’’ چیل ماس ‘‘ صدقہ اور دہشت گردی

حنیف گجر سے دودھ لیتے وقت میں اس سے دودھ میں صاف پانی ملانے کی اپیل کرتا رہتا ہوں ۔ وہ ہمیشہ میرے اس مطالبے پر دھیرے سے مسکرا کر بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیتا ہے۔ بجٹ کے اگلے روز تو اس نے آتے ہی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر پر بولنا شروع کر دیا ۔کہنے لگا:’’ اسحاق ڈار صاحب کو عام آدمی کی تکلیف کا بالکل احساس نہیں ۔ آج تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ عوامی آدمی ہرگز نہیں ہیں۔دیکھ لیا ناں آپ نے ! دودھ بھی مہنگا ہو گیا ہے…ــ‘‘ ــ’’ چلو تمہیں تو کوئی جواز مل گیا ہے دودھ مہنگا بیچنے کا…‘‘ میں نے برجستہ کہا تو اس نے سنجیدگی سے جواب دیا:’’نہیں سر جی ! بات یہ نہیں ہے۔اصل میں لوگ پہلے ہی دودھ بیچنے والوں کو پرلے درجے کا بے ایمان سمجھتے ہیں ۔ہم جتنا مرضی خالص دودھ بیچیں ، لوگ پھر بھی ہم پر شک کرتے ہیں ۔ بتائیں ایمان سے کیا آپ ہمیشہ مجھ پر دودھ میں پانی کی ملاوٹ کے حوالے سے طنزنہیں کرتے ــ؟‘‘ لیکن یار : ’’میں تمہیں پانی ملانے سے تو کبھی نہیں روکتا اور مجھے علم ہے کہ کوئی دودھ والا اس سے باز آ ہی نہیں سکتا ، میں تو دودھ میں ہمیشہ صاف پانی ملانے کا مطالبہ کیا کرتا ہوں۔‘‘ اوہ سرکار ! لوگ تو پہلے ہی دودھ کے پیسے دیتے وقت ہمارا ’’نک منہ‘‘ کھو ہ لیتے ہیں ۔حالانکہ بھینسوں کے چارے اور کھل وغیرہ کو آگ لگی ہوئی ہے ہم جب مہنگی خوراک کھلانے کے بعد دودھ حاصل کرتے ہیں تو سستا کیسے بیچ سکتے ہیں ؟اسحاق ڈار عوامی بندے ہوتے اور انہیں غریبوں کا احساس ہوتا تو قسم اللہ پاک کی ، وہ دودھ ، گھیو اور چینی کی قیمتوں پر ٹیکس کبھی نہ لگاتے ۔ اب تو ہر شے مہنگی ہو گئی ہے ۔ کھل والے نے بھی اپنے دام بڑھا لیے ہیں ۔ سوچتا ہوں بھینسیں بیچ کر کوئی اور کام شروع کر دوں ‘‘ لیکن تم اور کرو گے بھی کیا ؟تم نے بتایا تھا کہ یہ تمہارا خاندانی کاروبار ہے۔‘‘ جی سر جی! وہ تو بالکل ٹھیک ہے مگر دودھ مزید مہنگا بیچ کر میںرہی سہی عزت بھی دائو پر نہیں لگا سکتا۔ کبھی آپ ہماری دودھ دہی کی دکان پر آئیں تو آپ کو پتا چلے کہ گاہک کیسی کیسی باتیں کر جاتے ہیں دودھ دہی لیتے وقت …چنگا جی رب راکھا!!! حنیف گجر نے اپنی بات مکمل کی اور اچانک رخصت ہو گیا، جبکہ میں دیر تک اس کی باتوں میں کھویا رہا اور سوچتا رہا کہ عوام کا کونسا طبقہ ایساہے جسکا مہنگائی کچھ نہیں بگاڑتی۔میں انہی سوچوں میں گھرا تھا کہ بشیر مالی نے آ سلام کیا۔ آئو بشیر کیا حال ہے کہاں رہے تم اتنے دن سے نظر نہیں آئے۔میں نے اس کے سلام کے جواب میں کہا تو بشیر بولاــ’’ سرکار میں یہ بتانے آیا ہوں کہ آپ کوئی نیا مالی رکھ لیں اصل میں مجھ سے اب مالیوں کا کام نہیں ہو سکتا اور اب ایک کچھ سوکھا کام مل گیا ہے ۔ کون سا سوکھا کام مل گیا ہے، میں نے دریافت کیا تو وہ بولا ’’صاحب جی آپ کو تو پتا ہے کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔ میں نے اپنے دوست کے مشورے پر صبح کے وقت نہر کنارے ’’چیل ماس‘‘ بیچنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں کھیچل بھی کچھ کم ہے۔‘‘ چیل ماس کیا مطلب؟ وہ جی نہر کنارے ہاتھوں میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے شاپر لیے آپ نے کچھ لوگ دیکھے ہوں گے۔ گوشت کے یہ شاپر لوگ صدقہ خیرات کے طور پر خریدتے ہیں، ان شاپروں میں پھپھرے کی بوٹیاں ہوتی ہیں جو خریدنے والے چیل کوئو ں کو ڈال کر اپنے سر سے بلائیں ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔میرا دوست جیدی دوسال سے یہ کام کر رہا ہے۔ اب تو وہ ٹھیکیدار بن گیا ہے۔ اس نے دس بارہ لوگ اس کام کیلئے نہر کنارے کھڑے کئے ہوئے ہیں ۔ خود مجھے بھی اس نے اس کام پر لگا دیا ہے۔ میں نہایت تجسس سے بشیر کی باتیں سن رہا تھا۔میں نے جب اُس سے پوچھا، کس قسم کے لوگ یہ گوشت خریدنے آتے ہیں تو وہ بولا ’’ صاحب جی ہر قسم کے لوگ یہ چیل ماس خریدتے ہیں ، مجھے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں پھر بھی کئی لوگ میرے پکے گاہک بن گئے ہیں ۔ایک بزرگ تو ہر روز پانچ شاپر خرید کر کوئوں کو ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور کا صدقہ اتار رہا ہوں ۔ ایک اور خاتون جمعرات کو اپنے خاوند کا صدقہ اتارنے کیلئے چیل ماس پرندوں کو ڈالتی ہے۔اس کا خاوند بقول اس کے، ناحق کسی بنک فراڈ میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک سکوٹر والے صاحب بھی میرے پکے گاہک ہیں وہ چیل ماس اپنے سر سے وار کر نہر میں پھینک دیتے ہیں جبکہ ایک خوبصورت دوشیزہ لمبی گاڑی میں آتی ہے اور اپنے ہاتھوں سے گوشت چیل کوئوں کو ڈالتی ہے۔ سنا ہے وہ ٹی وی اداکارہ ہے۔بس جی اب لوگ مصیبتوں اور بلائو ں کو ٹالنے کیلئے یہی کچھ کرتے ہیں ۔‘‘ مالی اپنا مہینے کا حساب لے کر نجانے کب کا چلا گیا تھالیکن میں معاشرے کی ضعیف الاعتقادی کے بارے میں انگشت بدنداں تھا۔ صدقہ خیرات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر لوگ اپنی مشکلوں سے آزاد ہونے کیلئے نجانے کن کن چکروں میں چکرائے پھرتے ہیں ۔ مہنگائی اور امن عامہ کے مسائل نے لوگوں کی مت مار رکھی ہے۔ بجٹ پر واویلا ختم نہیں ہوا تھا کہ بلوچستان میں قائداعظم کی رہائش گاہ دہشت گردی کا نشانہ بن گئی اور کوئٹہ میں بولان میڈیکل کمپلیکس میں دہشت گردوں کے حملے میں کئی انسانی جانیں ضائع ہو گئی ہیں ۔وطن ِ عزیز کو نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔ آخر شہروں کو اسلحہ اور بارود سے پاک کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ کیوں دی نہیں جاتی۔ہمارے ہاں اشیائے ضرورت ،جس قدر مہنگی ہوئی ہیں انسانی زندگی اتنی ہی سستی ہو چکی ہے ،ہر روز کہیں نہ کہیں انسانوں کا خون بہایا جاتا ہے۔ دنیا کی حر ص و ہوس میں گھرے لوگوں کو کوئی خوف نہیں کہ آخر انہیں بھی ایک روز مرنا ہے جب ہم موت کو بھلا کر اسی دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دوسروں کا احساس محبت اور ہمدردی جیسے جذبات معدوم ہو جاتے ہیں ۔ معاشی مسائل نے ہمیں اندر سے بے حس اور کھوکھلا کر دیا ہے ۔ برداشت اور رواداری عنقا ہو چکے اور قانون کا کسی کو خوف نہیں … ڈالر کو اپنا ایمان سمجھنے والے کہیں اور کچھ بھی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں ورنہ مساجد ، امام بارگاہوں، اولیاء کے مزارات، ہسپتالوں اور عام لوگوں کے ہجو م کے علاوہ اب بانی ِ پاکستان قائد اعظم کی ’’ زیارت گاہ‘‘ پر دھماکے کرنے والے ،مسلمان اور پاکستانی کیسے ہو سکتے ہیں ؟؟ نئی حکومت کے نئے وزیر داخلہ کو سارے کام چھوڑ کر اپنی ایجنسیوں کو مزید چوکس کرنا ہو گااور سیاسی معاملات اور سیاستدانوںکی جاسوسی سے زیادہ ملک دشمن افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے علاوہ مجرموں کی سزائوں پر عملدرآمد کرانے سے ہی امن کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ورنہ عوام چودھری نثار علی خان کو بھی رحمان ملک ہی سمجھنے لگیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں