتہ اس میں ایک خاص قسم کی گھاس ’’کترن‘‘(جڑی بوٹی) کی خوشبو شامل ہے ۔کترن صحرا میں پائی جانے والی وہ جڑ ی بوٹی ہے جو گائیں اور بھینسیںچارے کے طور پر کھاتی ہیں۔جس کا اثر(خوشبو) ان کے دودھ میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔انہی کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ کترن کی بوٹی ایک خاص قسم کے عطر میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔ریاستی علاقے کے دیسی گھی میں کترن کی خوشبو گھی کے خالص ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔صاحب جی نے مجھے دوبار ہ دیسی گھی اکٹھا کرنے کے لیے چھٹی عنایت کر دی ۔ اور میں ایک بار پھر دیسی گھی کے کھوج میں نکل کھڑا ہوا۔