بجٹ کے بعد ہر طرف وزیر ِخزانہ اور ان کے بجٹ کے’’ قصیدے ‘‘ پڑھے جا رہے ہیں ، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ان کے چرچے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ’’ ہفتہ اسحاق ڈار ‘‘ منایا جارہا ہے۔ نیک بخت میڈیا بھی بال کی کھال اتارنے میں لگا رہتا ہے ۔ جیسے بھی ہوا اب تو بجٹ میں سرکاری ملازمین کی ( چلیں دس فیصد ہی سہی) تنخواہیں بڑھ گئیں، اب اِس پر یہ بحث کیسی کہ وزیر خزانہ نے دبائومیں آکر تنخواہوں میں اضافہ کا اعلان کیا ہے ۔ اسحاق ڈار اگلے روز ایک ٹاک شو میں درست فرما رہے تھے کہ انہوں نے تو نئے مالی سال 2013ء سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی بات کی تھی مگر لوگوں کو اس کی سمجھ نہیں آئی ، اب عوام کی سوجھ بوجھ ہی ایسی ہے کہ وہ سیدھی سادی بات بھی نہیں سمجھتے ،نجانے ہر کوئی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے معاملے پر لٹھ لے کر وزیر خزانہ کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ اور نجانے ہم سب اسحاق ڈار کی اگلے مالی سال کی بات کیوں نہ سمجھ سکے ۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اِس معاملے پر فی الفور اپنا بیان داغ دیا کہ اسحاق ڈار نے ان کے دور میں بھی انہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا جو انہوں نے قبول نہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ سرکاری ملازمین نے بھی آئو دیکھا نہ تائو احتجاج شروع کر دیا ۔ کالم نگاروں نے بھی بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کو بری طرح محسوس کیا حالانکہ اسحاق ڈار نے تو اگلے مالی سال میں دس فیصد تنخواہیںبڑھانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جب میڈیا اور مزدوروں کی طرف سے خواہ مخوا ہ کی تنقید آئی تو انہوں نے کھل کر اس کی وضاحت کر دی کہ ’’ عزیز ہم وطنو ! سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ ہوا چاہتا ہے۔ ‘‘ مجوزہ کمیٹی نے تو7 فیصد کا مشورہ دیا تھا مگر اسحاق ڈار نے اِس مشورے پر کان نہ دھرے اور سرکاری ملازمین کیلئے دس فیصد اضافہ کر دیا۔اب بھی اگر سرکاری ملازمین اِسے ’’ اونٹ کے منہ میں زیرہ کہیں ‘‘ تو یہ’’ زیرکی‘‘ نہیں ۔ اب ٹیکس تو دینا پڑے گا ، سرکاری ملازمین کا انکم ٹیکس سرکار خود ہی کاٹ لیتی ہے ۔ اِس کٹوتی سے تنخواہ اگر پہلے سے بھی کم ہو جائے تو اس میں اسحاق ڈار کا کیا قصور؟ ہمیں تو خوشی ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ قوم کے نمائندوں یعنی اراکین ِ اسمبلی کی ماہانہ تنخواہیں بھی بڑھا دی گئیں اور الائونسز میں بھی 100فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔یہ بہت نیک کام کیا گیا ہے ۔نئی حکومت کے اراکین اسمبلی اگر اپنی تنخواہیں بھی نہ بڑھوا سکیں تو پھر فائدہ ایسی سیاست کا؟ ہمارے غریب اراکین ِاسمبلی تو الیکشن میں اپنا سب کچھ خرچ کر دیتے ہیں ، کئی تو باقاعدہ مقروض ہو جاتے ہیں ۔ حکومت نے بہت اچھا کیا کہ ان کے الائونسز میں 100فیصد اضافہ کر دیا۔اب ہر رکن اسمبلی الائونس کے علاوہ اسی ہزار ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرے گا۔ اس’’ بندہ پروری‘‘ پر قوم وزیر خزانہ کا شکریہ ادا کرتی ہے کہ انہوں نے قومی نمائندوں کی ’’ سفید پوشی ‘‘ کا بھرم رکھ لیا ۔ اب بہت سے اراکین اپنے الیکشن اخراجات کے بل آسانی سے ادا کر لیں گے۔ جب تک قومی نمائندے خوشحال نہیں ہوں گے ، قوم کیسے سرخروہو سکتی ہے؟ ہماری ہی نہیں بلکہ ساری قوم کی خواہش ہے کہ ہمارے اراکینِ اسمبلی کو زندگی کی ساری سہولیات بہم پہنچائی جائیں، ٹھیک ہے اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں انہیں نہایت کم نرخوں پر کھانے فراہم کیے جاتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو یہ کھانے انہیں بالکل مفت مہیا کیے جائیں اور اگر کوئی ممبر کیفے ٹیریا سے ناشتہ یا دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا تو اسے اس کی رقم ادا کر دی جائے ، قوم کے نمائندے خوشحال ہو نگے تو دنیا ہمیں تحسین کی نظروں سے دیکھے گی ۔ عوام کا کیا ہے عوام تو روکھی سوکھی کھاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسے کرتے رہیں گے۔ ہم اپنے عوام کو داد دیتے ہیں کہ اب وہ ہر حال میں خوش رہنا سیکھ گئے ہیں ، جتنی بھی لوڈ شیڈنگ ہو جائے ، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگے، ہم ہر تبدیل شدہ صورتحال کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں لیکن جہاں تک ہمارے اراکین ِ اسمبلی کا تعلق ہے یہ بہت نازک لوگ ہوتے ہیں ، ساری زندگی سکھ چین اور آرام سے گزارتے ہوئے اگر وہ قوم کی نمائندگی کرنے اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں توقوم کو بھی ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ یہ کیا کم ہے کہ وہ اپنے گھر بارسے دُور اسمبلی کے اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں ۔ قوم کے دکھوں پر کڑھتے ہیں ، قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے منصوبے بناتے ہیں اگر مٹھی بھر اہم اور عظیم نمائندوں کی تنخواہوں اور الائونسزمیں100فیصد اضافہ ہو گیا ہے تو اس پر سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟ اب ہم اپنے نمائندوں کیلئے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ انہیں ’’ خو ش حال ‘‘ دیکھ سکیں ۔جیسے قوم نے اگلے روز ’’ فادر ڈے‘‘ منایا ،ہم چاہتے ہیں سال میں کم سے کم دو بار اراکین اسمبلی کادن بھی منایا جا ئے، اس روز پارلیمنٹ میں جشن منایا جائے اورتمام ممبرانِ پارلیمنٹ کو بونس دیا جائے ،اسی میں ساری قوم کی ’’ بھلائی ‘‘ ہے ۔ باقی جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اس کی فکر نہ کی جائے اس کیلئے بقول استاد باندریاں والا، ملک میں جیلوں کا جال بچھا کر عوام الناس کو جیل سے باہر کی ذلت سے نجات دلائی جا سکتی ہے کہ وہاں معمولی مشقت کے علاوہ کوئی ’’فکر ِ فاقہ ‘‘ نہیں ہوتا۔ دو وقت کی روٹی اگر عزت سے کہیں مل جائے تو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہو سکتی ہے؟ اوپر سے وہاں سکیورٹی کے مسائل بھی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو سب جیل قرار دے کر لوگوں کو قیدیوں کی مراعات دے دی جائیں ۔ آخر میں جناب عمران خان سے گزارش ہے کہ آپ نے ایک نیام میں دو مخدوموں کو ڈال رکھا ہے ، یہ قابل ِ تحسین تو ہے مگر ڈر ہے کہ باغی جاوید ہاشمی نیام سے باہر نہ آ جائیں کہ ان کی وضع داری میں دئیے گئے بیان کو آپ نے اتنا سنجیدگی سے لے لیا کہ ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کی نشست بھی شاہ محمود قریشی کو عطا کر دی ہے ۔ آخر ایسی بھی کیا جلد ی تھی ۔ ٹھیک ہے شاہ محمود قریشی قدرے زیادہ پھرتیلے اور چست ہیں مگر آخر سینیارٹی بھی کوئی چیز ہو تی ہے ۔ اب پچھلی نشست پر مخدوم جاوید ہاشمی کیسے بیٹھیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ جیسے شیخ رشید کوبقول اُن کے کسی کونے میں فٹ کر دیاگیا ہے ، جاوید ہاشمی کو بھی ہمراہ کر دیں ۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو… اور آپ جلد از جلد اسمبلی میں پہنچیں ورنہ بجٹ منظور ہو جائے گا ، ایسا نہ ہو کہیں ہمارے اراکین اسمبلی کو 100فیصد اضافے سے محروم کر دیا جائے۔