کچھ روز قبل خبر چھپی کہ بیرون ملک پاکستانی گدھوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے ، عزیز قارئین! یہاں گدھے کو روایتی علامت کے طور پر نہ لیا جائے ، گدھوں سے مراد واقعی گدھے ہیں ۔ خبر کی تفصیل یہ ہے کہ افغانستان اور روس سمیت وسط ایشیائی ریاستوں میں پاکستانی گدھوں کی مانگ بڑھنے سے ان کی قیمتوں میں دُگنا اضافہ ہو گیا ہے ۔ افغانی لوگ پاکستانی گدھوں کی منہ مانگی قیمت دے کر انہیں افغانستان اور ملحقہ ممالک میں بیچ دیتے ہیں ۔ مارکیٹ میں صحت مند اور جوان گدھے کی قیمت دس سے پندرہ ہزار جبکہ سدھائے ہوئے گدھے کی قیمت پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے۔ پاکستانی گدھوں کی مانگ کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے ممالک کے گدھوں کی نسبت تنومند اور زیادہ محنتی ہوتے ہیں۔ ایک گدھا سو‘ سوا سو کلو وزن اُٹھا کر میلوں چل سکتا ہے۔ ریڑھی کے آگے جُتا گدھا اس سے چار پانچ گنا زیادہ وزن کھینچ سکتا ہے۔ مذکورہ خبر سے گدھوں کو حقیر، نادان اور ذلیل سمجھنے والوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں کہ اب گدھوں پر حماقت اور حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے ا نھیں کچھ دیر سوچنا پڑے گا۔ ویسے ابھی یہ خبر سرحدی علاقوں تک محدود ہے جہاں گدھوں کی قیمتیں بلندوبالا پہاڑوں سے باتیں کرنے لگی ہیں لیکن جب پنجاب کے مسکین اور غریب گدھوں کے مالکان کو گدھوں کی مانگ بڑھنے کا پتا چلے گا تو یقینا وہ خوشی سے جھوم اٹھیں گے پھر وہ بھی گدھوں پر محض ظلم و تشدد کی بجائے ان کی صحت اور صفائی کا خاص خیال رکھنا شروع کر دیں گے۔ عین ممکن ہے کہ گدھوں کی خوراک ، صحت اور صفائی کے لیے جب سنجیدگی سے کام شروع ہو تو غریب عوام کے لیے بھی یہ ضروریات زندگی ضروری خیال کی جانے لگیں اور یوں عوام کو بھی ملاوٹ سے پاک اشیاء خورونوش دستیاب ہونے لگیں ۔ بات گدھوں کی ہو رہی تھی، اصل میں گدھے کو ہماری سماجی زندگی اور تاریخ میں ، وہ اہمیت کبھی حاصل نہیں رہی جو گھوڑوں کو حاصل رہی ہے۔ ہمارے ہاں گدھے کو حقیر جانور سمجھا جاتا ہے اسے گالی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم گدھوں سے گدھوں جیسا کام لیتے ہیں اور بیچارہ گدھا بھی بے تحاشہ کام کرتا ہے، اس سے گدھے کو ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ جسمانی طور پر نہایت مضبوط اور انتھک ہوگیا ہے۔ اس کی اسی انتھک طبیعت کا شہرہ اب روسی ممالک تک جاپہنچا ہے۔یوں اب گھوڑے کی نسبت ، گدھوں کی پزیرائی میں اضافہ ہونے لگا ہے ورنہ کبھی گھوڑے اور گدھے میں خاصا فرق ہوا کرتا تھا۔ ایک زمانے میں صدر زرداری کے گھوڑوں نے ہماری سیاست میں بڑا نام کمایا تھا۔ سنا ہے اُن دنوں کئی گھوڑے ان کی ناک کا بال ہوا کرتے تھے اور ان کے لیے اسلام آباد میں قیمتی اصطبل بھی تعمیر کرایا گیا تھا۔ان شاہی گھوڑوں کی خوراک میں اعلیٰ نسل کے سیب بھی شامل تھے۔اس دور میں آصف زرداری کے گھوڑوںپر کالم تک لکھے گئے مگر گدھوں کی قسمت دیکھیے کہ ان کو کسی نے منہ تک نہ لگایا۔ گدھوں ’’بے چاروں ‘‘کو تو انگریزوں کے دور میں بھی کبھی گھاس نہ ڈالی گئی، اُن دنوں بھی گھوڑا ہی پسندیدہ جانور سمجھا جاتا تھا۔۔ اعلیٰ اور خصوصاً عربی نسل کے گھوڑوں کی مقبولیت اور قدروقیمت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انگریز بہادر نے گھوڑی پال مربع سکیم کے ذریعے گھوڑوں کی افزائش ِ نسل پر خصوصی توجہ دی اور زمینداروں میں گھوڑوں کے نام پر جاگیریں اور مربعے تقسیم کیے۔ ان زمینداروں نے پھر انہی جاگیروں اور مزرعوں کے سبب سیاست میں شہرت حاصل کی اور اس کا حقیقی کریڈٹ ہمیشہ گھوڑوں کو جاتا ہے۔ اِس ’’ستم‘‘ سے گدھو ں میں پایا جانے والا ’’احساسِ کمتریــ‘‘ مزید مستحکم ہوا اور گدھے محض کمہاروں کے ظلم و تشدد کے لیے باقی رہ گئے۔تاریخ میں حضرت عیسیٰ کا گدھا بھی ملتا ہے مگر ہمارے ہاں تاریخی گدھے کہیں نظر نہیں آتے۔ البتہ ماہرینِ لسانیات نے گدھے کو علامت کی خلعت ضرور عطا کی اور گدھے کی علامت ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بن کر رہ گئی ۔ یوں کسی کو حقیر اور احمق قرار دینا ہو تو اسے فقط گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے میں گھوڑا طاقت اور گدھا حماقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگراب گدھوں کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ہی یہ علامت بھی تبدیل ہونے کا امکان ہے ، اب اسے حماقت کی بجائے دولت کی علامت سمجھا جائے گا۔ افغانی بھائیوں نے پاکستانی گدھوں کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سنا ہے علاقہ غیر میں گدھوں سے سمگلنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے ۔ سمگل کیا جانے والا سامان گدھوں پر لاد دیا جاتا ہے اور سدھائے ہوئے گدھے خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے مقررہ سرحدی منزل تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور اگر کبھی پکڑے بھی جائیں تو گدھوں کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر گدھوں کی قیمتیں اسی طرح بڑھتی رہیںتو حکومت گدھا پال سکیم بھی شروع کر سکتی ہے اور ہمارے ایک دوست کے مطابق اگر لوگ گدھوں پر سفر شروع کر دیں تو سی این جی اورپٹرول سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ جس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ میں لوگوں میں ایک ڈسپلن ،صبر اور قناعت پسندی کی عادت بڑھ رہی ہے ،گدھوں کو بطور سواری استعمال کرنے سے عاجزی اور مسکینی میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔جس سے معاشرے کی اخلاقی اقدار مضبوط ہوںگی۔ظاہر ہے اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوگا کہ یہ روز روز کے احتجاج اور مظاہرے بھی ختم ہو جائیں گے اور لوگ کسی بڑے سے بڑے سے بحران یا مصیبت میں بھی راضی خوشی ،چپ چاپ سر جھکائے زندگی بسر کرنے لگیں گے۔اور ہماری نئی حکومت اپنے عوام کو دعائیں دے گی کہ اسے سکھ چین سے اقتدار کے مزے لوٹنے کا موقع ملا… واللہ اعلم بالصواب…